علن فقیر اور معروف دانشور زیڈ
اے بخاری مجھے یاد آگے ۔کہ کلینڈر پر جولائی کا آغاز ہوا چکا تھا……جولائی
اور ان دونوں عظیم پاکستانیوں کا بہت گہرا تعلق ہے ……جولائی 1977 کی نصف شب
پاکستان کی ترقی کے پہیے کو صدیوں پیچھے دھکیل دیا گیا…… اور اسکے عوام کی
خوشحالی کے راستے میں سپیڈ بریکر لگا دئیے گے۔ یعنی اس ملک کی سلامتی اور
جمہوریت پر شب خون مارکر آئین پاکستان جو بڑی محنت سے منظور ہوا تھا اس کو
کھڈے لائین لگا کر آمریت نافذ کی گئی۔
اسی جولائی میں پاکستان کے سنہرے مستقبل کو پس دیوار زنداں بند کرکے ظلم کی
ابتدا کی گئی……پاکستان کے عوام نے اپنے سنہرے مستقبل کو بچانے کے لیے بہت
جدوجہد کی …… نوجوانوں نے خود سوزیاں کیں۔گرفتاریاں پیش کرکے جیلیں بھر
دیں۔اپنے مستقبل کو بچانے کی جدوجہد میں بچے ،بوڑھوں اور نوجوانوں کے ساتھ
ساتھ اس دھرتی کی بیٹیوں نے بھی اپنا کردار ادا کیا…… انہوں نے اپنے آنچلوں
کو پاکستان کے پرچم میں تبدیل کیا ۔گرفتاریاں دیں اور قید وبند کی صوبعتیں
بھی برداشت کرکے ثابت کیا کہ وہ بھی کسی سے کم نہیں اور اپنے مستقبل سے اسی
قدر محبت کرتی ہیں ،جتنی کوئی اور کر سکتا ہے۔
آمریت سے میری مراد جنرل ضیا ء الحق کا مارشل لا ہے اور’’ پاکستان کامستقبل
‘‘ ذوالفقار علی بھٹو ہے۔ جہاں پاکستان اور اسکے مستقبل کو بچانے میں
پاکستان کے عوام، وکلا، طالب علموں، مزدوروں ،کسانوں حتی کہ ہر شعبہ ہائے
زندگی سے وابستہ کروڑوں عوام نے اپنا اپنا کردار ادا کیاہے۔ وہاں ہمارے دیس
کے فنکار بھی کسی سے پیچھے نہیں تھے…… دوسرے لوگوں کی طرح اس جدوجہد میں
حصہ لینے پر فنکاروں کو بھی سزاوں سے نوازا گیا……اس دور آمریت میں جس کو
بعض نا عاقبت اندیش ضیاء کے نام سے یاد کرتے ہیں۔اگر اس سیاہ دور کے ظلم کو
کتابی صورت دی جائے تو کئی دفتر درکار ہوں گے۔
ماہ پارہ صفدر کو ’’پاکستان کے مستقبل ‘‘کو دی گئی پھانسی کی سزا کی خبر
پڑھنے سے روک کر سزادی گئی…… علن فقیر جیسے سندھ کے لوک گلوکار کو محض اس
لیے ریڈیو اور ٹی وی پر بین کردیا گیا کہ انہوں نے ایک انٹرویو میں
’’پاکستان کے مستقبل‘‘ کے لیے چند اچھے الفاظ بول دئیے تھے……خالصتا ضیائی
دور میں علن فقیر پر ریڈیو اور پی ٹی وی کے دروازت تو بند رہے، لیکن اس
عالم اسلام کے ترجمان ادارے پر اسرائیل کا قومی ترانہ اور پرچم دکھائے جاتے
رہے۔……ایک نیوز کاسٹر کو اس لیے نوکر سے فارغ کر دیا گیا کہ اس نے خبریں
پڑھتے ہوئے جناب زیڈ اے بخاری کہنے کی بجائے زیڈ اے بھٹو پڑھ دیا تھا……
پانچ جولائی کو سیاہ دن کہنے اور لکھنے پر اعتراضات کرنے والے کم عقلوں کو
