قومی انتخاب سے قبل جب معروف
صحافی ایم جے اکبر کو بی جے پی نے اپنے گھر بٹھا لیا تو لوگوں نے سوچا کہ
شاید انہیں الیکشن لڑا کر مسلمانوں کو رجھایا جائیگالیکن ایسا نہیں ہوا پھر
لوگوں کو خیال ہوا کہ ممکن ہے انہیں ترجمان بنادیا جائے جو حکومت کے کرتوت
خوشنما بنا کر پیش کرے لیکن وہ بھی نہیں ہوا ۔ اب لوگ حیرت کرنے لگے کہ
آخر اکبر جیسے صحافی بی جےپی سے کس بات کی تنخواہ لیتے ہیں۔ بھولی بھالی
عوام کو کیا پتہ کہ آج کل سیاسی رہنماوں نے سوشیل میڈیا کے ذریعہ اپنے
رائے دہندگان کے ساتھ براہِ راست رابطہ قائم کرلیا ہے وہ وقتاً فوقتاً
انہیں خطوط اور پیغامات بھیجتے رہتے ہیں۔ اب بھلا سیاستداں کے پاس اس کام
کیلئے نہ دماغ ہے نہ وقت تو اس کے پاس تو اقتدار اور دولت کی فراوانی ہوتی
ہےلیکن قلمکار کے پاس دماغ بھی ہوتا ہے اور وقت بھی تو گویا باہم اشتراک و
تعاون کی بنیاد پر ایک اپنا مضمون یا سلوگن دوسرے کو دے کر اس کے دھن دولت
میں شریک ہو جاتا ہے اور دونوں کا کام نکل جاتا ہے۔ اس مرتبہ ۲۵ جنوری کو
مودی سرکار نے ایک ماہ کی مدت پوری کی اور اتفاق سے وہ ایمرجنسی کی ۳۹ ویں
سالگرہ بھی تھی اس لئے نریندر مودی کی جانب سے ایک خط اور ایک مضمون عوام
کی خدمت میں پہنچ گیا
ایمرجنسی پر لکھے گئے مضمون کے اندر ۲۵ جون ۱۹۷۵ کو ہندوستان کی جدید
تاریخ کا سیاہ ترین دن قرار دیا گیا اس لئے کہ اس دن سابق وزیر اعظم اندرا
گاندھی نے ملک پر ایمرجنسی نافذ کردی تھی۔ کانگریس کی یو پی اے حکومت نے اس
تاریخ کو اسی طرح بھلا دیا تھا جس طرح بی جے پی چاہتی ہے کہ مسلمان گجرات
کے فسادات کو بھول جائیں ۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر ایمرجنسی کو ۳۹ سال
بعد بھی نہیں بھلا یا جاسکتا جس میں مودی کو صرف روپوش ہونا پڑا تھا ۔
آرایس ایس کے بڑے رہنما ایک ایک کرکے معافی نامہ لکھ کر رہا ہو گئے تھےتو
مسلمان گجرات کے فسادات کو کیوں کر بھول سکتے ہیں جن کے خاک و خون سے نہ
صرف ریاستی انتخاب میں کامیابی حاصل کی گئی بلکہ قومی اقتدار کیلئے بھی راہ
ہموار کرنے کا کام لیا گیا۔ ملت اسلامیہ ہنداس غم و اندوہ کو آسانی سے
بھول نہیں سکتی اس لئے کہ بقول شاعر ؎
بیش قیمت ہیں یہ غم ہائے محبت، مت بھول ظلمتِ یاس کو مت سونپ خزینہ اپنا
ایمرجنسی کے نفاذکو مودی کے بلاگ میں بجا طور پرتاریک ترین دور کا
آغازقراردیا گیا جب مغرور سیاستدانوں نےاقتدار کے نشے میں مدہوش ہو
کراستعفیٰ دینے کے بجائے قوم کے جمہوری دامن کو تار تار کردیاتھا ۔ مودی کو
چاہئے کہ وہ ایمرجنسی پر ٹسوے بہانے کے بعد موت کے ساتھ نبرد آزما احسان
