آمدِ رمضان

رمضان کا مبارک مہینہ ہم پر سایہ فگن ہوا۔ اور رحمت کی ہوائیں چلنے لگی اور ہر کسی نے رمضان کو دل کی اتھاہ گہرائیوں سے خوش آمد کہا۔اور رمضان کے اس مبارک مہینہ کا استقبال کیا۔ اس ماہِ مبارک میں فرض روزوں کے بارے میں ،ارشاد باری تعالٰی ہے "اے ایمان والوں تم پر رمضان کے روزے فرض کیئے گئے ہیں جیسے کہ تم سے پہلی اُمت پر فرض کیے گئے تھے تاکہ تم پرہیز گار بن جاؤ"۔ اللہ رب العزت نے ایمان والوں سے یہ ارشاد فرمایا کے "اے ایمان والوں تم پر روزے فرض کیے گیئے ہے جسے تم پر اور کئی عبادات فرض ہیں وہی رمضان المبارک کے روزے بھے تم پر فرض ہے اس میں ایک دوسری بات یہ بھی ارشاد فرمائی کے یہ روزے تم سے پہلی اُمتوں پر بھی فرض کیا جاتے رہے ہیں۔ اب سوال پیدا ہوتا ہے کیوں فرض کیئے گئے ہے؟؟ گویا ارشاد ہوا کے اس لیئے تاکہ تم پرہیزگار بن جاؤ۔ علامہ آلوسیؒ روح المانی میں فرماتے ہے پچھلے لوگوں پر فرض ہونے کا تذکرہ کرنا یہ اپنے غلاموں پر روزے کر آسان کرنے کی تدبیر ہے۔ کہ روزے کوئ ایسی مشکل بات نہیں ہے کہ سحری سے لے کر غروب تک خالی پیٹ رہنے سے کوئ مر نہیں جائے گا۔ تم سے پہلے سے لوگ روزہ دار تھے وہ لوگ بھی روزہ رکھ کر زندہ تھے۔ جب انسان روزے سے ہوتا ہے تو اللہ ربالعزت کی طرف سے انسان کو دیئن ے کے وہ اکثر بورے کاموں سے بچ جاتا ہے۔ جب روزے سے ہوتا ہے تو وہ جھوٹ سے لایانی باتوں سے کئی گناہوں سے بچ جا تا ہے اس طرح انسان تقویٰ دار بن جاتا ہے۔ تقویٰ کا ذکر اس لئے ارشاد فرمایا کیوں کے اللہ تعایٰ کو تقویٰ دار انسان بے حد پسند ہے۔ متقی پرہیزگار شخص اللہ کو بے حد محبوب ہے۔یہ مہینہ غم خواری کا ہے، حضرت سلمان فارسی (رضہ) کی ایک طویل حدیث ہے جس میں آپﷺ نے فرمایا کے جو بھی شخص رمضان کے مہینے میں کیسے کو افطار کروائے تو اللہ تعالیٰ اُسے اتنا ہی ثواب عطاء فرماتے ہے جتنا اُس روزے دار کو،ایک صحابی رضہ نے ارشاد فرمایا کے ہم میں تو ہر کسی کی اتنی توقیق نہیں ہے کے وہ کیسے کو افطار کرئے آپﷺ نے ارشاد فرمایا کے یہ ثواب اللہ تعالیٰ ایک کجھور سے افطار کر نے پر بھی عطاء فرماتا ہےجو شخص اخلاص کے ساتھ اس ماہِ مبارک کے روزے رکھے اللہ تعالیٰ اُس کے تمام گناہ معاف فرمادیتے ہے۔اس مہینے کو اور مہینوں پر ایسی ہی فضلت ہے جسے چاند کو تاروں پر۔اس ماہِ مبارک میں نفل کو فرض اورفرضوں 27 درجے تک بڑہا دیا جاتا ہے ۔ہمیں اس ماہِ مبارک میں آسمان کے دروزے کھول دیا جاتے ہیں اور جہنم کے دروازہ بند کردیا جاتے ہے۔ اس مبارک مہینہ میں ایک کو ستر گناہ تک بڑہادیا جاتا ہے۔ اگر ہمیں کوئی کہے کے آپ ایک دو میں تمھیں ستر کر کے دونگا تو ہم سب سب دور لگاتے ہوئے اُس کے پاس جاپہنچےگے یہ لو بھائی مجھے بھی ستر کو دو۔ ظاہری نفع کے پیچھے تو ہم بھاگ رہے ہے لیکن دونوں جہاں کا مالک فرما رہے ہے تم مجھے ایک نیکی دو میں تمھیں ستر کر کے دونگا لیکن ہم وہ ستر نہیں لے رہے۔ جس طرح بازار لگانے والے شخص کا سیزن عید کے قریب کے مہینہ ہوتے ہے ایسی طرح نیکیاں کمانے کا بہترین مہینہ رمضان کا مہینہ ہے۔ اس ماہِ مبارک میں جتنا ہو سکے اپنے رب سے لے لو جتا منگنا ہے منگ لو۔ایک مرتبہ آپﷺ ممبر پر چڑھنے لگے۔آپﷺ نے تین مرتبہ آمین کہا صحابہ(رضہ) نے پوچھا کے آج ہم نے ایک عجیب بات دیکھی کے آپ ممبر پر چڑھتے ہرئے آپ نے آمین کہا۔آپﷺ نے فرمایا کے حضرت جبرائیلؑ آئے اور کہا کے ہلاک ہو وہ شخص جو رمضان کا مہینہ پائے اور اپنی مغفرت نہ کرائے،اور ہلاک ہو وہ شخص جس کے سامنے آپﷺ کا نام آئے اور وہ دورد نہ بہجے،اور ہلاک ہوجائے وہ شخص جو اپنے والدین میں سے کیسی کو پائے اور اپنی مغفرت نہ کروادے۔ اس ماہ مبارک میں چار عمال کی کثرت رکنی چاہیئے، ایک استغفار کی، دوسری پہلے کلمہ کی،تیرے نمبر پر جنت کا سوال اور جہنم سے نجات، اس ماہِ رمضان میں زیادہ سے زیادہ آولیااللہ کی صحبت میں بیٹھنا چاہیے۔تاکہ متقی ہونے کے ساتھ ساتھ (لَعَلَّکُم تتقون) روزے اور الیاءاللہ کی صحبت کی برکت سے تم اللہ کے دوست بن جاؤ۔
خاصان خُدا خُدا نہ باشند
لیکن ز خُدا جُدا نہ باشند

اللہ والے خدا نہیں ہیں لیکن وہ ان سے جُدا بھی نہیں ہے۔ دھوپ تو سورج نہیں ہوتی لیکن سورج سے جُدا بھی نہیں ہوتی۔اللہ والوں کی صحبت میں رہنے سے انسان کو اللہ کا قُرب نصیب ہوتا ہے۔جب کوئی ان اللہ والوں کے ساتھ ذیادہ سے ذیادہ وقت گزارتاہے تو ان اولیاء اللہ کو دیکھ کر انسان کا دل بھی اور اللہ پاک کی عبادت کی طرف راغب ہوتا ہے۔ اور اِن اولیاءاللہ کے تقویٰ کو دیکھ کر انسان بھی اس تقویٰ کے رنگ میں رنگ جاتا ہے۔ اور ان کے مجاہدے نفس کو دیکھ کر انسان کے اندر ایک نئے قسم کی تبدیلی روہنما ہوتی ہے۔ روزے سے جب انسان ہوتا ہے تو وہ اصل میں جھادبنفس کر رہا ہوتا نفس کہتا ہے کھا انسان کہتا رُکھ خدا کا حکم نہیں ہے اب نفس کہتا ہے یہ کیا ہے فجر تا غروب آفتاب تک کھانے سے رکھے رہنا، انسان کہتا ہے میرے رب کا حکم ہے۔ مختلف لوگ جسے، ڈاکٹر،قانون دان، اولیاءاللہ، الغرض کے دنیا کے تمام شعبوں سے تعلق رکھنے والے اشخاص روزے کے مختلف فوائد دریافت کرتے ہے۔ قانون دان کہتا ہے جب یہ انسان وازے سے ہوتا ہے تو یہ اپنا آپ کو ہر اُس کام سے منا کرتا ہے جو اُس کے لئے روزے کی حالت میں منا ہے، سب سے اہم بات کے جب انسان روز مرہ زندگی میں سامنے کھانا آتا اہے یہ انسان اس کھانے کو دیکھتے ہی اِس پر ٹوٹ پرتا ہے، اور سر جب اُپر کرتا ہے جب وہ پلیٹ کو خالی نہ کر دے، جب یہی انسان روزے سے ہوتا ہے، اور اس کے سامنے کئی اقسام کے کھانے ہوتے ہے وہ وہ کھانے جو معمول کے نہیں ہوتے ان سب کی موجودگی کے باوجود یہ انسان آذانِ مغرب کا انتظآر کر تا ہے اور جب آذآن ہو جاتی ہے تو سب سے پہلے افطار کی دُعا پڑتا ہے اور پھر کھانا شروع کرتا ہے۔ اسی طرح اس میں صبر کا ایک مادہ عروج کو پہنچتا ہے۔اس طرح یہ ہر کام میں صبر کرتا ہے اس سے پہلے جب اس سے کوئ بُری بات کرتا تو یہ لڑنے جگڑنے کو تیار ہوجاتا تھا لیکن اب یہ ہر کام پر صبر کرتا ہے اسی طرح ڈاکٹر صاحبان بھی مختلف فضائل ارشاد فرماتے ہے۔ حدیث شریف میں آتا ہے جس کا مفہوم ہے کہ کچھ روزے دار اِیسے بھی ہوتے ہے جن کو صرف بھوکے رہنے کے کچھ حاصل نہیں ہوتا۔ علماء فرماتے ہے یہ وہ لوگ ہوتے ہے جو روزہ بھی رکھتے ہے اور جھوٹ، دھوکا وغیرہ جیسے گناہوں کے کام بھی کرتے ہے۔ ان کو صرف بھوکے رہنے کے کچھ حاصل ہوتا۔ اگر آپ دیکھے تو رمضان کے اس مبارک مہینے میں بھی لوگ جھوٹ بولتے ہے۔ جسے ہی آپ مسجد سے باہر تشریف لاتے ہے آپ کو کئی ٹھلے والے جھوٹ بولتے نظر آتے ہیں میں سب کی تو بات نہیں کر رہا لیکن اکثر ایسا ہی کرتے ہے۔اورمارکیٹ وغیرہ میں بھی جھوٹ کو گناہ ہی نہیں سمجھاجاتا۔ بلکہ اس کو اب تو کاروبار کا ایک اہم حصہ بنا دیا گیا ہے۔ اگر ہم دیکھے تو روزہ کا مطلب تو رکھنا ہے، بعض رہنا ہے لیکن ایسا ہرگیز نہیں ہوتا ہے۔ ہم مسلسل گناہوں پر گناہ کئے جاتے ہے لیکن ہمیں اس پر توڑا سا بھی افسوس نہیں ہوتا، ہمیں چاہئے کے اس رمضان کے مہینے میں ہم متقی بنے کی کوشش کرئے۔ اور بھی کئے عبادات میں بھی دل لگناچائے اور نماز وغیرہ کو بھی اہتیمام کرنا چاہئے۔ اور یہ مہینہ ٹرینگ کا ہے اور باقی گیارہ ماہ عمل کے ہے۔ اللہ رب العزت ہمیں اس ماہِ مبارک کی براکات نصیب فرماء۔ اور گناہوں سے بچنے کی توفیق عطاء فرما۔ آمین
m.yasir jadoon
About the Author: m.yasir jadoon Read More Articles by m.yasir jadoon: 6 Articles with 9144 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.