افغانستان:کابل کا سیاسی بحران اور خطے پر اثرات....!
(عابد محمود عزام, karachi)
افغانستان ایک ایسا ملک ہے، پورے
خطے پر جس کے حالات انتہائی زیادہ اثر انداز ہوتے ہیں۔ اڑوس پڑوس کے ممالک
کے حالات افغانستان کے حالات کے ساتھ نتھی ہیں۔ ایک پر امن اور مستحکم
افغانستان ہی پڑوسی ممالک کے مفاد میں ہے۔ ایک ایسے وقت میں جب افغانستان
ایک عرصے سے امریکی جارحیت کا نشانہ بن رہا ہے، اسی جارحیت کی وجہ سے
افغانستان کا اسٹرکچر مکمل طور پر تباہ ہوکر رہ گیا ہے، طالبان امریکا کو
اپنے ملک سے نکالنے کے لیے برسر پیکار ہیں اور سال کے آخر تک امریکا
افغانستان سے نکلنے کا ٹائم بھی دے چکا ہے،ان حالات میں افغانستان میں ہونے
والا صدارتی الیکشن تمام ممالک کی توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے۔ افغان الیکشن
کمیشن کے مطابق صدارتی الیکشن کے دوسرے مرحلے میں اشرف غنی 56.44 فیصد ووٹ
حاصل کر کے ملک کے نئے صدر منتخب ہوگئے ہیں، جبکہ ان کے حریف امیدوار
عبداللہ عبداللہ نے 43.56 فیصد ووٹ حاصل کیے۔ افغان الیکشن کمیشن کے جاری
کردہ بیان کے مطابق اگرچہ الیکشن کے دوران کچھ دھاندلیوں کے کیس سامنے آئے،
تاہم تمام مرحلہ شفاف طریقے سے مکمل کیا گیا ہے اور 14 جون کو ہونے والے
انتخاب کے دوسرے مرحلے میں ایک کروڑ 35 لاکھ ووٹرز میں سے 80 لاکھ افراد نے
اپنا حق رائے دہی استعمال کیا۔ اشرف غنی کے حاصل کردہ کل ووٹوں کی تعداد 48
لاکھ 85 ہزار 888 رہی، جبکہ ان کے حریف عبداللہ عبداللہ نے 34 لاکھ 61 ہزار
639 ووٹ حاصل کیے ہیں۔ ووٹنگ میں مسائل کی وجہ سے ان نتائج میں تبدیلی کے
امکانات موجود ہیں۔ صدارتی الیکشن کے دوسرے مرحلے کی 14 جون کو ہونے والی
رائے دہی میں کل ساڑھے تیرہ ملین رجسٹرڈ افغان ووٹروں میں سے آٹھ ملین سے
زاید نے حصہ لیا تھا اور یہ شرح عمومی توقعات سے کہیں زیادہ ہے۔ حتمی نتائج
کا اعلان اسی مہینے کی 22 تاریخ کو کیا جائے گا، جس کے بعد دو اگست کو ملک
کے نئے صدر کو اپنے عہدے کا حلف اٹھانا ہوگا۔ افغان الیکشن کمیشن کے مطابق
افغان الیکشن میں کامیاب قرار پانے والے امیدوار افغانستان کے معروف
سیاستدان اشرف غنی احمد زئی ہیں، جو 2002ءسے 2004ءتک وزیر خزانہ رہے۔ وہ
کابل یونیورسٹی کے چانسلر بھی رہ چکے ہیں۔ وہ افغانستان کے بارے میں اقوام
متحدہ کے سیکرٹری جنرل کے خصوصی نمائندے لخدار براہیمی کے خصوصی مشیر رہے
ہیں۔
اشرف غنی کے ترجمان کے مطابق انہیں اب بھی 7000 پولنگ اسٹیشنز کے نتائج پر
تحفظات ہیں، تاہم انہوں نے مشروط طور پر نتائج کو تسلیم کیا ہے۔ دوسری جانب
افغانستان کے صدارتی انتخاب کے امیدوار عبداللہ عبداللہ نے اپنے حریف اشرف
غنی کی برتری کے اشاروں کے باوجود گزشتہ ماہ ہونے والے الیکشن میں اپنی
کامیابی کا دعویٰ کیا ہے۔ کابل میں اپنے حامیوں سے خطاب میں انھوں نے ایک
بار پھر انتخاب کو متاثر کرنے کا الزام دہرایا۔ عبداللہ عبداللہ نے کہا ہے
کہ وہ دھوکے باز حکومت کو کبھی قبول نہیں کریں گے۔ انھوں نے دوسرے اور حتمی
دور کے نتائج کو چیلنج کیا ہے، جن میں ان کے حریف اشرف غنی کو سبقت حاصل ہے۔
عبداللہ عبداللہ کو سب سے بڑا اعتراض ٹرن آؤٹ کے بہت بڑی تعداد پر ہے،
کیونکہ یہ پہلے مرحلے کے مقابلے میں تین گنا زیادہ ہے۔ اس کے علاوہ بعض
حلقوں میں امیدواروں کو مشتبہ حد تک زیادہ ووٹ ملے اور خواتین کے ووٹوں کی