جعفری سے کہا ہوا اپنا جملہ’’کیا تم ہنوز زندہ ہو ‘‘بھی یاد کرلےاور
مظلوموں کے ریلیف کیمپ اجاڑنے سے قبل کی گئی توہین پر بھی نظر ثانی کرے کہ’’
یہ بچے پیدا کرنے کے کارخانے بن گئے ہیں ‘‘۔ مودی نے اس وقت وزیر اعظم
واجپائی کی پھٹکارکے باوجود اقتدار سے چپکے رہنے کو ترجیح دی اور معافی
مانگنے کے بجائے ڈھٹائی دکھلاتے ہوئے کہا اگر میں نے کوئی غلطی کی ہے تو
مجھے سزا دو۔
ایمرجنسی لگانے کی دو بنیادی وجوہات تھیں ۔ انتخابی بدعنوانی میں وزیراعظم
اندرا گاندھی کے خلاف الہٰ باد کی عدالت کا فیصلہ اس کی پہلی وجہ تھی ۔ یہ
حسن اتفاق ہے کہ ایمرجنسی پر طول طویل تحریر کے صرف پانچ روز بعد یعنی ۳۰
جون کو احمدآباد کی ایک عدالت نے نریندر مودی کو انتخابی فریب کاری کا
مجرم قرار دے دیا۔ ماہِ اپریل میں جب پہلی مرتبہ نریندر مودی نے اپنے شادی
شدہ ہونے کا اعتراف کیا تھا تو عام آدمی پارٹی کے رکن نشانت ورما نے رانیپ
پولیس اسٹیشن سے رجوع کرکے مودی کے خلاف ایف آئی آر درج کرنے کا مطالبہ کیا
تھا۔ ورما نے
نریندرمودی پر ۲۰۱۲ اسمبلی انتخابات کے دوران اپنے ازدواجی حقائق کو
چھپانے کا الزام لگایا تھا۔اس لئے کہ انتخابی حلف نامہ میں جشودھا بین
کاکوئی ذکر نہیں تھا۔ ایمرجنسی میں سیاسی مخالفین کو جبر و استبداد کا رونا
رونے والے مودی کے کجرات میں پولس نےنشانت ورما کی ایف آئی آر درج کرنے
سے انکار کرکے ظاہر کردیا کہ گجرات بھی اس وقت غیر اعلان شدہ ایمرجنسی کے
نرغے میں محصورتھا۔
انتظامیہ کے اس معاندانہ رویہ کے خلاف جب ورما نے احمد آباد کی مقامی عدالت
سے رجوع کیا تو اضافی چیف جوڈیشل مجسڑیٹ ایم ایم شیخ نے پولیس کو تین ہفتوں
کے اندر حلف نامہ میں مبینہ طور پرحقائق کی پردہ پوشی سے متعلق عائدہ کردہ
الزام کی تحقیقاتی رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت دی ۔پولس کے دلائل مسترد کرتے
ہوئےعدالت نےنریندر مودی کو کاغذات نامزدگی میں اپنی ازدواجی حیثیت چھپانے
کا مجرم قرار دیا تاہم شکایت درج کرنے کی مدت میں ایک سال سے زیادہ تاخیر
کے سبب اس کے خلاف مقدمہ دائرکرنے کی اجازت نہیں دی گویا عدالت کی نظر میں
مجرم قرار پانے والا مودی ایک تکنیکی حیلہ کے سبب کم از کم چھے ماہ جیل کی
چکی پیسنے سے بچ گیا ۔ کیا یہ انتخابی بدعنوانی نہیں ہے ؟ اور کیا عدالت کے
ذریعہ نامزد کسی مجرم کو وزیراعظم کی کرسی پر براجمان ہونے کا اخلاقی حاصل
ہے؟ لیکن پھر ایک اور سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا مودی جیسےا قتدار پرست
