ہماری محبت! کس کی ضرورت؟

ایک ماں اپنے بچوں کے ساتھ ٹی وی پر کوئی پروگرام دیکھ رہی تھی۔ٹی وی میں ایک خاندان (ماں باپ اور بچے) دکھایا جا رہا تھا۔ جس میں باپ اپنے بچوں سے بہت پیار کر رہا تھا۔کہ اچانک ٹی وی دیکھنے والے بچوں میں سے ایک نے اپنی ماں سے ایک ایسا سوال کیا کہ وہ لرز کر رہ گئی۔بچے نے کہا : امی جان ان بچوں کے ابو کی طرح ہمارے ابو جان ہمارے ساتھ کیوں نہیں بیٹھتے؟ کہ ہم بھی ان سے لاڈ کریں اور وہ بھی ہم سے پیار کریں۔اب ماں کیا جواب دیتی؟ کہ میرے لال میرے سرتاج کا کاروبار اتنا بڑا ہے کہ اس کے پاس اپنے بچوں کیلئے بھی ٹائم نہیں ہے۔یا یہ کہتی کہ بیٹا ہم بہت غریب لوگ ہیں۔ اگر آپ کے ابو اپنا وقت آپ کو دینے لگیں تو ہم بھوکے رہ جائیں۔جبکہ یہ دونوں جواب جھوٹ ہیں۔حالانکہ وہ خود بیچاری اس حوالے سے کتنے گلے اور شکوے دل کے قبرستان میں دفن کئے بیٹھی ہے، اس کی تو بچوں کو خبر ہی نہیں۔

عام طور پر ہم یہ سمجھتے ہیں کہ ہم اپنی اولادوں کو دنیا کی آسائشیں اور سہولیات مہیا کر کے ان کی طرف سے بریٔ الذمہ ہو گئے ہیں۔یا تین وقت کا کھانا کھلا کر کپڑے دلا کر حق والدیت ادا کر بیٹھے ہیں۔حالانکہ ہم سب جانتے ہیں کہ ہر انسان کو چاہے وہ بچہ ہو نوجوان ہو یا بوڑھا، بہرحال اسے محبت کی ضرورت ہوتی ہے۔اور انسانی ضروریات میں سے ایک اہم ترین ضرورت محبت اور اپنائیت کا احساس بھی ہے۔ذرا غور کیجئے کہیں ایسا تو نہیں کہ ہم اپنے بچوں کو دنیا کی ہر چیز لاکر دے تو دے رہے ہوں مگر جو چیز ہمارے اپنے پاس ہے۔جسے ہم دوسرے لوگوں میں بے تحاشا لٹاتے پھرتے ہیں۔مگر ہمارے اپنے بچے اسی شے (ہماری محبت) کو ترس رہے ہوں۔؟کہیں ایسا تو نہیں کہ ہم دوستوں میں تو بڑے ہنس مکھ اور بااخلاق مشہور ہیں لیکن جیسے ہی گھر میں داخل ہوتے ہیں ہماری ساری ملنساری دروازے سے باہر رہ جاتی ہے۔اور آتے ہی ہم اعلان کر دیتے ہیں کہ بچوں کو ہمارے کمرے میں نہ آنے دیا جائے۔؟؟

کہیں ایسا تو نہیں کہ ہفتہ ہفتہ بیت جاتا ہے اور ہمارا ہمارے بچوں سے آمنا سامنا تک نہیں ہوتا۔؟ اگر ان میں سے کچھ یا اس جیسا کچھ اور آپ کے گھر میں آپ کے بچوں کے ساتھ ہو رہا ہے۔ تو یہ واقعہ پڑھیں اور غور کریں کہ کتنی بار آپ کے بچوں نے ایسا سوچا ہوگا مگر کہہ نہیں پائے۔