تعداد بھی بہت زیادہ رہی جو مقامی روایات کے خلاف ہے۔ اس سے قبل عبداللہ
عبداللہ نے کہا تھا کہ وہ اپنے مخالف امیدوار کی جیت کا احترام کریں گے،
تاہم یہ صرف اسی صورت میں ہوگا، اگر یہ ثابت کر دیا جائے کہ یہ انتخاب شفاف
ہے۔ دونوں امیدواروں نے ووٹنگ میں دھاندلی کے الزامات عاید کیے تھے، جس کے
بعد انتخاب کے صوبائی نتائج ووٹوں کی جانچ کے لیے ایک ہفتے تک کے لیے موخر
کر دیے گئے تھے۔ واضح رہے کہ افغان صدارتی انتخاب کا پہلا مرحلہ اپریل میں
منعقد ہوا تھا، جس میں عبداللہ عبداللہ نے برتری تو حاصل کی تھی، لیکن
مطلوبہ تعداد میں ووٹ نہیں لے سکے تھے۔ اس پر انتخاب کے دوسرے مرحلے کا
انعقاد 14 جون کو ہوا، جس میں عبداللہ عبداللہ اور ان کے قریب ترین حریف
اشرف غنی مدِمقابل تھے۔ دوسرے مرحلے کی ضرورت افغان آئین کے مطابق اس لیے
ہے کہ اگر کسی امیدوار کو ڈالے گئے ووٹوں میں سے پچاس فیصد سے زیادہ ووٹ
نہیں ملتے تو ایسی صورت میں پہلے دو نمبر پر آنے والے امیدواروں کے بیچ
چناؤ کا دوسرا مرحلہ کروانا لازمی ہے۔ افغان الیکشن کے نتائج کے اعلان کے
بعد عبداللہ عبداللہ کی جانب سے اپنی کامیابی کے دعوے کے بعد تصادم کی
کیفیت کے پیش نظرامریکا کے وزیر خارجہ جان کیری نے متنبہ کیا ہے کہ غیر
قانونی طریقے سے اقتدار کی کسی بھی کوشش سے افغانستان امریکا کی طرف سے
فراہم کی جانے والی ”مالی اور سیکورٹی“ اعانت سے محروم ہو سکتا ہے۔ ان کا
کہنا تھا کہ انھیں ایک ”متوازی حکومت“ کی سامنے آنے والی آراءپر انھیں شدید
تشویش ہے۔ انھیں توقع ہے کہ افغانستان کے انتخابی ادارے تمام الزامات اور
بے قاعدگیوں کا معقول انداز میں جائزہ لیں گے، لیکن ان کے بقول تشدد اور
غیر قانونی اقدام کی دھمکیوں کا کوئی جواز نہیں ہے۔ انھوں نے افغان رہنماؤں
سے امن برقرار رکھنے کا مطالبہ بھی کیا۔
تجزیہ کاروں کے مطابق افغانستان میں صدارتی انتخاب کے دوسرے مرحلے کے نتائج
کے اعلان سے ملک میں ایک نیا بحران پیدا ہو گیا ہے۔ دو صدارتی امیدواروں
میں سے ایک طرف سے انتخابی عمل پر عدم اعتماد کے اظہار اور الیکشن کمیشن کی
طرف سے ابتدائی نتائج کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال کے تناظر میں جنگ سے
تباہ حال ملک مزید انتشار کا شکار ہو سکتا ہے اور خدشہ ہے کہ افہام و تفہیم
سے اس کا کوئی قابل قبول حل نہ نکالا گیا تو یہ بحران آگے چل کر سیاسی عدم
استحکام ہی نہیں، خانہ جنگی کی شکل بھی اختیار کر سکتا ہے اور اس کے اثرات
پاکستان سمیت پورے خطے پر مرتب ہو سکتے ہیں۔ اگر اس مسئلے پر اتفاق رائے
ممکن نہ ہوا تو اس سے نسلی منافرت کو ہوا ملے گی، جو تصادم کی صورت اختیار
کر سکتی ہے، جس سے افغانستان میں بڑے پیمانے پر خونی تصادم کا خدشہ ہے۔
مبصرین کے مطابق عبداللہ عبداللہ چونکہ شمالی اتحاد کے حمایت کردہ ہیں اور
شمالی اتحاد آسانی سے کرسی صدارت پر اپنے دعوے سے دستبردار نہیں ہو گا اور
معاملہ علیحدگی تک جا سکتا ہے۔ افغانستان میں ایک اور سول وار اور اس کے
نتیجے میں مغربی ملکوں کی مداخلت ہمارے لیے نئی مشکلات کا سبب بنے گی۔
افغانستان ایک طویل عرصے سے حالت جنگ میں ہے، ان حالات میں تصادم کی راہ
افغانستان کے مستقبل کے لیے نقصان دہ ہوگی اور افغانستان کے حالات مزید
پیچیدہ ہوجائیں گے۔یہ بھی واضح رہے کہ ذرائع کے مطابق بھارت اور دیگر ممالک