سے اعلیٰ اخلاق وکردار کی توقع کرنا درست ہے ؟ اگر نہیں تو کم از کم وزیر
اعظم کو اپنے گریبان میں جھانک کر بیجاوعظ و نصیحت سے گریز تکرنا چاہئے اس
لئے کہ فی الحال کانگریس اور بی جے پی کے درمیان اس شعر کی سی مماثلت پیدا
ہوگئی ہے ؎
تیرا میرا شیشے کا گھر میں بھی سوچوں تو بھی سوچ
پھر دونوں کے ہاتھ میں پتھر میں بھی سوچوں تو بھی سوچ
نشانت ورما کے وکیل کا کہنا ہے کہ انہوں نے شادی کے اعتراف کے فوراً بعد
پولس اور انتخابی کمیشن سے رجوع کیا اسلئے تاخیر کی شق کا اطلاق نہیں ہوتا
اور اب وہ سپریم کورٹ جائیں گے ۔ نریندر مودی چونکہ بڑودہ سے استعفیٰ دے
چکے ہیں اس لئےممکن ہے سپریم کورٹ اس معاملے میں کچھ زیادہ نہ کرسکے لیکن
اب ایک نئی مصیبت وارانسی میں کھڑی ہو گئی ہے جہاں کانگریس کے ناکام
امیدوار اجئے رائے سمیت ایک رائے دہندہ مادھو پرساد اپادھیائے مودی کے خلاف
اسی الہٰ باد عدالت سے رجوع کیا ہے جہاں اندرا گاندھی کے خلاف فیصلہ ہوا
تھا ۔ شکایت کنندگان کے مطابق مودی نے اپنی اہلیہ جشودھا بین کے پان کارڈ
کی تفصیل اور آمدنی کی معلومات نہ دے کر سپریم کورٹ کے ہدایات کی خلاف
ورزی کی ہے اسلئے کہ امیدوار کیلئے تمام کالمس کو پر کرنا لازمی ہے۔ بی
جےپی اس انتخاب پر ۷۰ لاکھ کے بجائے پچاس کروڈ روپئے خرچ کرنے کا الزام بھی
لگایا گیا ہے ۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ اس مقدمہ میں عدالت کا فیصلہ کیا آتا
ہے؟ اور حکومت اس کے تئیں کیا مؤقف اختیار کرتی ہے؟
وزیراعظم کے مضمون میں ایمرجنسی کے دوران ذرائع ابلاغ کی خاموشی پر بھی
افسوس کا اظہار کیا لیکن فیس بک اور ٹویٹر پر مودی کے خلاف پیغام لکھنے
والوں کے ساتھ کئے جانے والے سلوک پر نظر ڈالی جائے تو ایسا لگتا ہی نہیں
کہ ایمرجنسی ختم ہو چکی ہے ۔ اس وقت میڈیا کوخوفزدہ کرکے خاموش کردیا گیا
تھا اب خرید کر اس کا گلا گھونٹ دیا گیا ہے یہی وجہ ہے کہ مودی کی حکومت کی
پے درپے ناکامیوں کے باوجود فروخت شدہ ذرائع ابلاغ دن رات نمو نمو کا جاپ
لگائے رہتا ہے ۔ مودی کے دستِ راست ارون جیٹلی نےاندرا گاندھی کی حکومت کے
ساتھ ساتھ سپریم کورٹ کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا جودورانِ ایمرجنسی حکومت
کی تابعداری میں سربسجود ہو گئی تھی ۔ بیچارے ارون جیٹلی کو آج کل قانون
کی کتاب بند کرکے بہی کھاتہ کھول بیٹھے ہیں اور دن بدن مہنگائی کے سیلاب
میں بہے جارہے ہیں۔انہیں یہ نہیں پتہ تھا کہ ایک ہفتہ بعد
یہی الزام ان کی سرکار پر لوٹ آئیگا اورگوپال سبرامنیم کے معاملے میں
سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کی جانب سے حکومت کو پھٹکار ملے گی ۔
