کیا مسلم لیگ ن کی حکومت کے خلاف گھیرا تنگ کیا جا رہا ہے؟

مبصرین کا کہنا ہے کہ مسلم لیگ ن کے خلاف اُلٹی گنتی شروع کرا دی گئی ہے۔ اس سلسلے کے تمام کرداروں کو بہت پہلے متحرک کر دیا گیا ہے۔اس کھیل کے چار مین ایکٹروں کے علاوہ اور بہت سے کردار اپنا اپنا حصہ ڈال رہے ہیں ۔ان کرداروں میں اہم اور بڑا کردار عمرن خان ہیں دوسرے نمبر کا کردار شیخ الکینیڈا طاہر القادری ہیں تیسرا کردار پٹی ہوئی ق لیگ کے دو بھائی ہیں اور چوتھا کردار ایک سیاسی یتیم لال حویلی کے واحد کفیل شیخ رشید ہیں ۔ اس کا پانچواں کردار بھی ہے۔ وہ خود مسلم لیگ کے بعض نا عاقبت اندیش وزراء ہیں،جن کی نااہلیت سے اسے اور بھی کئی نئے نقصانات برداشت کرنا ہون گے۔ہم یہ پیشنگوئی کرتے ہیں کہ محترم نواز شریف کو سکون کے ساتھ پاکستان میں حکومت نہیں کرنے دی جائے گی۔ وجہ وہ ہی لوگ ہیں جو انہیں ڈکٹیشن پر چلانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ بڑی عجیب بات یہ ہے کہ مسٹر عمران خان کو ایک سال بعد اچانک کیسے دھاندھلی کے قصے تڑ پانے لگ گئے ہیں؟ جب کہ ان کا کہنا تو یہ تھا کہ 2013 کے الیکشن میں دھاندھلی تو ہوئی ہے مگر ہم سوائے چار حلقوں کے انتخابی نتائج کو قبول کرتے ہیں․․․․شائد ان کوایک سال بعد اس بات کا یقین دلا دیا گیا ہے کہ اگر یہ لوگ اپنی سازشوں سے نواز شریف کی ن لیگ کی حکومت کو کمزور کرنے میں کامیاب ہوگئے تو اگلا وزیر اعظم مسٹر عمران خان ہوں گے۔ دوسری جانب طاہر القادری کو بھی یہ ہی راگ دیا گیا ہے کہ اگر ان کی تحریک زیادہ کامیابی دکھاتی ہے تو ان کا دیرینہ دشمن نواز شریف قتدار سے ہٹا دیا جائے گا اور ان کا راج گدی پر بیٹھنے کا خواب وہ پورا کر کے انہیں امیر المومنین کا تاج پہنا دیں گے اور چوہدریوں کو بھی یہ ہی بتا دیا گیا ہے کہ ان کے دیرینہ سیاسی دشمن نواز شریف اور ن لیگ جن کو وہ میدانِ سیاست میں تو پچھاڑنے کی صلاحیت نہیں رکھتے ہیں مگر ان کی سازشوں کے تانے بانوں کے ذریعے یہ کام بہت آسان بنایا جاسکتا ہے۔تاکہ ان کو اور شیخ رشید بھی تسلی مل سکے۔

عمران خان سے کوئی اگر یہ پوچھ بیٹھے کہ کل تک امریکی ڈرون حملوں کا مخالف عمران خان آج امریکی ڈرون حملے پر کیوں خاموش ہے تو ان کے پاس اس سوال کا جوب دینے کی سکت نہیں ہے۔نیٹو سپلائی کو روکنے کے بہانے انہوں نے پورا پاکستان سر پر اٹھایا ہو تھا ۔مگرآج ان کے دارلحکومت پشاور سے روزانہ درجنوں نیٹو کنٹینرز گذر رہے ہیں مجال ہے کوئی ان کا حواری یا یہ خود اس سپلائی کی رکاوٹ کی بات کر جائیں۔یہ امریکہ مخالفت کے بڑے چیمپیئن تھے۔مگر آج نکل گئی سب ہیکڑی؟؟؟اور اب وہ مشترکہ اشاروں پر کام پر لگ چکے ہیں۔

