مسلمانوں کا جلادِاعظم جارج
ڈبلیو بش کا انکشاف
مشرف اپنے گناہوں کی توبہ تلا کرلیں ورنہ ....رونہ
امریکہ میں نائن الیون کو ایک واقعہ کیا رونما ہوگیا ؟گویا کہ امریکیوں نے
اِس کا بدلہ پوری مسلمان قوم اور بالخصوص ہم پاکستانیوں سے اِس طرح سے لینا
شروع کردیا ہے کہ تب سے آج تک سرزمین ِپاکستان کے زندہ دِل ساڑھے سولہ کروڑ
عوام پر امریکی گِدھوں کی حیلے بہانے سے یلغار جاری ہے۔ اور اِن گِدھوں کے
ڈرون حملوں، بم دھماکوں، خودکش حملوں اور فائرنگ جیسے واقعات سمیت اور دیگر
گھناؤنی کاروائیوں کے نتیجے میں پوری سرزمین ِ پاکستان کا زرہ زرہ آج بھی
اپنے ہی قوم کے مسلمان باسیوں کے مقدس خون سے رنگین ہوا جارہا ہے اور خدا
ہی جانے آخر کب تک اِس گل زمین ِ پاکستان کا چپہ چپہ اپنے ہی معصوم شہریوں
کے خون سے سرخ ہوتا رہے گا۔ اور ہم اپنے کاندھوں پر اپنے ہی پیاروں کے لاشے
کب تک اٹھاتے رہیں گے۔؟
اور اب تو ہائے رے...افسوس کہ کیری لوگر بل کی منظوری اور اِس کی پہلی قسط
کی وصولی کے بعد یہ سلسلہ اور زور پکڑ جائے گا اور معصوم پاکستانیوں کا خون
اور زیادہ بہے گا تو تب پاکستانی قوم کے لہو کا کیا عالم ہوگا۔ وہ اُس وقت
دیکھا جائے گا کہ وہ کیا دل دہلا دینے والا منظر ہوگا۔ مگر اتنا ضرور ہے کہ
آئندہ پاکستان میں جتنا بھی انسانی لہو بہے گا؟ اور جو کچھ بھی ہوگا؟ وہ
اِس ملک اور قوم کی بقا و سلامتی اور اِس کے استحکام کے لئے ٹھیک نہیں ہوگا۔
یہاں ضرورت اِس امر کی ہے کہ اَب وقت آگیا ہے کہ حکومت کو بغیر ہچر مچر کئے
قوت کے استعمال سے گریز کرتے ہوئے ہر صورت میں اُن عناصر سے مذاکرات کرنے
چاہیں جن کو امریکا اپنا بڑا دشمن گردانتا ہے اور جس نے اپنی ایک سوچی
سمجھی سازش کے تحت انہیں پاکستان کا بھی دشمن بنا دیا ہے۔ حالانکہ وہ شائد
پاکستان کے دشمن کبھی بھی نہ رہے ہوں۔ جنہیں اَب امریکا نے بنا کر پیش
کردیا ہے۔
کیونکہ امریکیوں نے اپنے سانحہ نائن الیون کے بعد یہ تہیہ کر رکھا ہے کہ
دنیا میں جہاں کہیں بھی اور کسی بھی قسم کی دہشت گردی ہورہی ہے۔ اِس کے
ڈانڈے بس پاکستان سے ہی ملتے ہیں۔ اور امریکی محض اپنے اِس مفروضے کی وجہ
سے پاکستان سے اپنے انتقام کی آگ میں ایسے اندھے ہوچکے ہیں کہ اِنہوں نے
پاکستان پر کیری لوگر بل کی شکل میں اپنے ڈالر بے دریغ نچھاور کرنے کی ایک
ایسی منصوبہ بندی بنالی ہے کہ اَب انہیں پاکستانیوں کی جانب سے اِس بل پر
ہونے والے تحفظات کی بھی کوئی فکر نہیں رہی ہے۔ اَب انہیں اگر کوئی فکر ہے
تو بس صرف اتنی سی ہے کہ کسی بھی طرح سے پاکستانیوں کو اِس بل کی پہلی قسط
وصول ہوجائے۔ تو پھر ہم( امریکی)اِن خوددار پاکستانیوں کی بقاو سالمیت کا
کیا حشر کرتے ہیں۔ ؟ کہ دنیا دیکھے گی۔ اِس کے بارے میں نہ تو پاکستانی
حکمرانوں کو ہی کچھ علم ہے؟ اور نہ ہی پاکستانی عوام ہی ہمارے بعد والے
منصوبوں سے واقف ہے۔ اور جو تھوڑے بہت آئندہ کی امریکی منصوبہ بندیوں سے
واقف بھی تھے تو اِن کے تحفظات ہماری (امریکی) لیڈی اور لومڑی جیسی تیز اور