گوپال سبرامنیم نے سہراب الدین جعلی انکاؤنٹر مقدمہ میں سپریم کورٹ کی
اعانت کی تھی اور امیت شاہ کا ناطقہ بند کردیا تھا ۔ ان کی اس جرأتمندی کے
عوض جب سپریم کورٹ کے نئے ججوں کی مجوزہ فہرست میں بی جے پی نے ان کا نام
دیکھا تو دشمنی پر اتر آئی اور سی بی آئی کے ذریعہ ان کی شخصیت کو داغدار
کرناشروع کردیا ۔ ان پر ٹوجی گھوٹالہ میں نیرا راڈیا کے ساتھ ساز باز کرنے
کا الزام لگایا گیا جو سراسر بہتان ہے۔ سبرامنیم نے گجرات کے وزیراعلیٰ کی
حیثیت سے نریندر مودی کی جانب سے سرکاری مہمان نوازی تک کی پیشکش ٹھکرا دی
تھی ۔کانگریس کے جعلی سیکولرزم پر تنقید کرنے والی بی جے پی حکومت نے
سبرامنیم کے عقائد اورروحانی رویہ پر اعتراض کرتے ہوئے انہیں غیر سیکولر
قراردیا اس الزام کے جواب سبرامنیم اعتراف کیا کہ عدالتی معاون کے طور کہ
گمشدہ خزانہ کی تحقیقات کرتے ہوئے انہوں نے مندر میں داخل ہونے سے قبل وہ
بعض مذہبی روایات کی پاسداری کی خدا سے ہدایت دعا کی لیکن ایک وکیل کے طور
پر اپنےفرائض اداکرتے ہوئے ان کا رویہ کلیّ طور پر سیکولر اور منطقی رہا ہے
۔ اس طرح کی بے بنیاد افواہوں کو ان کی کردار کشی کےپیش نظر ذرائع ابلاغ
میں منصوبہ بند طریقہ پر پھیلایا گیا ۔
گوپال سبرامنیم کے بیان کی تصدیق کرکے چیف جسٹس آر ایم لودھا نے حکومت کے
منہ پر زوردار طمانچہ جڑدیا یہی وجہ ہے کہ خوب چندرا چندرا کر ٹی وی کے
پردے پر چہکنے والے وزیر قانون روی شنکر پرشاد کی زبان گنگ ہو گئی ۔ جسٹس
لودھا نے ببانگ دہل اعلان کیا کہ سبرامنیم کا نام یکطرفہ طور بغیر مجھے
بتائے یا توثیق لئے حکومت نے فہرست سے الگ کردیا بدقسمتی سے جونہایت غلط
اقدام ہے۔ انہوں نے کہا میں یہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ اعلیٰ دستوری عہدوں
کے ساتھ کس قدر لاپرواہی سے حکومت کھلواڑ کررہی ہے۔ جسٹس لودھا نے سولیسیٹر
جنرل کے عہدے سے سبرامنیم کے استعفیٰ پر جس طرح دل کھول کر ان کی تعریف کی
اس سے بھی حکومت کے رویہ پر تنقید ہوتی ہے۔
جسٹس لودھانےسبرامنیم کو لکھا’’مجھے یہ جان کر دکھ ہوا کہ آپ نے سولیسیٹر
جنرل آف انڈیا کے عہدے سے استعفیٰ دے دیا ہے۔ آپ ہر مقدمے میں مرکزی
حکومت یا اس کے شعبہ جات کی پیروی کرتے ہوئے اپنی مہارت کا مظاہرہ کیا س
دوران آپ کا اعلیٰ کردار ، خوش خلقی اور یکسوئی قابلِ تعریف تھی۔اس ڈانٹ
ڈپٹ کے باوجود این ڈی اے کے ارادے خطرناک ہیں ۔ اس نے سپریم کورٹ اور ہائی
کورٹ کے ججوں کے تقرر میں حکومت کا عمل دخل بڑھانے کی غرض سے قومی عدالتی
