تحفظ پاکستان بل کی منظوری اور تحفظات

سینیٹ کے بعد قومی اسمبلی میں تحفظ پاکستان بل 2014 منظور ہو چکا ہے، جو کہ صدر کے دستخط کے بعد دو سال تک نافذ العمل رہے گا۔ اس بل کے تحت سیکورٹی فورسز کے اہلکار گریڈ 15 کے افسر کی اجازت سے مشتبہ افراد کو گولی مار سکیں گے اور مشتبہ افراد کے موبائل فون کے ڈیٹا کو بھی عدالت میں ثبوت کے طور پر پیش کیا جا سکے گا۔ تحفظ پاکستان ایکٹ امریکا کے پیٹریاٹ ایکٹ سے زیادہ مختلف نہیں ہے، جو 9/11 کے بعد بش انتظامیہ کے کانگریس میں پیش کرنے سے قانون کی شکل اختیار کر گیا تھا۔ پیٹریاٹ ایکٹ کے ذریعے قانون نافذ کرنے والے اداروں کو بغیر وارنٹ تلاشی، مالی معاملات کی مانیٹرنگ، جاسوسی، کسی کو حراست میں لینے یا بے دخل کرنے کے وسیع تر اختیارات دیے گئے تھے۔ پیٹریاٹ ایکٹ کانگریس میں پیش کیے جاتے ہی بش انتظامیہ کو شدید تنقید، مزاحمت اور مخالفت کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ اس قانون کے ذریعے اگست 2002 میں 1200 افراد کو کوئی قانونی معاونت فراہم کیے بغیر حراست میں رکھا گیا تھا اور امریکی عدالت نے ایسی خفیہ حراستوں کو غیر آئینی قرار دیا تھا۔ پاکستان میں بھی پیٹریاٹ ایکٹ طرز کا قانون ”تحفظ پاکستان بل“ ایک عرصے سے زیر بحث ہے اور مسلسل اس بل پر تنقید کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ تین ماہ قبل جب حکومت نے تحفظ پاکستان بل منظوری کے لیے سینیٹ میں پیش کیا تو پاکستان پیپلز پارٹی، پاکستان تحریک انصاف، ایم کیو ایم، عوامی نیشنل پارٹی، جماعت اسلامی، جمعیت علمائے اسلام، بلوچ قوم پرست سیاسی جماعتوں اور سول سوسائٹی کے ارکان نے تحفظ پاکستان بل کو کالا قانون قرار دیا تھا۔ ساتھ ان جماعتوں نے اس بل کی منظوری کی صورت میں اس کے خلاف ملک گیر احتجاجی تحریک چلانے کا اعلان بھی کیا تھا اور سماجی جماعتوں نے اس بل کی مخالفت کرتے ہوئے اعلان کیا تھا کہ اگر پارلیمنٹ نے تحفظ پاکستان قانون کو منظور کیا تو سیاسی جماعتوں کے ساتھ ساتھ سول سوسائٹی کے ارکان بھی سڑکوں پر ہوں گے اور کسی صورت بندوق کے اس قانون کو نافذ نہیں ہونے دیں گے۔ بارہا سیاسی جماعتیں اس بل کے خلاف اسمبلی سے واک آﺅٹ بھی کر چکی ہیں۔ دو جولائی کو ماضی میں اس بل کی مخالفت کرنے والی پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کی حمایت سے یہ بل منظور ہوگیا ہے، لیکن ایم کیو ایم کے سربراہ نے اس بل کی منظوری کے بعد اس کی حمایت سے ہاتھ کھینچتے ہوئے کہا ہے کہ تحفظ پاکستان بل کالا قانون ہے، ساتھیوں نے مشاورت کے بغیر عجلت میں حمایت کی ہے۔ جبکہ پیپلز پارٹی نے بھی مشروط حمایت کا اعلان کیا ہے۔

