سری لنکا: امریکی گروپ قادیانیوں کی حمایت میں سرگرم
(عابد محمود عزام, karachi)
ان دنوں سری لنکا میں گرفتار کیے
گئے 142 قادیانیوں کی ملک بدری کا معاملہ ملکی و مغربی میڈیا میں نمایاں ہے۔
ذرائع کے مطابق سری لنکا میں گزشتہ ماہ کے دوران پولیس نے ملکی سلامتی کے
پیش نظر چھاپا مار کارروائیوں کے دوران 142 پاکستانی قادیانیوں کو حراست
میں لیا تھا اور اب ان کا ملک بدر کیا جانا متوقع ہے، کیونکہ انہیں سیاسی
پناہ حاصل نہیں ہے اور یہ لوگ بغیر اجازت وہاں رہ رہے تھے۔ ان افراد نے
بغیر سیاسی پناہ حاصل کیے سری لنکا میں رہائس اختیار کی ہوئی تھی۔ سری لنکا
کے متوقع فیصلے کے خلاف عالمی میڈیا اور امریکی گروپ ان متوقع ڈی پورٹ کیے
جانے والے قادیانیوں کی حمایت میں بڑھ چڑھ کر سامنے آیا ہے۔ ایک جانب یورپی
میڈیا نے سری لنکا میں گرفتار کیے گئے 142قادیانی افراد کو مسلمانوں کی
اقلیت ثابت کرنے کی کوشش کی ہے اور بار بار مسلمان اقلیت کے طور پر پیش کیا
جاتا رہا۔حالانکہ قادیانی متفقہ طور پر غیر مسلم قرار دیے جاچکے ہیں۔ جبکہ
دوسری جانب امریکی حقوق انسانی گروپ ہیومین رائٹس واچ نے سری لنکا پر زور
دیا ہے کہ وہ پاکستان سے تعلق رکھنے والے قادیانی برادری کے افراد کو اس
وقت تک ملک بدر نہ کرے، جب تک اقوام متحدہ ان تک مکمل رسائی حاصل کرکے ان
کے تحفظ کے اقدامات نہیں کرلیتی۔ اس امریکی تنظیم کا کہنا ہے کہ اقوام
متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین یا یو این ایچ سی آر کو اب تک ان قیدیوں تک
مکمل رسائی نہیں مل سکی ہے، جو بوسہ حراستی مرکز میں رکھے گئے ہیں، تاہم یو
این کے ادارہ نے کم از کم چھ گروپس کو پناہ گزینوں کی حیثیت سے شناخت کیا
ہے۔ میڈیا رپورٹ میں بھی امیگریشن کنٹرول شولندا پریرا کے حوالے سے بتایا
گیا ہے کہ سری لنکن حکومت ان گرفتار پاکستانیوں کو ڈی پورٹ کردے گی، کیونکہ
انہیں سیاسی پناہ گزینوں کی حیثیت سے رجسٹر نہیں کیا گیا ہے۔ سری لنکا کے
مغربی ساحلی شہر نگومبو میں پاکستانی نژاد افراد کے خلاف کارروائی کا آغاز
سیکورٹی خدشات پر 9 جون کو ہوا تھا، کیونکہ پاکستانی قادیانیوں کی کی آمد
میں اضافہ ہوا، جس کی وجہ سے سری لنکن حکام اسے سیکورٹی کے لیے تشویش ناک
قرار دینے لگے۔ یہ شہر پاکستانی پناہ گزینوں کی جنت بھی کہا جاسکتا ہے،
جہاں گزشتہ برس یواین ایچ سی آر نے پندرہ سو کے قریب پاکستانی اقلیتوں کی
رجسٹریشن کی تھی۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ سری لنکا حکومت 142 قادیانیوں کی ملک بدری کا فیصلہ
بلا وجہ تو نہیں کیا ہوگا۔ اگر گرفتار کیے گئے افراد غیر قانونی طور پر
وہاں رہیں گے تو سری لنکا حکومت تو انہیں ڈی پورٹ تو کرے گی، کیونکہ
قادیانی دوسرے ممالک میں اپنا نیٹ ورک پھیلا رہے ہیں، اس کے لیے وہ قانونی
و غیر قانونی دونوں طریقے استعمال کر رہے ہیں۔ ایک جانب قادیانی دوسرے
ممالک میں اپنے نمائندوں کو امریکا کی سرپرستی میں سیاسی پناہ دلواتے ہیں،