کمیشن قائم کرنے کا فیصلہ کیاہے۔ موجودہ نظام کے تحت عدالتی کمیٹی کو اصرار
کرکے حکومت کی سفارش کو مسترد کرنے کا حق حاصل ہے جس پر شب خون مارنے کی
تیاری کی جارہی ہے تاکہ سبرامنیم جیسے باضمیر لوگوں کے پر کترے جاسکیں۔ فی
الحال ملک کی صورتحال یہ ہے اصحاب اقتدار کےآگے عدالیہ بھی بے بس
ولاچارنظر آرہی ہے بقول فیض ؎
بنے ہیں اہلِ ہوس، مدعی بھی منصف بھی
کسے وکیل کریں ، کس سے منصفی چاہیں
جسٹس لودھا نے گوپال سبرامنیم سے ملاقات کے دوران انہیں اپنے فیصلے پر نظر
ثانی کرنے کیلئے کہا اس پرسبرامنیم نے ایک دن کا وقت مانگا مگر دوسرے دن
اپنے مختصر سے خط میں بتایا کہ وہ اپنے فیصلے سے پیچھے نہیں ہٹیں گے۔ اس
معاملے کو دیکھنے سے پتہ چلتا ہے کہ جسٹس لودھا نے اپنی مشفقانہ ذمہ داری
ادا کرتے ہوئے سبرامنیم کی دلجوئی کی لیکن سبرامنیم کی عزت نفس نے یہ گوارہ
نہیں کیا کہ ان کے محسن کو حکومت کے آگے ہاتھ پھیلانا یا اس سے
ٹکرانا پڑے۔ اس لئے وہ نہایت پروقار انداز میں حکومت کی جانب سے عدالتی
نظام میں دخل اندازی پر احتجاج کرتے ہوئےکنارہ کش ہوگئے۔سبرامنیم کے مطابق
وہ کسی عہدے کے طلبگار نہیں تھے بلکہ انہیں اس کی پیشکش کی گئی تھی اور ۳۸
سال قوم کی خدمت کرنے کے بعد انہیں حکومت سے کسی سپاس نامہ کی ضرورت نہیں
ہے ۔ سبرامنیم نےعہدے کو ازخود ٹھوکر مارکر سیاست دانوں کو دکھلا دیا کہ
ساری دنیا ان کی مانند ابن الوقت اور موقع پرست نہیں ہے ۔ان کا قابلِ تعریف
رویہ ان اشعار کی مصداق ہے کہ ؎
کبھی نا ختم کیا میں نے روشنی کا سفرجہاں چراغ بجھا دل جلا لیا میں نے
کمال یہ ہے کے دشمن پہ جو چلانا تھا وہ تیر اپنے کلیجے پہ کھا لیا میں نے
وزیر اعظم نریندر مودی کی جانب سے حکومت کے ایک ماہ کی تکمیل پر عوام کے
نام ایک خط روانہ کیا گیاجس میں تھکن اور مایوسی کی جھلک نمایاں تھی۔ مودی
نے لکھا ہمیں ہنی مون کیلئے ۱۰۰ دن نہیں ملے بلکہ ۱۰۰ گھنٹوں کے اندر ہمارے
فیصلوں پر تنقید شروع ہوگئی۔ دراصل مودی کو شکایت کرنے کے بجائے یاد رکھنا
چاہئے کہ انہیں ملک کی عوام نے ہنی مون منانے کیلئے احمدآباد سے دہلی نہیں
بھیجا بلکہ حقیقت یہ ہے کہ کئی سال قبل جب ان کے والدین نے ہنی مون منانے
کیلئے ان کا نکاح جشودھا بین سے کردیا تھا تو ستاّ کی موہ مایا ( اقتدار کی
محبت ) میں گرفتار ہو کرانہوں نے سنیاس لے لیا اور اب برسوں کی تپسیاّ کے
بعد جب سنگھاسن نصیب ہوا تو ہنی مون کا خواب دیکھنے لگے۔ کانگریس کی نااہلی
اور بے اعتنائی سے پریشان حال عوام کو جب نریندر مودی نے حسین مستقبل کے
رنگین خواب دکھلائے تو بقول سلمان احمد ؎
