بھٹو صاحب کی عوامی سیاست میں
جہاں عام آدمی میں سیاسی شعور آیا وہاں ایسےکیمونسٹ اور سوشلسٹ ذہن رکھنے
والے بھی بہت سے سامنے آئے جو اپنے کردار سے تو کسی طرح بھی کیمونسٹ یا
سوشلسٹ نہیں تھے مگر اپنے آپ کو کامریڈ کہلاتے تھے، ایسے ہی ایک کامریڈ
کبھی کبھی مجھ سے ملنے میرئے گھر آتے تھے، گھر چھوٹا تھا اسلیے میں اُنکو
قریبی ہوٹل میں لے جاتا تھا، آپ یقین کریں وہ ایک گھنٹے کے لیے آتے تھے اور
غریبوں اور مزدوروں کے مسائل کا رونا روتے تھے لیکن جب چائے کے آڈر کا وقت
آتا تو وہ عام چائے پینے سے صاف انکار کردیتےاور مہمان ہونے کے باوجودخود
اسپیشل چائے کاآڈر دیتے اور چائے کے ساتھ وہ پیسٹری بھی ضرور کھاتے، لیکن
زبانی طور پر وہ غریبوں کی مشکلات کا غم کھاتے اور ہمیشہ یہ فرماتے اس ملک
میں جلد ہی سرخ انقلاب آئے گا۔
احمد صاحب جو اسلام آباد کے رہاشی ہیں اور جدہ میں ملازمت کرتے ہیں کل ایک
دوست کے گھر ملے تو انہوں نے سنایا کہ وہ چند دن پہلےہی چھٹیاں گذارنے
پاکستان آئے ہیں، انہوں نے بتایا کہ جدہ سے اسلام آباد آتے ہوئے میرئے دو
دوست بھی ساتھ تھے، اُن میں سے ایک جعفر تیموری تھے جوشاعر ہیں اور اپنا
حسب نسب مغلوں سے جوڑتے ہیں۔ ایمرٹس ایئرلاین کی پرواز سےہم پہلے جدہ سے
دبئی پہنچےجہاں سے ہمیں دو گھنٹے بعد دوسرئے جہاز سے اسلام آباد آنا تھا،
اسلام آباد کے جہاز میں سوار ہونے قبل ہم کوپتہ چلا کہ اس جہاز سے علامہ
طاہرالقادری بھی اسلام آبا جارہے ہیں اور اُن کے انقلابی اسلام آباد
ایئرپورٹ پر اُنکے استقبال کےلیے موجود ہونگے۔ ہم اکنانومی کلاس کے مسافر ،ہم
نے سوچا انقلابی رہنما بھی کہیں ہمارئے قریب ہی اکنانومی میں ہی موجود
ہونگے۔ مگر معلوم کرنے پر پتہ چلا کہ محترم انقلابی طاہر القادری بزنس کلاس
میں سفر کررہے ہیں۔ کینیڈا سے اسلام آباد براستہ لندن اور دبئی کے، بزنس
کلاس ٹکٹ کا کرایہ اور سستا ترین پیکیج سترہ ہزار کینیڈین ڈالر یعنی سولہ
لاکھ روپے سے زیادہ کی ٹکٹ بنتی ہے۔ یہ ٹکٹ اگر اکانومی کلاس کی خریدی ہوتی
تو ڈھائی لاکھ سے کم میں آجاتی۔ باقی کے تیرہ لاکھ سے کسی بیمار کا علاج
ہوجاتا، کسی بیوہ کی امداد ہوجاتی، کسی غریب کی لڑکی کی شادی ہوجاتی، کئی
غریب طلبا کے تعلیمی اخراجات ادا ہو جاتے۔ ۔ ۔ ۔ وہ جب یہ بتارہے تھے تو
مجھے وہ کامریڈ یاد آگے جو مجھ سے ملنے آتے تو اسپیشل چائے پیتے تھے۔ اب
جبکہ علامہ طاہر القادری دس انقلابی نکات کا اعلان کرچکے ہیں تو جیسے میں
اپنے مہمان کو اسپیشل چائے پلاتا تھا، بلکل اسطرح ہی پاکستانی عوام کوکنیڈا
سے آئے ہوئے اس مہمان کےنخرے تو اٹھانے پڑیں گے۔
احمدصاحب نے بتایا کہ جب جہاز اسلام آباد کے قریب پہنچا تو جہاز کے کپتان
نے سیٹ بیلٹ باندھنے کا اعلان کیا ۔ ہم سب نے سیٹ بیلٹ باندھ لیئے مگرمغلوں
کے چشم و چراغ جناب تیموری نے سیٹ بیلٹ نہیں باندھی میں نے جب اُنکی توجہ
دلائی اور سیٹ بیلٹ باندھنے کو کہا تو فرمایا ضرورت نہیں ہے، میرئے اصرار
کرنے پر وہ کہنے لگے کہ ٹھیک ہے آپکے کہنے سے باندھ لیتا ہوں ورنہ اس ہوائی