مغرب کا ایجنڈالیکراور بوٹ پالش کے ذریعے قادری اور آپ مسٹر عمران اس ملک میں کیا کھیل کھیلنا چاہتے ہیں؟یہ تو ساری قوم جانتی ہے کہ آپ چاروں کادرد تو مشترک ہے۔وہ ہے نواز شریف اور ان کی جماعت ن لیگ!!!بڑی عجیب بات یہ ہے کہ کینیڈا کے شیخ اور اور عمران خان دونوں ہی اپنے اپنے مفادات کے دنوں میں نواز شریف کو اپنا محسن مانتے اور کہتے تھے۔عمران خان تو دھاندھلیوں کی وجہ سے اسمبلیوں سے استعفیٰ دینا چاہتے تھے مگر ایسا کرنے کے لئے بڑے دل گردے کی ضرورت ہے اور شائد ابھی دھیرج رکھنے کو ان سے کہا گیا ہے۔مگر شطرنج کے کھلاڑیوں نے انہیں ایسا کرنے سے فی الحال روک دیا ہے۔ایک اہم بات یہ بھی ہے کہ انہیں خود ساختہ 35نشتروں کا بھی رنج جینے نہیں دیتا ہے۔ان چارون کی لڑائی بھی تو چو مکھی ہے۔کبھی سابقہ چیف جسٹس انصاف کی فراہمی کی وجہ سے ان لوگوں کو کانٹے کے طرھ کھٹک رہے ہوتے ہیں شیخ الکینیڈا تو کبھی فوج کی دہائی دیتے ہیں تو کبھی اس سے بھی ٹکرانے کی بات کرتے ہیں۔مگر نظریں ان کی بھی اسی جانب جمی ہوئی ہیں۔

ہمارے سیاسی بازیگر اس ملک میں سیاسی عدم استحکام لانے کے لئے بے قرار د کھکائی دیتے ہیں۔ ا ن کا اور ان کے پُشت نانوں کا بس نہیں چل رہا ہے ورنہ اس ملک میں کب کا ڈنڈا راج نافذ کردیا جاتا۔عام طور پر مبصرین کا خیال ہے کہ اقتدار کی ہوس میں یہ چار کا ٹولہ اس قدر بے چین ہے کہ بس نہیں چلتا کہ نواز شرف کو اقتدار سے اپنے پشت بانوں کے ذریعے ابھی دھکیل کر اس پر قابض ہوجائیں۔ا ن کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوچکا ہے۔ انہیں 2018 تک کا انتظار گوارا نہیں ہے۔عمران خان اس بات پر بھی معترض ہیں کہ 2013 کے انتخابات کی رات ساڑھے گیارہ بجے میڈیا کے تبصروں پر اپنی جیت کا اعلان کیون کیا ؟ن لیگ کی یہ بھی تو ایک بڑی دھاندھلی ہے!!! حالانکہ سارا میڈیا اپنے تبصروں میں ن لیگ کی جیت کا برملا اظہار کر رہا تھا۔عمران خان کے اٹھائے گئے تمام سوالوں کے جوابات ن لیگ کے ایک وزیر نے واضح طور دیدیئے ہیں ۔مگر ان کی تشفی تو ان کی ڈوریاں ہلانے والے بھی شائد نہ کر پائیں۔کیونکہ چاروں کردار سڑکوں پر احتجاج کے ذریعے حکومت گرانے پر مصر ہیں۔یہ تمام لوگ انتشار اور عدم استحکام کی سیاست کر رہے ہیں ،تاکہ جمہوریت کی کشتی ڈولے اور یہ اس پر سوار کرا دیئے جائیں۔ان کا یہ تصور بھی بڑے واضح طور پر سامنے آچکا ہے کہ ’’نہ تو کھیلیں گے اور نہ کھیلنے دیں گے‘‘

مبصرین کہتے ہیں کہ الٹی گنتی نواز حکومت کے خلاف اس دن سے شروع ہو چکی ہے جب حکومت نے 14جون کوپرویز مشرف کا نام ای س ایل سے نکالنے سے کے سندھ ہائی کورٹ کے فیصلے کو چیلنج کیا تھا۔اس شو ڈاؤن میں قریباََ دیڑھ ما ہ لگے گا۔اس کے بعد سے ن لیگ کے ستارے گردش میں نظر آنے لگے ہیں۔15جون کو آئی ایس پی آر نے جمہوری سربراہ سے پہلے ہی طالبان کے خلاف ضربِ عضب کا اعلان کر کے یہ بات واضح کردی کہ پاکستان میں جمہوریت سے بڑی بھی کوئی قوت موجود ہے۔جسکا اعلان بعد میں بحا لتِ مجبوری وزیر عظم نے اسمبلی کے فلور پر کیا ۔17جون کا واقعہ بھی ن لیگ کی الٹی گنتی کا ایک باب ہی سمجھا جانا چاہئے۔اور چند دنوں کے بعد طاہر القاری کا غیر ملکی طیارہ کئی گھنٹوں قبضہ میں رکھنے کا وقعہ رونما ہوا۔اس کے بعد 27 جون کو عمران خان نے الٹی میٹم دیدیا کہ وہ بہت جلدنواز لیگ کی حکومت گرنے کی مہم کا آغاز میلین مارچ کی صورت میں کیا چاہتے ہیں۔مبصرین یہ بھی کہتے ہیں کہ ن لیگ کے لئے بہت سارے چلنجیز ہیں ۔جن کو ہم ذیل میں ہیں دیکھنے کی کوشش کریں گے۔

