’’ناجائز ‘‘ہڑتال
(Haris Qadeer, Rawalakot)
سرکار کہتی ہے کہ یہ لوگ پاگل
ہیں، یہ ہڑتال کر کے قومی نقصان کر رہے ہیں، لوگوں کو پریشان اور علاج سے
محروم کر رہے ہیں، ہماری سرکار کو خوف ہے کہ یہ پاگل کہیں ہسپتالوں اور
سرکاری اداروں پر قبضہ ہی نہ کر دیں، اس لئے سرکار نے سنتری تعینات کرڈالے
ہیں۔ کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو پاگل نہیں ہوئے ہیں، وہ ہڑتال کو غیر قانونی
و ناجائز گردانتے ہوئے کار سرکار کی انجام دہی میں مصروف ہیں، سرکار انکی
اس اطاعت گزاری پر بہت خوش ہیں ، ماہ جون جاری تھا، غریب لوگوں کیلئے سفری
سہولیات، پینے کے پانی کی سکیموں کی تنصیب سمیت دیگر منصوبہ جات کیلئے فنڈز
اسی ماہ میں ہی استعمال ہونا تھے، اطاعت گزاروں نے دن رات ایک کئے اور بیش
بہا منصوبہ جات کاغذوں میں داغ ڈالے اور ناجائز ہڑتال والوں پر سرکار کی
برہمی کو جائز قرار دینے میں اہم کردار ادا کیا، ہڑتال تو ناجائز ہی ہو گی،
اس سے سرکار کو کیا خاک فائدہ ہو گا۔۔۔۔۔۔؟ سرکار کو خود کم تنخواہ ملتی ہے
انہیں تو اپنی تنخواہ سے غرض تھی اور اسکے لئے کی جانیوالی ہڑتال ہی جائز
ہے جو کہ سرکارکے بڑے گھر میں کی جانی چاہیے تھی سو سرکار اس جائز ہڑتال
میں سب سے آگے تھے اور تنخواہ اور عیوشیات میں اضافے کی مانگ کر ڈالی ۔
ساتھ ہی بیان یہ بھی داغا کہ یہ غریب لوگ پاگل ہیں جو نظام فطرت کو نا
انصافی گردانتے ہوئے سراپا ہڑتال ہیں۔ سرکار کے اہم کمیشن افروز منصوبہ جات
میں رکاوٹ ڈالے ہوئے ہیں۔
بھلا جس نے سرکار کی سرکار قائم ہونے کیلئے کوئی سامان ہی نہ پیدا کیا ہو
اسکو کیا حق ہے کہ ان لوگوں سے برابری کی خواہش لے جائے جنہوں نے سرکار کے
قیام کیلئے بیش بہا سامان پیدا کئے، دن رات ایک کرتے ہوئے ووٹ در ووٹ
مانگے۔ غریب لوگوں کو ٹیکے لگانے، مرہم پٹی کرنے اور پولیو کے قطرے پلانے
سے بھی بھلا ووٹ ملے ہیں کبھی۔۔۔۔۔؟ گھر ایسا ہی ہے تو پھر سراپا ہڑتال
ہونا ناجائز اور برابری کی خواہش رکھنا تو بہت ہی بڑا گناہ ہوا، اس گناہ کا
ارتکاب کرنیوالوں کو سولی چڑھا دینا چاہیے۔
ایک سرکار وہ ہیں جو باعثِ قلمدان ٹھہرے، اک سرکار وہ ہیں جنہیں ٹھیکہ ملا
ہے غریبوں کیلئے آواز بلند کرنے کا۔۔۔ اسی ٹھیکے نے دیا اک مکاں لامکاں
کو۔۔۔وہ کیسے کہیں کہ یہ لوگ پاگل نہیں ہیں؟ ہوئے تم دوست جس کے دشمن اس کا
آسماں کیو ں ہو؟
اطاعت گزاری میں ہم کیوں پیچھے رہیں ، ہم بھی تو پہلی یا دوسری سرکار کے
ماننے والے ہی ہیں، ہم بھی میدان میں ہیں یہ سوچے بناء کے ہم خود کیا ہیں۔