کوچوان کے کہنے سے کبھی نہیں باندھتا، یہ سن کر ہم تو اچھل پڑئے کہ جہاز کے
کپتان کو ہوائی کوچوان کہا جارہا ہے جبکہ وہاں سے گذرتی ایئر ہوسٹس نے بھی
یہ سن لیا، اُسنےمسکراتے ہوئے کہا کہ میں ابھی جاکر کپتان کو اُس کا نام
بتاتی ہوں۔ کپتان کے اسلام آباد اترنے کے اعلان کو کافی دیر ہوگی تو کچھ
پریشانی ہوئی ، اب جہاز اسلام آباد کے اُوپر چکر لگارہا تھا اور ہمیں اپنے
شاعر دوست پر غصہ آرہا تھا کہ شاید ایئرہوسٹس نے کپتان کو اُسکے نئے نام سے
آگاہ کردیا ہے اور کپتان غصے میں جہاز نہیں اتار رہا ہے۔ تقریبا جہاز نے
اسلام آباد کے اُوپر دس چکر کاٹنے کے بعد اپنا رخ لاہور کی جانب کیا تو پتہ
چلا کہ چونکہ اسلام آبادمیں علامہ کے مریدوں نے پولیس کی ٹھیک ٹھاک ٹھکائی
کی ہے اور علامہ کے انقلابیوں نے ایئرپورٹ کی حساس مقامات پر قبضہ کیا ہوا
ہے لہذا جہاز کو لاہور میں اتارنے کا فیصلہ کیا ہے، تھوڑی دیر بعد جہاز
لاہور ایئرپورٹ پر اتر چکا تھا۔ طاہر القادری نے طیارے سے اترنے سے انکار
کردیا اور پہلا مطالبہ کیا کہ انہیں اسلام آباد ائرپورٹ پر ہی اتارا جائے
پھر انہوں نے مطالبہ کیا کہ اگر پاک فوج کے کورکمانڈ ر یا فوج کے اعلیٰ
افسران سکیورٹی کی ضمانت دیں گے تو پھر طیارے سے گھرجائیں گے ورنہ انہیں
اسلام آباد میں ہی اتا را جائے لیکن وفاقی حکومت نے یہ مطالبہ مسترد کردیا
۔ طاہر القادری کسی صورت اپنے مطالبات سے دستبردار نہیں ہورہے تھے، چھ
گھنٹے سے لاہور میں جہاز پر قبضہ کیے بیٹھے تھےاور ہوائی کوچوان کی نمائندہ
ایک ہوائی میزبان اُنکو شاعرانہ انداز میں سمجھارہی تھی:۔۔
ابھی وقت ہے جہاز چھوڑ جا
یہ سفر نہیں عذاب ہے۔۔۔۔۔۔یہاں ہر قدم پہ سراب ہے
یہاں بدگمانی کا راج ہے۔۔۔۔۔یہاں بے وفائی رواج ہے
ابھی ہوش کھونے کے دن نہیں۔۔ابھی تیرئے رونے کے دن نہیں
ابھی وقت ہےجہاز چھوڑ جا
اُسی درمیان میں اس سیاسی دنگل میں ایم کیو ایم کود پڑی اور گورنر سندھ
ڈاکٹر عشرت العبادنے طاہر القادری، وزیراعظم نواز شریف، پنجاب کے وزیراعلی
شہباز شریف اور گورنر پنجاب سے فون پررابطہ کیا اور تھوڑی دیر بعد ہی کہ
اچانک مبارک ہو، مبارک ہو کا شور مچ گیا اور طاہر القادری کے ایک انقلابی
نے اعلان کیا کہ:۔
انقلاب کا پہلا مرحلہ مکمل ہو گیا۔۔۔۔۔قائد انقلاب کے چار مطالبات حکومت نے
مان لیے ہیں جس پر فورا عمل ہوگا۔
پہلا مطالبہ ۔۔۔ذاتی سیکیورٹی میں گھر جانے دیا جائے۔
دوسرا مطالبہ ۔گارڈز کو طیارے اور رن وے تک آنے دیا جائے۔
تیسرا مطالبہ ۔۔بلٹ پروف گاڑی دی جائے اور گورنر ساتھ جائیں۔
چوتھا مطالبہ ۔۔میڈیا میرے جانے کی براہ راست کوریج کرے ۔
جس انقلابی لیڈر کے یہ مطالبات ہوں اُس سے اُس کی انقلابی ذہنیت کا پتہ
چلتا ہے، طاہر القادری کو پتہ ہونا چاہیے کہ اپنے لیے آسانی کے مطالبات
منوانے سے انقلاب نہیں آیا کرتے اور نہ ہی انقلابی تقریروں سے انقلاب آیا
کرتے ہیں، انقلاب کےلیے انقلابی سوچ کو عمل کی بھٹی میں پکانا پڑتا ہے جو
شاید علامہ طاہرالقادری کےلیے مشکل ہو۔ |