دستار انہیں دی جو سر ہی نہیں رکھتے

امریکہ اور پاکستان کی دوستی کی داستان اتنی ہی پرانی ہے جتنی کہ آزادی پاکستان کی تاریخ، فرق صرف اتنا ہے کہ آزادی پاکستان کا دن ہم ہر سال قومی جوش و جذبے سے مناتے ہیں اور اپنی آزادی کی یاد کو تازہ کرتے ہیں جبکہ دوستی کی یاد تازہ کرنے کیلئے ہر دس دن بعد کوئی نہ کوئی امریکی عہدہ دار پاکستان میں پہنچ آتا ہے۔ حالانکہ اب ان کو ایسا کرنے کی ضرورت نہیں رہی کیونکہ اب انہوں نے ہمارا پہرہ دینے کیلیے باقاعدہ فوج بٹھا دی ہے، بلیک واٹر کو سرگرم کر دیا ہے اور میرینز اسلام آباد میں بٹھا دیے ہیں۔ سب باتیں اپنی جگہ مگر کیا ہم نے کبھی یہ جاننے کی کوشش کی کہ امریکہ پاکستان دوستی کی حقیقت کیا ہے۔ امریکہ کے مطابق ہم میں لاتعداد خامیاں ہیں، مگر یہ سب کچھ جاننے کے باوجود وہ ہماری دوستی سے دستبردار نہیں ہوتا ۔ آخر معاملہ کیا ہے۔
خطائیں دیکھتا بھی ہے میری عطائیں کم نہیں کرتا
کچھ سمجھ نہیں آتا تو اتنا مہرباں کیوں ہے