وہ خواب ہی تھے چنبیلیوں سے، سو سب نےحاکم سے بیعت کرلی
پھر ایک چنبیلی کی اوٹ سے ، جو سانپ نکلے تو لوگ سمجھے
کانگریس نے جن غلطیوں کو کرنے میں کئی سال کا عرصہ صرف کیا تھا وہ اس نئی
سرکارسے ایک ماہ کے اندر دھڑا دھڑ سرزد ہوتے چلے گئے ۔ مہنگائی کا جو
ریکارڈ کانگریس نے قائم کیا تھا اسے توڑنے میں اس نے ایک خاصی سرعت کا
مظاہرہ کیا ۔ اب صورتحال یہ ہے کہ کہیں لوگ ریل کی پٹری پر کچلے جارہے ہیں
تو کہیں انہیں ڈیزل اور گیس کی آگ جھلسا رہی ہے۔ بجلی کے بحران سے حیران
پریشان لوگوں کو پیاز کی قیمت خون کے آ نسو رلا رہی ہے۔ اس صورتحال میں
کمار وشواس کا ٹویٹ درست لگتا ہے کہ نیا نیا ڈرائیورایک مہینے کے اندر کئی
حادثات کر چکا ہے لیکن مسئلہ یہ ہے کہ حادثہ کوئی کرتا ہے اور زخمی کوئی
اور ہوتا ہے ۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ زخمی اور ہلاک ہونے والے رائے دہندگان کس
قدر جلد اس سانپ کا سر کچلنے کی فکر کرتے ہیں۔ویسے حادثات کی رفتار اس بات
کی غماز ہے کہ جلد ہی یہ برے دن جانے والے ہیں۔ عوام نے چنبیلی کے اوٹ سے
نکلنے والے سانپ کو دیکھ لیا ہے اور انہیں محسوس ہونے لگا ہے کہ ؎
یہ داغ داغ اُجالا، یہ شب گزیدہ سحر
وہ انتظار تھا جس کا، یہ وہ سحر تو نہیں
یہ وہ سحر تو نہیں جس کی آرزو لے کر
چلے تھے یار کہ مل جائے گی کہیں نہ کہیں
فلک کے دشت میں تاروں کی آخری منزل
کہیں تو ہوگا شبِ سست موج کا ساحل
کہیں تو جاکے رکے گا سفینۂ غمِ دل
ایمرجنسی کی دوسری وجہ جئے پرکاش نارائن کی جانب سے بلند کیا جانے والا
مکمل انقلاب کا نعرہ تھا جس نے اس زحمت کو نعمت میں بدل دیا ۔ ایمرجنسی کے
جبرو استبداد کے خلاف علم
بغاوت بلند کرتے ہوئے جئے پرکاش نارائن نے عوام کو حکومت کے بجائے دستور کی
بجاآوری کیلئے پکارا تھا اور ملک بھر میں احتجاج کا ایک سلسلہ شروع کردیا
گیا تھا۔ جئے پرکاش نارائن چونکہ کسی مخصوص سیاسی جماعت سے تعلق نہیں رکھتے
تھے اور خود اقتدار کے دعویدار نہیں تھے اس لئے دیگر سیاسی جماعتیں انہیں
اپنا حریف نہیں سمجھتی تھیں ۔ یہی وجہ تھی کہ سارے لوگ بڑی آ سانی سے ان
کے پرچم تلے جمع ہوگئے ۔ اب یہ کام انا ہزارےتو کر سکتے ہیں لیکن اروند
کیجریوال نہیں کرسکتے اس لئے انقلاب کی یہ عوامی تحریک عام آدمی پارٹی کے
تحت نہیں چل سکتی جسے دیگر علاقائی جماعتیں اپنا حریف سمجھتی ہیں۔ اگر وہ
دہلی کی علاقائی جماعت کے طور حزب اختلاف کے اتحاد میں شامل ہو جائیں تو
ایک مؤثر کردار ادا کرسکتے ہیں ۔ یہ سب کب ہو گا؟ کیسے ہوگا؟ ہوگا بھی یا
نہیں ؟ یہ تو وقت بتائے گا! |