چیلنج نمبر(1)سول و ملٹری تعلقات کے گرد گھومتا ہے۔ جس میں مشرف کا معاملہ پاک و ہند تعلقات اور طالبان کے خلاف آپریشن شامل ہیں(2)اسی طرح میڈیا کے معاملے میں بھی جی ایچ کیو اور ن لیگ سرد جنگ کی حالت میں ہیں۔جس کی حقیقت یہ ہے کہ جی ایچ کیو میڈیاور سیاست دانوں دونوں سے قومی منظر نامہ اپنے ہاتھوں میں لے لیا ہے۔(3) جی ایچ کیو پہلے ہی ریاست کے خدو خال کی ازسر نو تشکیل کی عملداری نئی حد بندیوں میں مشغول ہے ،اور میڈیا اور سیاست دانوں پر سرخ لکیر کھینچ رہا ہے۔ (4)سیول ملٹری ا مور کوجی ایچ کیو کے حق میں کرنے کے لئے ان کے پاس کئی او ر طریقے کار موجود ہیں۔تما حالات اس بات کی غمازی کر رہے ہیں کہ مسلم لیگ کی حکومت کے خلاف گھیرا تیزی سے تنگ کیا جارہا ہے۔

اگلا چیلنج نواز شریف حکومت کے لئے وہ سیاسی ایکٹرز ہیں جن کا ہم گذشہ سطور میں بھی ذکر کر چکے ہیں۔ان ایکٹروں کی جانب سے ممکنہ سیول نا فرمانی کی تحریک چلواکر ملک میں دنگا فساد کا بازار گرم کر کے حکومت کو گھر بھیجنے کا باقاعدہ جواز تیار کرایا جائے گا۔اس ضمن میں عمران خان سیول نافرمانی کے روح رواں ہونگے اس کے لئے وہ پہلا کام اسلام آباد کی جانب میلین مارچ کی شکل میں شروع کرنے کا عزم وہ پہلے اپنی تقریروں میں ظاہر کر چکے ہیں۔مبصرین کے خیال میں ان کا اگلا ہدف اسمبلیوں سے استعفے دینے کا ہوگا اور بعد میں خیبر پختوں خواہ کی حکومت توڑنے کا عمل کیا جائے گا ۔جس سے وہ ملک میں سیاسی بد امنی کو لانا چا ہیں گے ۔ اگلا مرحلہ طاہرالقادری کی لاشوں پر سیاست چمکانے کا ہوگا۔مبصرین کہتے ہیں کہ جی ایچ کیو اگست تک دو چیزیں کرے گا فوجی افسروں کی قیادت میں شہری علاقوں میں جوئنٹ آپریشن سینٹرز قائم کرے گا اور ریلوے اسٹیشنوں اور سرکاری عمارتوں ا اور دیگر حساس تنصیبات اور اداروں کی حفاظت کے نام پر فوج کے کنٹرول میں دیدیا جائے گا۔ایسی کیفیت میں ن لیگ کے پاس حکمرانی کا جواز خود بخود ختم ہو جائے گا اور پھر نئے انتخابات کا غلغلہ اٹھے گا اور نئے اسٹیک ہولڈرز کو کام کا موقعہ دینے کا کھیل چلے گا۔اس وقت ن لیگ کو جن چیلنجوں کا سامنا ہے ان سے نکلنے کے لئے بڑے تدبر اور حوصلے سے کام لنا ہوگا ورنہ یہ سیاسی کھلاڑی سب کچھ تلپٹ کر کے ماضی کی تنخواہوں پر ہی کام کرنے لگ جائیں گے اور سیاسی بساط کو پلٹ کر ایک نیا سیاسی کلچر پروان چڑھا یا جائے گا۔
Prof Dr Shabbir Ahmed Khursheed
About the Author: Prof Dr Shabbir Ahmed Khursheed Read More Articles by Prof Dr Shabbir Ahmed Khursheed: 285 Articles with 213488 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.