اس سب کے باوجود ہمیں کیری لوگر بل کے تحت اتنی بڑی امداد سے نوازا جا رہا ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ یہ سب کچھ ہمیں جال میں جکڑنے کے لیے ہے جو کہ امریکہ کی طویل المدت پالیسی ہے۔ امریکہ نے یہ پالیسی ١٩٧٠ کی دھائی میں مرتب کی اور اب بھی اس پر اسی طرح سے کام جاری ہے۔ ١٩٧٤ میں امریکہ میں ایک خصوصی کمیٹی کا قیام عمل میں لایا گیا جس کا مقصد آنے والے وقت میں امریکہ کو درپیش خطرات کی نشاندہی کرنا تھا۔ کمییٹی نے لگاتار اجلاسوں کے بعد سفارشات مرتب کیں۔ اس کمیٹی کا سربراہ پاکستان کے ایٹمی پروگرام کا سب سے پہلا دشمن، یہ پروگرام شروع کرنے پر زوالفقار علی بھٹو کو خطرناک نتائج کی دھمکی دینے والا ہنری کسنجر تھا۔ اس نے اس رپورٹ کو ‘‘ ایس ٢٠٠ رپورٹ ‘‘ کا نام دے کر صدر نکسن کو بھیج دی۔ اس خفیہ رپورٹ میں پاکستان، مصر، بنگلہ دیش، ترکی اور انڈونیشیا میں بڑھتی ہوئی مسلم آبادی کو سب سے بڑا مسئلہ قرار دیا گیا۔ ماہرین نے خیال ظاہر کیا کہ ان ممالک میں مسلم آبادی بڑھنے سے مسلمانوں کی سیاسی، معاشی اور فوجی قوت میں اضافہ ہوگا۔ ان ممالک سے برآمد ہونے والا خام مال امریکہ اور دیگر غیر مسلم ممالک کو ملنا بند ہو جائے گا۔ مسلمانوں میں قدرتی وسائل کو اپنے قبضہ میں رکھنے کا شعور پیدا ہوگا جو امریکہ اور دیگر غیر مسلم دنیا کے لئے تباہی کا باعث ہوگا۔ اس رپورٹ پر عمل درآمد شروع کرانے سے قبل ہی صدر نکسن کی چھٹی ہوگئی۔ اس طرح کچھ عرصہ کے لیے اس رپورٹ کو بند رہنا پڑا۔ مگر وہ پاکستان نہیں تھا کہ ایک فائل سالوں سال تک بند رہنے کے بعد دیمک کی خوراک بن جائے یا پھر ھیر پھیر کا شکار ہو جائے۔ ایک سال بعد ہنری کسنجر نے صدر فورڈ کو ایک خط کے ذریعے اس رپورٹ پر عمل درآمد کی درخواست کی۔ اس طرح اس رپورٹ کو منظوری کے بعد وزارت دفاع، خارجہ، خزانہ، فوجی سربراہ اور دیگر متعلقہ اداروں کا بھیج دیا گیا اور ساتھ ہی ھدایات جاری کر دیں کہ اگر اس مسئلہ پر ابھی سے قابو نہ پایا گیا تو اس سیلاب کو واشنگٹن تک پنہچنے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ اس رپورٹ میں مسلم آبادی کو کنٹرول کرنے کے متعدد طریقے تجویز کیے گئے۔ مثلاً مسلم ممالک میں خاندانی منصوبہ بندی کی بھر پور مہم چلائی جائے اگر مذہبی عناصر آڑے آئیں تو ان کو پہلے تو ڈالرز دینے کی کوشش کی جائے اگر نہ مانیں تو ان کو ختم کرا دیا جائے۔ مذہبی عناصر کو مسلم دنیا میں مذاق، نفرت اور تحقیر کی علامت بنا دیا جائے تاکہ کوئی ان کی بات کی طرف کان نہ دے۔ آئی ایم ایف کے ذریعے ان ممالک کو شدید ترین اقتصادی دباؤ میں لایا جائے۔ ان ممالک میں فوجی آمروں کو حکومت دلائی جائے جن سے اپنی مرضی کا کام لیا جائے۔ اگر اور کوئی طریقہ کارآمد نظر نہ آئے تو ان ممالک میں خانہ جنگی اور بیرونی جنگوں میں مبتلا کر دیا جائے جس سے مسلمانوں کی اوپر اٹھنے کی صلاحیت دم توڑ جائے گی۔ امداد صرف اس مسلم ملک کو دی جائے جو یہ یقین کرائے کہ وہ آبادی پر مکمل کنٹرول کرے گا۔ یہ ہے امریکہ کی دوستی مسلم مملک سے خیر دوسرے مسلم ممالک تو امریکہ نے کنٹرول کر لیے ہیں اور کچھ کو کنٹرول کرنے میں لگا ہوا ہے لیکن پاکستان کو کنٹرول کرنے میں اس خاصی مشکل کا سامنا کرنا پڑا مگر اب کوئی مشکل باقی نہیں رہی ۔ اب تو خیر سے کیری لوگر بل بھی آگیا ہے جس کے تحت زندہ رہنے کے لیے امریکہ سے اجازت لینی ہوگی۔ آخر یہ معمولی بات تو نہیں ہے امریکہ نے ہم سے دوستی کی ہے یہ طویل المدت دوستی ہے، مگر یہ مت بھولنا کہ امریکہ نے اس سے پہلے افغانستان سے ٨٠ اور ٩٠ کی دھائی میں دوستی کی تھی۔ عراق سے ایران جنگ کے وقت دوستی کی تھی اور اب یہی دوستی پاکستان کی سرحدوں کے اندر داخل ہو چکی ہے۔ مگر حکمران ڈالرز دیکھ کر پھولے نہیں سما رہے ۔ مگر آج ہر پاکستانی اپنے حکمرانوں سے یہ سوال کرتا ہے کہ آخر کیوں پگڑی ان کو عطا کی جن کے پاس پہننے کو سر ہی نہیں ہے

‘‘پاکستان زندہ باد‘‘
Malik Amjad Awan
About the Author: Malik Amjad Awan Read More Articles by Malik Amjad Awan: 3 Articles with 2516 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.