انتہائی شاطر وزیر خارجہ ہیلری کلنٹن نے پاکستان کے تین روزہ اپنے دورے کے
دوران دور کر دیا ہے۔ نہ صرف ہیلری نے پاکستانیوں کے تحفظات کو ہی دور کرنے
میں اپنا اہم رول ادا کیا ہے بلکہ اِس نے اپنی چکنی چپڑی باتوں سے پاکستان
حکمرانوں اور عوام پر ایسا جادو کیا ہے کہ پاکستانی حکمران اور عوام اَب وہ
ہی چاہیں گے اور ایک قدم آگے بڑھ کر کریں گے جو امریکا چاہئے گا۔ یعنی وہ
کام جو 11ستمبر2000 کو اُس وقت کے امریکی صدر نے کالن پال سے رات گئے۔
پاکستان کے اُس وقت کے صدر کو ایک فون کال کر کے کروایا تھا۔ وہی کام آج
امریکی وزیر خارجہ ہیلری کلنٹن پاکستان آکر اپنی دل لگی کر کے کر گئی ہے۔
اتنا فرق ہے صدر اوباما حکومت میں اور بش میں ....اوباما مصلحت سے کام لیتا
ہے۔ اور بش جذبات سے کام لینے کا جارحیت پسند امریکی صدر تھا۔
جبکہ اِسی نقطے کو آگے بڑھاتے ہوئے اُدھر گزشتہ دنوں سابق امریکی صدراور
مسلمانوں کا جلادِاعظم جارج ڈبلیو بش نے اپنے دورہ بھارت کے دوران ایک
انٹرویو میں والہانہ انداز سے یہ انکشاف کیا ہے کہ اُس نے اپنے دورے حکومت
میں نائن الیون کو امریکہ میں پیش آنے والے سانحہ امریکی ٹرید سینٹر کی
تباہی کے بعد خاص طور پر پاکستان کے بجائے جنرل پرویز مشرف حکومت کی حمایت
اِس لئے کی کیونکہ اِس کے عوض اُس وقت کے پاکستانی آرمی چیف جنرل پرویز
مشرف نے (شائد ہمیں خوش کرنے کے لئے ) ہر صورت میں طالبان کے خلاف جنگ میں
واشنگٹن کی مدد کرنے کا وعدہ کیا تھا۔ اور ہم امریکیوں کو اُس وقت اِس پر
بڑا ناز تھا کہ جنرل مشرف نے واشنگٹن کے ساتھ کئے گئے اپنے وعدے کو اپنے
دور حکومت کے آخری روز تک نبھایا ہے۔ یہ اور بات ہے کہ مشرف کو اپنی حکومت
کے خاتمے کے باوجود بھی اَب بھی پورا یقین ہے کہ اگر انہیں دوبارہ امریکی
آشِیرباد سے اقتدار میں آنے کا موقع ملا تو اِنہیں قوی اُمید ہے کہ یہ پہلے
سے کہیں زیادہ طالبان کے خلاف اور امریکیوں کے مفادات میں کام کریں گے۔ مگر
انہیں (مشرف) کو یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ امریکا کی ہمیشہ سے یہ خوبی رہی
ہے (بھلے سے کوئی اِسے امریکی خامی کہہ لے) کہ ایک مرتبہ کسی سے کام نکالنے
کے بعد امریکا پھر دوبارہ اُسے نہیں آزماتا اور اِس بِنا پر اَب مشرف کو
ہماری چاپلوسی چھوڑ دینی چاہئے
کہ ہم ہر بار اِس کی چاپلوسی میں آکر اِس سے اپنا کام کرواتے رہیں گے تو یہ
مشرف کی بھول ہے۔ بہرحال! اَب امریکا نے واضح کردیا ہے کہ امریکا کے لئے
مشرف کسی کام کا آدمی نہیں رہا ہے۔ اِسے اَب امریکا سے کسی اچھے کی اُمید
نہیں رکھنی چاہئے اور اَب اگر اِسے کچھ کرنا ہی ہے تو اَب مشرف کو اپنے کئے
گئے گناہوں کی خدا اور پاکستانیوں سے معافی ضرور مانگنی چاہئے اور اپنے
بچاؤ کی تدابیر کرنی چاہئے تاکہ یہ اَب اپنی باقی کی زندگی توبہ تلا میں
گزار دے۔ تو یہ اِس کے ہی حق میں بہتر ہوگا۔ ورنہ .....ورنہ....قوم اِس کا
احتساب خود کرے گی اور قوم کے نزدیک اِس کا احتساب سوائے سزا...... کہ اور
کچھ نہیں ہے بس۔ |