نئے چیف جسٹس سے عوام کی توقعات

چیف جسٹس آف پاکستان افتخار محمد چودھری کی ریٹائرمنٹ کے بعد 12 دسمبر 2013 کو حلف اٹھانے والے 65 سالہ جسٹس تصدق حسین جیلانی بحیثیت چیف جسٹس آف پاکستان کم و بیش 7 ماہ خدمات سرانجام دے کر اپنے عہدے سے سبکدوش ہوگئے اور جسٹس ناصر الملک نے ایوان صدر میںصدر مملکت ممنون حسین، وزیراعظم نواز شریف، تینوں مسلح افواج کے سربراہان، چیئرمین جوائنٹ چیف آف اسٹاف کمیٹی، چیئرمین سینیٹ نیئر بخاری اور متعدد وفاقی وزرا کی موجودگی میں ملک کے 22 ویں چیف جسٹس کی حیثیت سے اپنے عہدے کا حلف اٹھایا۔ جسٹس ناصر الملک کا تعلق مینگورہ سے ہے، ان کے بزنس مین والد کامران خان سوات میں اپنے انسانی بھلائی کے کاموں کے باعث جانے جاتے تھے۔ قانونی حلقوں کے مطابق جسٹس ناصر الملک انتہائی پیشہ ور اور ماہر جج کے طور پر پہچانے جاتے ہیں۔ وہ 16 اگست 2015 تک اس عہدے پر فائز رہیں گے، جو ایک سال 10 دن کا عرصہ بنتا ہے۔ سپریم کورٹ کے نئے چیف جسٹس ناصرالملک 17 اگست 1950 کو سوات کے شہر مینگورہ میں پیدا ہوئے۔ ایبٹ آباد پبلک اسکول سے میٹرک اور ایڈورڈز کالج پشاور سے گریجویشن کیا۔ 1977ءمیں لندن سے بار ایٹ لا کرنے کے بعد پشاور میں وکالت شروع کی۔ 1981 میں پشاور ہائیکورٹ بار کے سیکرٹری اور 1991ءاور 1993ءمیں صدر منتخب ہوئے۔ 4 جون 1994ءکو پشاور ہائیکورٹ کے جج بنے اور 31 مئی 2004ءکو چیف جسٹس پشاور ہائیکورٹ کے عہدے پر فائز ہوئے۔ 5 اپریل 2005ءکو انہیں سپریم کورٹ کا جج مقرر کیا گیا۔ جسٹس ناصرالملک نے نہ صرف 3 نومبر 2007ءکے پی سی او کے تحت حلف اٹھانے سے انکار کیا تھا، بلکہ وہ 3 نومبر کی ایمرجنسی کے خلاف حکم امتناع جاری کرنے والے سات رکنی بینچ میں شامل تھے۔ پی سی او کے تحت حلف نہ اٹھا کر وہ معزول قرار پائے اور ستمبر 2008ءمیں دوبارہ حلف اٹھا کر جج کے منصب پر بحال ہوئے۔ جسٹس ناصر الملک پی سی او، این آر او اور اٹھارویں ترمیم کے خلاف درخواستوں کی سماعت کرنے والے بینچوں کا حصہ اور سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کو توہین عدالت کے جرم میں سزا سنانے والے بینچ کے سربراہ بھی رہے۔

قانونی ماہرین کے مطابق جسٹس ناصر الملک شاذونادر ہی عدالتی سماعت میں وکلاءسے سوالات کی صورت میں مداخلت کرتے ہیں۔ ایسے جج جو کبھی اپنے آپے سے باہر نہیں ہوتے، وہ وکلاءکو مساوی مواقع فراہم کرتے ہیں، مگر کسی بھی فریق کو مقدمے سے ہٹ کر سیاسی میدان میں داخل ہونے کی اجازت نہیں دیتے۔ پاکستان کا اسٹرکچر اسی صورت میں مضبوط ہوسکتا ہے، جب ریاست کے تمام ادارے قانون کے مطابق کام کریں اور حاصل اختیارات کو عوام کی بہبود کے لیے استعمال کریں۔ سابق چیف جسٹس تصدق حسین جیلانی کی ریٹائرمنٹ کے موقع پر فل کورٹ ریفرنس سے خطاب کرتے ہوئے جسٹس ناصر الملک کا کہنا تھا کہ ”ریاست کے ستونوں کو ایک دوسرے کے امور میں مداخلت نہیں کرنی چاہیے، کیونکہ آئین میں تمام اداروں کے اختیارات کا تعین ہو چکا ہے۔ آئین صرف لفظوں کا مجموعہ نہیں ہے، بلکہ یہ قوم کی اجتماعی سوچ اور اس کی خواہشات کا عکاس ہے۔ پاکستان کی تاریخ میں عدلیہ کے کردار پر سوالات اٹھتے رہے ہیں۔ آمرانہ حکومتوں کی عدالتوں نے ماضی میں ”نظریہِ ضرورت“ کے تحت حکمرانی کا مجاز قرار دیا۔ اس کے علاوہ عدالیہ کے کردار کے حوالے سے ادارتی تجاوزات بھی ایک اہم عنصر رہا ہے۔ اگر ادارے ایک دوسرے کے مینڈیٹ کا احترام نہیں کریں گے تو اس سے عوامی حقوق متاثر ہوں گے۔ مقدمات کو التوا میں رکھنے کی روش کو ترک کرنا ہوگا، تاکہ لوگوں کو جلد از جلد انصاف مل سکے۔“ قانونی ماہرین کے مطابق نئے چیف جسٹس ایک اچھے منتظم اور نظم و ضبط پر عمل کرنے والے جج ہیں، جو جانتے ہیں کہ عدالتوں کو کیسے چلایا جانا چاہیے۔ لاپتا افراد کے مقدمات کی سماعت کے دوران جسٹس ناصر الملک ہمیشہ ثابت قدم رہے، جس کا نتیجہ متعدد گمشدہ افراد کی بازیابی کی صورت میں نکلا۔ سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سابق صدر طارق محمود ایڈووکیٹ کے خیال میں ہوسکتا ہے کہ جسٹس ناصر الملک کو عدالتی نظام سنبھالنے میں مشکلات کا سامنا ہو، تاہم وہ ان کے 24 مئی کے فیصلے کو سراہتے ہیں، جس میں خیبر پختونخوا حکومت کو نجی تعلیمی اداروں میں طالبعلموں کے لیے رعایتی فیس کے قانونی تنازعے پر ناکامی کا سامنا کرنا پڑا تھا۔

قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ جسٹس ناصر الملک کو اپنی تیرہ ماہ کی مدت کے دوران متعدد چیلنجز کا سامنا ہوگا، کیونکہ ان سے ملک کی موجودہ سیاسی کشیدگی کی صورتحال میں کافی توقعات وابستہ ہیں۔ انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی مبصر عاصمہ جہانگیر کا کہنا ہے کہ جسٹس ناصر الملک کو سول فوجی تعلقات میں غیر جانبدار رہنا ہوگا، نئے چیف جسٹس کے لیے سب سے بڑا چیلنج سابق چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کے طے کردہ معیار کا سامنا ہوگا، جو اب تک چلا آرہا ہے۔ مبصرین کے مطابق نئے چیف جسٹس ناصر الملک نے اپنے عہدے کا حلف اٹھالیا ہے، دعا ہے کہ وہ ملک و قوم کی توقعات پر پورا اتریں، امیر اور غریب سب کو یکساں انصاف فراہم کریں اور اسی طرح عوام کے حقوق کی بات کریں، جس طرح چیف جسٹس افتخار محمد چودھری نے کی۔ اگرچہ کسی کے اپنے عہدے سے سبکدوش ہونے کے بعد لوگ اس پر اعتراضات کرتے ہیں، لیکن افتخار محمد چودھری نے ایک قابل تقلید روایت قائم کی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ ماضی میں عدلیہ انتظامیہ اور اسٹیبلشمنٹ کا گٹھ جوڑ ہوا کرتا تھا، سب ایک دوسرے کے مفادات کا تحفظ کرتے تھے، لیکن چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے صدر، وزیراعظم، اعلیٰ فوجی جرنیل، خفیہ ایجنسیوں کے سربراہ، فوجی آمر، با اثر ترین کاروباری افراد، اہم سرکاری افسران اور اعلیٰ عدالتوں کے ججز سمیت سب کو قانون کی پکڑ میں لیا۔ کئی وفاقی اور صوبائی وزرا، مشیران اور ارکان پارلیمنٹ کو بدعنوانی، جعلی ڈگریوں اور دہری شہریت کے مقدمات میں عدالت کی مداخلت کے بعد گھر بھی جانا پڑا۔ اسی کو حقیقت میں قانون اور عدلیہ کی بالا دستی کہتے ہیں۔ ملک و قوم اور عوام کی بھلائی کے لیے چیف جسٹس افتخار محمد چودھری نے آئین کے آرٹیکل 184-3 کے تحت از خود نوٹس کا اختیار با رہا استعمال کیا۔ ”این آراو“، ایکوڈک کیس، این آئی ایل سی اسیکنڈل، رینٹل پاور پروجیکٹس، حج اسکینڈل، بینک آف پنجاب کیس، پاکستان اسٹیل ملز اسکینڈل کیس، شوگر مافیا کیس میں کرپشن اور بدعنوانی کرکے قومی خزانے پر ڈاکا ڈالنے والوں پر ہاتھ ڈالا اور بااثر لوگوں سے قومی خزانے کے کھربوں روپے بچائے۔ دہری شہریت اور جعلی ڈگری ہولڈروں کی نااہلی، میموگیٹ، کراچی بدامنی کیس، مہران بینک اسکینڈل، لاپتا افراد کیس میں چھپے ہوئے چہروں کی اصلیت عوام کے سامنے لائے، اعلیٰ فوجی حاضر سروس عہدیداروں، سویلین آفیسرز، سابق آرمی چیف جنرل اسلم بیگ، جنرل اسد درانی سمیت بہت سے بڑوں کو عدالت میں حاضر کیا۔ انہوںنے عدالتی فعالیت کے ذریعے طاقتوروں کو نکیل ڈالی۔ جبکہ ان کے بعد آنے والے چیف جسٹس آف پاکستان تصدق حسین جیلانی نے کم و بیش 7 ماہ خدمات سرانجام دیں، لیکن وہ اس طرح سے کام نہیں کرسکے، جس طرح سے افتخار محمد چودھری نے کیا۔ جسٹس تصدق حسین جیلانی کے دور میں 3 ہزار 700 سے زاید درخواستیں دائر کی گئیں، جن میں سے 2 ہزار کے لگ بھگ درخواستوں کو نمٹایا گیا اور ان کے دور میں سپریم کورٹ میں نہ کوئی وزیراعظم آتا دکھائی دیا اورنہ ہی کوئی وزیر۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ اب نئے چیف جسٹس صاحب کو چاہیے کہ وہ اس راستے پر چلیں جس سے عوام کی توقعات زیادہ سے زیادہ پوری ہوں۔ پاکستان کا شمار دنیا کے ان ممالک میں ہوتا ہے، جہاں انصاف کا حصول مشکل سے ہوتا ہوا ناممکن کی حدوں کو چھو رہا ہے، غریب عوام اپنے حقوق کو حاصل کرنے کے لیے کچہری کے فرسودہ کلچر میں خوار ہونے کے باوجود انصاف سے محروم رہتے ہیں۔ غریب عوام کے حقوق ہمیشہ بااثر افراد غصب کر لیتے ہیں، تمام کوششوں کے باوجود غریب عوام کے لیے انصاف کا حصول دشوار ترین ہے۔ ان حالات میں عوام نئے چیف جسٹس آف پاکستان ناصر الملک سے توقع کرتے ہیں کہ وہ عوام کو انصاف فراہم کریں گے اور انصاف کی فراہمی کی وہی روایت برقرار رکھیں گے، جو افتخار محمد چودھری نے شروع کی تھی۔
عابد محمود عزام
About the Author: عابد محمود عزام Read More Articles by عابد محمود عزام: 869 Articles with 638664 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.