بعض ممالک میں تین تین لاکھ روپے دے کر بھی سیاسی پناہ دلوائی جارہی ہے، اس
کا مقصد امریکا کے مفادات کے لیے کام کرنا ہے۔ بعض ممالک میں قادیانی
اسمگلنگ میں اور ٹریفکنگ میں بھی ملوث ہیں اور متعدد افراد جیلوں میں بھی
بند ہیں۔ جبکہ بعض ممالک میں غیر قانونی طور پر بھی پناہ رکھے ہوئے ہیں۔
قادیانی اپنے آپ کو مسلمان ظاہر کرتے ہوئے غیر قانونی طریقوں سے دوسرے
ممالک میں جاکر اپنی سیاسی و تبلیغی سرگرمیوں کا دائرہ کار بڑھاتے رہتے ہیں۔
لہٰذا اب متعدد ممالک اس حوالے سے محتاط ہورہے ہیں۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ
سری لنکا میں بھی ملکی سلامتی کے پیش نظر ایسا کیا گیا ہے اوراگر واقعی سری
لنکا حکومت کا 142قادیانیوں کو ڈی پورٹ کرنے کا فیصلہ غیر قانونی ہے تو
حکومت پاکستان کو اس معاملے میں مداخلت کرنی چاہیے، لیکن امریکی گروپ کا ہر
جگہ قادیانیوں کی حمایت میں سرگرم ہوجانا عقل سے بالا تر ہے۔ امریکا اور
دیگر کئی ممالک دنیا بھر میں کسی بھی جگہ قادیانیوں کا چھوٹا سا معاملہ بھی
سامنے آجائے تو اس پر تو بول پڑتے ہیں، لیکن انہیں پوری دنیا میں مسلمانوں
پر ہونے والا ظلم کیوں نظر نہیں آتا؟ دنیا کے بیشتر ممالک میں مسلمانوں پر
ظلم ہورہا ہے۔ برما میں ایک عرصے سے مسلمانوں پر بدھ دہشت گردوں کے ہاتھوں
بدترین ظلم کی داستان رقم کی جاری ہے، فلسطین میں بھی یہودی، مسلمانوں کے
ساتھ تاریخ ساز ظلم جاری رکھے ہوئے ہیں اور ان کے علاوہ بھی متعدد اسلامی
ممالک میں مسلمان ظلم کا نشانہ بن رہے ہیں، لیکن نہ تو امریکا ان مظلوموں
کے لیے کوئی کوشش کرتا ہے اور نہ ہی انسانی حقوق کی عالمی تنظیمیں ظلم ختم
کروانے کے لیے آواز بلند کرتی ہیں، بلکہ کئی اسلامی ممالک میں تو امریکا
خود بھی مسلمانوں پر ظلم کے پہاڑ توڑ رہا ہے، لیکن اگر دنیا میں کہیں
قادیانیوں کا چھوٹا سا بھی معاملہ سامنے آجائے تو امریکا اس کی پشت پر
آکھڑا ہوتا ہے۔ امریکا ہمیشہ سے قادیانیوں کی پشت پناہی کرتے ہوئے
انہیںاستعمال کرتا رہا ہے۔ گزشتہ مہینوں بھی امریکا قادیانیوں کو مسلم قرار
دلوانے کے لیے کھل کر سامنے آچکا ہے۔ امریکی صدر اوباما کے نمائندہ خصوصی
برائے او آئی سی ،بھارتی نڑاد ارشاد حسین اور او آئی سی کے لےے امریکا کے
نائب سفیر ارسلان سلیمان کو ذمہ داری سونپی گئی تھی کہ وہ پاکستان میں
قادیانیوں کو مسلم قرار دلوانے کے لیے حکومتی ذمہ داران سے ملاقاتیں کرکے
ان پر دباﺅ ڈالیں، لیکن امریکی حکومت کی تمام تر کوششیں ناکام و نامراد
لوٹیں تھیں۔ اس سے پہلے بھی کئی بار امریکا قادیانیوں کو مسلمان قرار
دلوانے کے لیے سرگرم ہوچکا ہے۔ حالانکہ پاکستان کی پارلیمنٹ متفقہ طور پر
قادیانیوں کو کافر قرار دے چکی ہے۔ قادیانیوں کے حوالے سے وقتاً فوقتاً
امریکی کوششیں علمائے کرام اور دینی حلقوں کے اس الزام کو سچ کر دکھاتی ہیں
کہ قادیانی امریکا اور اسرائیل کا مہرہ ہیں ،امریکی سرپرستی کچھ کچھ وقفے
کے ساتھ اس حقیقت کو طشت ازبام بھی کرتی رہتی ہے۔ |
|