ايك بچه گھر کے دروازے پر کھڑا اپنے والد کا انتظار کر رہا تھا۔جیسے ہی والد صاحب گھر میں داخل ہوئے بچے نے ان سے سوال کیا: بابا آپ کی ایک دن کی تنخواہ کیا ہے؟ باپ نے یہ ایک فضول سوال سمجھ کر بچے کو ڈانٹ کر بھگا دیا۔ بچہ مایوسی کے ساتھ واپس پلٹا اور دوسرے کمرے میں جا کے رونے لگا۔پھر جب والد صاحب کو خیال آیا کہ بچہ ایسا سوال کیوں پوچھ رہا تھا تو وہ بچے کے پاس گئے۔ اس کا پاس بیٹھ کر اس کے سر پر ہاتھ پھیرا اور کہا: بیٹا آپ نے یہ سوال کیوں کیا تھا؟ تو بچے نے کہا پہلے آپ میرے سوال کا جواب دیں پھر میں بتاؤں گا کہ میں نے کیوں پوچھا تھا۔تو باپ نے بتایا کہ میری ایک دن کی تنخواہ سو روپے ہے۔بچہ تھوڑی دیر خاموش رہا پھر بولا: بابا آپ مجھے پچاس روپے ادھار دے سکتے ہیں؟ تو باپ نے مزید حیران ہو کر پوچھا وہ کیوں؟ تو بچے نے کہا: بابا میں نے اپنے جیب خرچ میں سے پچاس روپے جمع کر لئے ہیں اب میں پچاس روپے آپ سے ادھار لے کر سو روپے پورے کرنا چاہتا ہوں۔ تاکہ آپ سے آپ کی زندگی کا ایک دن خرید سکوں جو آپ ہمارے ساتھ گزاریں۔

کیا ہم اس دن کا انتظار کریں گے جب ہمارے بچے ہم سے یہ سوال کریں ؟ کتنے والدین ہیں کہ انہوں نے اپنی محبتوں کو دو حصوں میں بانٹ رکھا ہے۔آدھی محبت دوستوں کیلئے اور باقی آدھی معاشرے کے دیگر افراد کیلئے۔ لہذا اس کی مسکراہٹ، خوش خلقی، اور محبت سب کچھ گھر سے باہر کے دوستوں کیلئے ہوتا ہے۔ جبکہ اولاد اور بیوی کے حصہ میں ڈانٹ کرختگی شکوہ و شکایت اور بد مزاجی کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔
اس کا نتیجہ کیا نکلتا ہے؟ کبھی ہمیں سوچنے سمجھنے اور معاشرے کے احوال سے اپنے گھر کے حالات کا تقابل کرنے کا وقت نہیں ملا۔ ہم نے یہ تو سنا ہے کہ فلاں کا بیٹا اپنی بیوی کی وجہ سے ماں باپ کو چھوڑ کر چلا گیا۔ فلاں کی بیٹی خدا ناخواستہ کسی کے ساتھ ناجائز طریقے سے بھاگ گئی۔مگر ہم نے یہ نہیں سوچا کہ ایسا کیوں ہو رہا ہے؟ ایسی کیا خامی ہوتی ہے ماں باپ میں کہ بیٹی ہو یا بیٹا اپنے آشنا کی وجہ سے ماں باپ کو چھوڑ کر چلے جاتے ہیں؟ آئیے میںاس اہم ترین راز سے پردہ ہٹاتا ہوں۔ اس معاملے کی سب سے بڑی اوراہم ترین وجہ والدین کی طرف سے اولاد کیلئے محبت کا فقدان ہے۔جب اولاد کو والدین کی طرف سے محبت نہیں ملتی (حالانکہ وہ ان کی ضرورت ہوتی ہے)۔تو وہ محبت کی تلاش میں مارے مارے پھرتے ہیں۔ پھر جہاں سے ان کو محبت (جھوٹی یا سچی)ملتی ہے، وہ اس پر سب کچھ وار دیتے ہیں۔اور سب کو چھوڑ کر اس کے حصول کے درپے ہو جاتے ہیں۔

اسی کا ایک نتیجہ یہ بھی نکلتا ہے کہ اولاد بڑے ہو کر اپنے والدین سے وفا نہیں کرتی۔ یہی والدین بعد میں روتے ہیں کہ ہمارے بچے ہمارا خیال نہیں رکھتے۔ ارے بھائی اگر آپ نے اپنی اولاد کو اپنا دوست بنایا ہوتا، انہیں اپنی محبت سے آشنا کیا ہوتا تو آپ کو یہ شکوہ نہ کرنا پڑتا۔
Muhammad sajjad anjum
About the Author: Muhammad sajjad anjum Read More Articles by Muhammad sajjad anjum: 5 Articles with 8767 views I Am a Translator from Urdu To arabic...
.. View More