یہ ہڑتال ناجائز ہے، لوگوں کے کام رکے ہوئے ہیں، مریض رل گئے ہیں، اراضیات
کے مسائل سے لیکر ہر ایک مسئلے کا حل ہونا رکا ہوا ہے، عوام مشکلات کا شکار
ہیں، سڑکیں خراب ہیں، پیچ ورک نہیں ہو رہا، تباہی و بربادی ہو گئی ہے،
ہڑتال کرنیوالوں کو فی الفور فارغ کیا جائے اور نئے لوگوں کو تعینات کیا
جائے اور یہ وہ سب کچھ کیا جائے بس ان کا علاج ہونا چاہیے ،جو ناجائز کام
کرتے ہیں، پہلے رشوت لیتے تھے اب کام ہی چھوڑ گئے ہیں۔
پہلے پہل وہ سوشلسٹوں کو پکڑنے کیلئے آئے، میں چپ رہا، میں سوشلسٹ نہیں
تھا، پھر وہ ٹریڈ یونینسٹوں کے پیچھے آئے، میں چپ رہا، میں ٹریڈ یونینسٹ
نہیں تھا، پھر وہ یہودیوں کے تعاقب میں آئے، میں چپ رہا، میں یہودی نہیں
تھا، پھر وہ مجھے لینے آگئے ، تب تک سناٹا مکمل ہو چکا تھا۔
گر بات یوں بھی نہ ہوتو اول فول بکنے سے بہتر ہے اجازت چاہی جائے، ہڑتالی
معافیاں مانگیں، حمایت یافتگان سرتسلیم خم کریں، مشروط حمایت یافتگان پھر
سے سرکار دوئم کی اطاعت گزاری کریں۔ کام پھر چلے، چھ چھ ماہ بلا تنخواہ ملک
کو پولیو فری بنانے کا ٹھیکہ اٹھایا جائے، اسی حالت میں کھنڈرات سڑکوں کو
ٹاکیاں لگائیں، دفتری فائلیں بھریں، رشوت اپنے نام سے لیتے ہوئے افسروں میں
تقسیم کریں، نقل قطعہ اراضی کی جاری کریں اور بکرے سرکاری گیسٹ ہاؤس میں
تشریف آور سرکار کے قدموں میں نچھاور کریں، سب خوش ہوئے، عوامی کام ہوئے،
دفتر آباد ہوئے، دوا موجود نہیں بندے ہسپتال ہوئے، تسلی نہ دے سکے دھکا تو
دیں گے، دوا تو پیسوں سے ملتی ہے ، دوا نرس کے پاس ہے نہ کمپاؤنڈر کے دائرہ
اختیار میں، ٹھیکہ کلرک نے دینا ہے نہ ہی دائی ایسا کر سکتی ہے، یہ مجال ،
یہ اختیار انہی کا ہے جو حفاظت طلب کئے، خطرے کی گھنٹیاں بجاتے، احتیاط
برتتے ناجائز ہڑتال کو روکنے پر تلے ہیں۔ ہم بھی سرکار کے اطاعت گزار فلسفہ
جو اپنا کوئی نہیں ، تو پھر سرکار ہی تو اپنے فلسفہ دان ہیں، انہی سے
مستعار لیا۔ مگر ادھار اچھا نہیں ہوا کرتا، جلد یہ ادھار واپس کریں گے،
فلسفہ بھی اپنا نعرہ بھی اپنا پھر اپنی ہی اک دنیا بسائیں گے۔ بقول جون:
تم اپنے سرکار سے یہ کہنا، نظام زر کے وظیفہ خوارو
نظام کہنہ کی ہڈیوں کے مجارو اور فروش کارو
تمہاری خواہش کے برخلاف ایک نیا تمدن طلوع ہوگا
نیا فسانہ، نیا ترانہ، نیا زمانہ شروع ہوگا
جمود و جنبش کی رزم گاہوں میں ساعتِ جنگ آچکی ہے
سماج کے استخواں فروشوں سے زندگی تنگ آچکی ہے
تمہارے سرکار کہہ رہے تھے، یہ لوگ پاگل نہیں تو کیا ہیں؟
یہ لوگ جمہور کی صدا ہیں، یہ لوگ دنیا کے رہنما ہیں
یہ لوگ پاگل نہیں ہوئے ہیں |
|