سمجھ آگئی ہوگی کہ پانچ جولائی کو پاکستان کی تاریخ کا بلیک ڈے کیوں کہا
جاتا ہے۔
آئین کے آرٹیکل سکس کے ا ب بڑے چرچے ہو رہے ہیں ۔ اور مطالبات کیے جا رہے
ہیں کہ جنرل مشرف پر آئین کے آرٹیکل سکس کے تحت مقدمہ چلایا جائے…… کئی لوگ
یہ بھی کہتے ہیں کہ آرٹیکل سکس کو آئین کا حصہ بنانے سے مارشل لا کا راستہ
تو روکنے میں کامیابی نہیں ہوئیکیونکہ جنرل ضیا ء اور جنرل مشرف کے مار شل
لاوں کو آرٹیکل سکس روکنے میں ناکام رہا ہے…… میرا ان جہلوں سے سوال ہے کہ
جنرل ضیا اور جنرل مشرف دونوں آئین کو منسوخ کرنے سے بھلا کیوں باز رہے ؟
اسی وجہ سے کہ آئین کو منسوخ کرنے میں آرٹیکل سکس ان کے اور انکے قانونی
ماہرین کے عالی ذہنوں میں موجود تھا۔ اگر یہ آرٹیکل سکس آئین کا حصہ نہ
ہوتا تو آج آئین کا وجود نہ ہوتا۔
اگر کا 1973 کا آئین ہمارے درمیان موجود ہے اور جنرل ضیا ء الحق اور جنرل
مشرف کو آئین منسوخ کرنے سے باز رکھتا ہے ۔تو یہی کامیابی ہے ذوالفقار علی
بھٹو کی …… کہ آرٹیکل سکس کو آئین کا حصہ بنانے کا انکا فیصلہ درست تھا……اور
اگر یہ آرٹیکل سکس آئین کے اندر موجود نہ ہوتا تو آج پاکستان کی سرزمین بے
آئین ہوتی اور ہر طرف ظلمت کے سائے ہی سائے ہوتے۔
چلتے چلتے چند باتیں ضلع شیخوپورہ کے ان بہادر صحافیوں کی بھی کرتا چلو
جنہوں نے شرقپور شریف میں تعینات ایک فرعون صفت پولیس انسپکٹر کے خلاف جاری
جنگ میں فتح پائی اور تھانہ کی حدود میں داخل ہونے والے ہر سائل سے بد
تمیزی سے پیش آنے والے بدمعاش انسپکٹر میاں معظم علی کو علاقہ اوٹ کرنے میں
کامیاب ہوئے…… اس حق و باطل کی لڑائی میں شرقپور کے صحافیوں کا ضلع
شیخوپورہ کے صحافیوں ،انکے قائدین شہباز خاں ( صدر پریس کلب شیخوپورہ) جناب
ارشد شیخ ( بیورو چیف روزنامہ پاکستان) کے ساتھ ساتھ انکی کوششوں سے صدر
لاہور پریس کلب ارشد انصاری کی خصوصی دل چسپی نے شرقپور کے صحافیوں کی فتح
میں برا کردار ادا کیا ہے۔
اس سفاک پولیس انسپکٹر میاں معظم علی نے کوئی بیس پچیس دنوں میں ایک سو
پچاس مقدمے دفعہ 7- 51 کے درج کیے یعنی ظالم اور مظلوم دونوں اندر…… ظالم
اور مظلوم ایک ساتھ حوالات میں بند……کیسا انوکھا طریقہ تفتیش اختیار کیا
تھا اس پولیس انسپکٹر نے…… ہے ناں تمام قانون ضابطے اسکے گھر کی
لونڈی……ایسے ہی ایک 7-51 کے مقدمہ کی معلومات کے حصول کے لیے تھانہ شرقپور
جانے والے صحافیوں سید طہماسپ علی نقوی،ملک صدیق بادشاہ، محمدشہباز سیمت
دیگر صحافیوں سے ہتک آمیز روئیے کے ساتھ پیش آنے اور انہیں تھانے سے چلے
جانے کا کہنے سے شروع ہونے والی لڑائی کے چند روز بعد اس فرعون کی طرح غرور