”تحفظ پاکستان بل “ کی منظوری کے بعد سیاسی و سماجی حلقوں کی جانب سے اس پر سخت تنقید کی جا رہی ہے۔ جمعرات کے روز جے یو آئی کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن نے ایک بیان میں کہا ہے کہ ان کی پارٹی کو تحفظ پاکستان قانون پر ابھی بھی شدید تحفظات ہیں اور ہم اسے کالا قانون سمجھتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ پارٹی ارکان نے نہ تو اس بل پر بحث میں حصہ لیا، نہ ہی ووٹنگ کے وقت وہ ایوان میں موجود تھے۔ جماعت اسلامی کے سربراہ سراج الحق نے بھی اس بل پر تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ سینیٹ سے تحفظ پاکستان کے نام سے شہریوں کو بنیادی انسانی حقوق سے محروم کرنے کے بل کی منظوری انتہائی افسوس ناک ہے۔ یہ بل آئین کی اس بنیادی روح کے خلاف ہے، جس میں شہریوں کے بنیادی حقوق کی حفاظت کی ضمانت دی گئی ہے۔ تحفظ پاکستان بل سویلین حکومت کا ایسا فیصلہ ہے جس کی مثال آمرانہ دور حکومت میں بھی نہیں ملتی۔ عدالت عظمیٰ کو کسی صورت بھی اس بل کو قبول نہیں کرنا چاہیے۔ جبکہ پاکستان تحریک انصاف نے تحفظ پاکستان بل کو سپریم کورٹ میں چیلنج کرنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ تحفظ پاکستان بل کو سپریم کورٹ میں چیلنج کرنے کے لیے ایم کیو ایم اور جماعت اسلامی کی حمایت حاصل کر لی ہے۔ جلد ہی تحفظ پاکستان بل کو عدالت عظمیٰ میں چیلنج کریں گے۔ تحفظ پاکستان بل کی کئی شقیں آئین سے متصاد م ہیں۔ بلوچستان نیشنل پارٹی کے سربراہ سردار اختر جان مینگل کا کہنا تھا کہ تحفظ پاکستان جیسے قانون کی منظوری کے بعد اب عدالتوں کو تالے لگا دینے چاہیئں۔

انسانی حقوق کی عالمی تنظیم ہیومن رائٹس واچ نے بھی تحفظِ پاکستان بِل کو جابرانہ قرار دے کر حکومت پاکستان سے اسے واپس لینے کا مطالبہ کیا ہے۔ ہیومن رائٹس واچ کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ دو جولائی کو پاکستان کی قومی اسمبلی اور سینیٹ کی جانب سے منظور ہونے والا انسداد دہشت گردی کا یہ قانون بنیادی انسانی حقوق اور آزادی کے متعلق پاکستان کی بین الاقوامی ذمہ داریوں کی خلاف ورزی ہے۔ ہیومن رائٹس واچ میں ایشیائی امور کے ڈائریکٹر فیلِم کائن نے کہا کہ انسدادِ دہشت گردی کا یہ قانون مبہم اور اس کا دائرہ کار بہت وسیع ہے، جو حراست میں موجود مشتبہ افراد کے استحصال کا موقع فراہم کرے گا اور ایسا استحصال پاکستان میں پہلے ہی بہت عام ہے۔ وزیر اعظم نواز شریف اس بات کو یقینی بنائیں کہ وہ اس قانون کی بجائے ایسا قانون لائیں جو دہشت گردی کے خلاف جنگ میں بنیادی انسانی حقوق کی حفاظت کرتا ہو۔ ہیومِن رائٹس واچ کی جانب سے اس قانون کی مخالفت کی بنیاد بظاہر انٹرنیشنل کووننٹ آن سول اینڈ پولیٹیکل رائٹس یا آئی سی سی پی آر ہے، یعنی شہری اور سیاسی حقوق کا بین الاقوامی معاہدہ، جس کی پاکستان نے 2010 میں توثیق کی تھی۔ ہیومِن رائٹس واچ نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ تحفظِ پاکستان قانون آزادیِ اظہار، ذاتی زندگی اور پ ±رامن اکٹھے ہونے جیسے بنیادی حقوق کو پامال کرے گا، جبکہ آئی سی سی پی آر ان حقوق کی ضمانت دیتا ہے۔ ہیومِن رائٹس واچ نے اپنے بیان میں تحفظِ پاکستان کی پانچ شقوں کی نشاندہی کی ہے، جن کے باعث بقول تنظیم کے شہری اور سیاسی حقوق کے بین الاقوامی معاہدے آئی سی سی پی آر کی خلاف ورزی ہوتی ہے۔ ایک دہشت گردی کی کارروائی کی تعریف مبہم ہے، مثلاً قتل، اغوا یا اغوا برائے تاوان میں یہ نہیں بتایا گیا کہ کس صورت میں ایسی کارروائیاں دہشت گردی ہوں گی اور تحفظ پاکستان بل کے زیرِ اثر ہوں گی۔ اسی طرح انٹرنیٹ یا انفارمیشن ٹیکنالوجی سے منسلک جرائم، ہیومِن رائٹس واچ نے شبہ ظاہر کیا ہے کہ اس شق کے ذریعے انٹرنیٹ پر ہونے والے کسی بھی پرامن احتجاج پر پاکستان کی سلامتی کے لیے خطرے کا ٹھپہ لگا کر دہشت گردی قرار دیا جا سکتا ہے۔ ہیومِن رائٹس واچ کے نزدیک پولیس اور سیکورٹی فورسز کو بغیر وارنٹ کے گرفتار کرنے کا اختیار دے دینا بھی آئی سی سی پی آر کی شق 17 کی خلاف ورزی ہے۔ انسانی حقوق کی تنظیم کے مطابق اس طرح تحفظِ پاکستان بل میں، ثبوت فرام کرنے کی ذمہ داری، ملزم پر عاید کر دی گئی ہے، جس کا مطلب یہ ہوا کہ اس سے بے گناہ ہونے کا وہ حق چھین لیا گیا ہے، جب تک وہ مجرم ثابت نہ ہو اور اِس بے گناہی کی ضمانت آئی سی سی پی آر کی شق چودہ میں دی گئی ہے۔ پانچویں شق جس پر سوال اٹھایا گیا ہے، وہ ہے حکومت کے پاس حراست، تفتیش، تحقیق اور مقدمے کی کارروائی کے مقام چننے کا اختیار۔ ہیومِن رائٹس واچ کا کہنا ہے کہ تحفظِ پاکستان بِل میں یہ موجود یہ اختیار موجودہ عدالتی نظام کو نظرانداز کر سکتا ہے، جو بین لاقوامی شہری اور سیاسی حقوق کے معاہدے کی شق نو کی خلاف ورزی ہو گی۔

دوسری جانب قانونی ماہرین نے تحفظ پاکستان ایکٹ کی بیشتر شقوں کو بنیادی حقوق سے متصادم قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اس قانون کی موجودگی میں آئے روز ماڈل ٹاﺅن جیسے سانحے جنم لیتے رہیں گے۔ اگرچہ دہشت گردی کے خلاف سخت قوانین وقت کی اہم ضرورت ہیں، لیکن ایکٹ سے بنیادی حقوق کے متصادم شقوں کو ختم کرنا بھی ناگزیر ہے۔ قانونی ماہرین کے مطابق تحفظ پاکستان بل میں قانونی حلقوں سے مشاورت نہیں کی گئی، بعدازاں پارلیمنٹ میں بھی اس پر اس طرح بحث نہیں ہوئی، جیسے ہونی چاہیے تھی، اسے اعلیٰ عدالتوں میں چیلنج کیا جائے گا۔ تحفظ پاکستان بل کا جائزہ لینا اعلیٰ عدلیہ کی ذمہ داری ہے، کیونکہ پولیس پہلے ہی شہریوں کے حقوق کی پامالی میں اپنا ثانی نہیں رکھتی۔ تجزیہ کاروں کے مطابق بعض حلقوں نے اسے سپریم کورٹ میں چیلنج کرنے کا اعلان کیا ہے۔ یہ بل آنے والے دنوں میں حکومت کے لیے دو محاذوں پر بڑا امتحان ہے، پہلا یہ اگر اسے اعلیٰ عدلیہ میں چیلنج کر دیا گیا تو اس کا دفاع کیسے کرے اور ا س قانون کی منظوری کے بعد دہشت گردی پر قابو پانے کے لیے سیکورٹی ایجنسیوں کے کام کو کیسے مانیٹر کیا جائے۔ پھر دہشت گردی کے واقعات سے متعلق مقدمات چلانے کے لیے خصوصی عدالتیں قائم کرنا، کیوں کہ ایک ایسا قانون جس پر ملک کے ایک بڑے حلقے کے تحفظات ہونے کے باوجود اگر اس پر عملدرآمد نہیں ہوتا تو یہ حکومت کی بہت بڑی بدنامی کا باعث ہو گا۔
عابد محمود عزام
About the Author: عابد محمود عزام Read More Articles by عابد محمود عزام: 869 Articles with 702477 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.