افغانستان میں بیٹھ کر پاکستان میں دہشتگردی کروا رہے ہیں۔ اس پس منظر میں
کئی سوالات سامنے ہیں۔ پہلا سوال تو یہ کہ کیا نئی افغان حکومت پاکستان کے
بارے میں دوستی اور تعاون پر مبنی نئی پالیسی اختیار کرے گی یا حامد کرزئی
کی معاندانہ دوغلی اور بھارت نواز پالیسی کو جاری رکھے گی۔ دونوں ملک شدید
بدامنی کا شکار ہیں، ایسے میں انہیں ایک دوسرے کی سلامتی، امن اور بھارئی
چارے کے فروغ کے لیے باہمی تعاون کو بڑھانے پر توجہ دینا ہو گی۔ اسی میں
دونوں کا مفاد اور اس خطے میں پائیدار امن کا انحصار ہے۔ مبصرین کا یہ بھی
کہنا ہے کہ افغانستان میں سب سے زیادہ طاقت طالبان کے پاس ہے، متعدد ممالک
نے 13 سال طالبان سے جنگ لڑ کر ان کی طاقت کا اندازہ کر ہی لیا ہوگا کہ
تمام کوششوں کے باوجود تمام طاقتیں طالبان کو شکست نہ دے سکیں، طالبان کی
طرف سے گزشتہ چند دنوں میں ہونے والے بڑے پیمانے پر حملے ان کی طاقت کی
تازہ مثالیں ہیں۔ تجزیہ کاروں کے مطابق افغانستان میں کوئی بھی حکومت اسی
صورت میں کامیاب ہوسکتی ہے جب اسے طالبان کی حمایت حاصل ہوگی۔آئندہ آنے
والے افغان صدر کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ امریکا کی جاری کردہ ظالمانہ
پالیسیوں کو ترک کرے اور امریکا کے ساتھ ہونے والے اس سیکورٹی معاہدے پر
دستخط نہ کرے جس کی طالبان مخالفت کرتے رہے ہیں، لیکن اگر افغانستان کا
آئندہ صدر بھی طالبان کے ساتھ تصادم کی پالیسی پر گامزن رہا تو افغانستان
مزید بحرانوں کا شکار ہوجائے گا۔
پاکستان میں تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ پڑوسی ملک افغانستان میں صدارتی
انتخاب کے نتائج پر تنازع بڑھا تو اس کے پاکستان سمیت پورے خطے پر منفی
اثرات مرتب ہوں گے۔ پاکستان نے سرکاری طور پر تو ابھی تک افغان صدارتی
انتخابات سے متعلق کو ئی بیان جاری نہیں کیا، تاہم دفتر خارجہ کے ذرائع کے
مطابق پاکستان افغان صدارتی انتخاب کے نتیجے میں ہونے والی پیشرفت پر گہری
نظر رکھے ہوئے ہے۔ افغان امور کے ماہر تجزیہ کار رحیم اللہ یوسفزئی کا کہنا
ہے کہ افغان انتخاب پہلے مرحلے سے ہی متنازع ہو گئے تھے، کیونکہ دونوں
امیدواروں نے ایک دوسرے پر دھاندلی کے الزمات لگانے شروع کر دیے تھے۔دونوں
میں سے کو ئی بھی بر سر اقتدار آجائے، وہ ایک کمزور حکمران ہوگا، کیونکہ
پاور شیئرنگ کیے بغیر حکومت کرنا کسی ایک کے لیے بھی آسان نہیں ہو گا۔ان کا
کہنا تھا کہ ڈاکٹر عبد اللہ شاید پاکستان کے لیے زیادہ ناپسندیدہ تھے اور
اشرف غنی چونکہ پشتون اور اکانومسٹ ہیں تو یہ شاید پاکستان کے لیے زیادہ
بہتر ہو گا۔ اشرف غنی افغانستان کے مفادات کا زیادہ خیال کریں گے۔ کرزئی
حکومت میں عبداللہ عبداللہ وزیر خارجہ اور اشرف غنی وزیر خزانہ رہے، اس لیے
یہ کہنا کہ ان دونوں میں سے کوئی بھی کرزئی حکومت کی پا کستان پالیسی سے
خود کو بالکل الگ رکھے گا تو یہ شاید درست نہ ہو۔ خارجہ امور کی رپورٹنگ
کرنے والے سینیئر صحافی متین حیدر کا کہنا ہے کہ افغانستان کی موجودہ
صورتحال پاکستان، امریکا اور اتحادی ممالک کے لیے پریشانی کا باعث ہے۔
اسلام آباد یہ توقع کر رہا تھا کہ کابل میں نئی حکومت آئے گی، اس کے ساتھ
پاکستان کے بہت سے سیاسی اور سیکورٹی ایشوز پر بات کرنا تھی، لیکن کابل میں
سیاسی بحران شروع ہوگیا، اگر یہ بحران آگے بڑھا تو اس کے پورے خطے پر اثرات
مرتب ہوں گے۔ |
|