اور تکبر سے لبریز شخصیت کے مالک پولیس انسپکٹر میاں معظم علی نے چند اوباش
افراد کے ہاتھوں صدر پریس کلب شرقپور ملک اقبال شاکر کو پٹوانا……اور اس سے
چند روز پیشتر ایک پولیس چوکی کے انچارج جاوید اختر سب انسپکٹر کے ہاتھوں
راقم سمیت دیگر تین مقامی صحافیوں کو غلیظ گالیاں دلوانا اور دہمکیاں
دلوانا اس لڑائی کے بنیادی عوامل تھے…………
شرقپور پریس کلب اور شیخوپورہ پریس کلب اور ضلع بھر کے علاقائی صحافیوں نے
دو دن ڈی پی او آفس کے اندر باہر دھرنے دئیے اور لاہور سرگودہا روڈ مکمل
بلاک کیے رکھی…… گرمی کی شدت سے نوجوان صحافی فضل قیوم خاں اور اقیک بزرگ
صحافی ( مجھے تصور نہ کیا جائے) بے ہوش ہوگے انہیں 1122 کے ذریعے ہسپتال
پہنچایا گیا جہاں انہیں طبی امداد باہم پہنچائی گئی۔الحمد اﷲ شرقپور پریس
کلب کے اراکین اور شیخوپورہ پریس کلب اور لاہور پریس کلب کے صدور شہباز خاں
،ارشد انصاری اور ارشد شیخ کی قائدانہ صلاحیتوں کی بدولت پنجاب کے ڈی فیکٹو
وزیر اعلی حمزہ شہباز شریف اور پولیس انتظامیہ بدمعاش انسپکٹر معظم علی کو
تھانہ شرقپور سے کک اوٹ کرنے پر راضامند ہوئے اور آج 4 جولائی کو کک اوٹ
کردیا گیا ہے……ایک بات رہ گئی کہ صحافیوں کے ساتھ لرائی کی انکوائری کے لیے
دو ڈی ایس پی ملک صدیق طاہر اور مرزا عارف تھانہ شرقپور آ ئے تو بدمعاش
انسپکٹر نے اپنے حق میں شہادتیں ریکارڈ کروانے کے لیے پوری تحصیل سے پولیس
ٹاوٹوں اور جرائم پیشہ عناصر کو تھانے میں مدعو کیا گیا تھا……ان مدعو
ٹاوٹوں اور جرائم پیشہ عناصر کی آو بھگت کی ذمہ دار تھانے کے عملے کے ذمے
لگائی گئی تھی…… صحافی قائدین ارشد شیخ اور شہباز خاں نے ڈی پی او شیخوپورہ
سے رابطہ کیا اور انہیں آگاہ کیا کہ اس ماحول میں ہم انکوئری کو کنڈکٹ نہیں
کر سکتے……اگر ہمیں انکوائری کا حصہ بنانا ہے تو پہلے تمام جرائم پیشہ عناصر
اور ٹاوٹوں کو تھانے سے ریمو کیا جائے چنانچہ تمام جرائم پیشہ عناصر اور
ٹاوٹوں کو تھانے کی حدود سے باہر نکال دیا گیا ۔البتہ چند ایک کو تھانے کے
تفتیشی افسران کے کمروں میں وی آئی پی کی حثیت سے بٹھایا گیا…… میں اپنے
آبائی ٹاون کے بہادر ،نڈر صحافہوں سید طہماسپ علی نقوی،ملک صدیق بادشاہ،
حاجی طارق اقبال، فضل قیوم خاں، صدیق طاہر، ملک اقبال شاکر، محمد شہباز اور
چمن خاں کو دلی مبارکباد پیش کرنے کے ساتھ ساتھ انہیں نصیحت کرتا ہوں کہ ہر
قسم کے حالات مین اپنے اندر یونٹی کو قائم رکھنا اور کبھی بھی اپنی قیادت
سے بد گمان نہ ہونا……اگر دو باتوں کو پلے باندھ کر رکھا تو زندگی میں کبھی
کوئی تم کو شکست نہیں دے پائے گا۔ |