سیاست دانوں کا بابوں کے آستانوں پر آنا جانا لگارہتا ہے،
اس ضمن میں لوگ کئی داستانیں سناتے ہیں۔ نوازشریف اور بے نظیر کے بارے میں
کہا جاتا ہے کہ وہ ایک ڈنڈے والے بابا کے پاس جایا کرتے تھے، جن کے بارے
میں مشہور تھا کہ وہ جسے چھڑی کی ضرب لگادے، اس کا کام بن جاتا ہے۔ ان
دونوں کا تو ایک ہی کام ہوتا تھا، دوسرے کی حکومت گرجائے اور وہ وزیراعظم
بن جائے۔ سنا ہے ان دونوں نے اس بابے سے کئی بار ”مار“ کھائی۔ ہمارے علاقے
میں ایک لالن نامی مجذوب ہیں، بے نظیر ان کی بھی بڑی معتقد تھیں، آصف
زرداری بھی ان سے آشیرباد لیتے رہتے ہیں۔ زرداری صاحب نے تو مستقل بنیادوں
پر ایک بابے کو اپنے ساتھ رکھا ہوا ہے۔ اکثر سیاست دان ننگاشاہ، کالاشاہ ،
دھوتی پیر جیسے بابوں یا پھر عاملوں کے پاس آنے جانے کو ترجیح دیتے ہیں۔
ایک تو اس سے ان کے عقیدے کی تسکین ہوجاتی ہے اور دوسری طرف انہیں تقویٰ،
شریعت کی پابندی اور مخلوق خدا پر ترس کھانے جیسی نصیحتیں بھی سننا نہیں
پڑتیں۔ اگر یہ لوگ کبھی کسی ”شرعی بابے“ کے پاس حاضر ہوتے ہیں تو یہ سیاسی
حاضری ہوتی ہے، اس کا مقصد محض بابے کے متعلقین کو خوش کرنا ہوتا ہے۔ سیاست
بھی کیا بے رحم چیز ہے۔ جماعت اسلامی جو دکاندار بابوں کے ساتھ ساتھ شرعی
بابوں کے متعلق بھی کوئی زیادہ اچھی رائے نہیںر کھتی، وہ بھی ”عوامی امیج“
بہتر بنانے کے لیے 1993ءکی انتخابی مہم حضرت علی ہجویریؒ المعروف داتاگنج
بخش کے مزار سے شروع کرنے پر مجبور ہوگئی تھی۔
آج کل کالم نگاروں میں بھی بابے رکھنے کا فیشن عام ہوگیا ہے۔ ہر بڑے کالم
نگار کے پاس اپنا ایک بابا ہے، جس کا وہ اکثر بڑے خشوع وخضوع کے ساتھ اپنے
کالموں میں ذکر کرتا رہتا ہے۔ اب تو یہ حالت ہوگئی ہے کہ جس کالم نگار کے
پاس اپنا بابا نہیں، وہ احساس کمتری کا شکار ہوجاتا ہے۔ سیاست دانوں کے
بابے کچھ بولتے نہیں، صرف آشیرباد دیتے ہیں۔ ماضی کے بیوروکریٹ بابے
فلسفیانہ باتیں کرتے تھے اور کالم نگاروں کے بابے سارا دن پیش گوئیاں ہی
کرتے رہتے ہیں۔ ہارون الرشید صاحب ماشاءاللہ بڑے اور سکہ بند کالم نگار ہیں،
انہوںنے اپنے بابے پروفیسر صاحب سے عمران خان کی بھی علیک سلیک کرائی تھی۔
خان صاحب ان کے معتقدین کی صف میں شامل ہوئے تو بابے نے خوش ہوکر پیش گوئی
کی ”کپتان کو انتخابات میں 3 کروڑ ووٹ ملیںگے۔“ کالم نگار نے اس پیش گوئی
کا اپنے کالموں میں کئی بار بڑے اہتمام سے ذکر کیا۔ پوری تحریک انصاف اس
پیش گوئی پر جھومتی نظر آتی تھی، مگر جب نتیجہ نکلا تو کپتان کے حصے میں 70
لاکھ ووٹ آئے۔ کالم نگار نے پینترا بدلتے ہوئے لکھا’ ’پیش گوئی ٹھیک تھی
لیکن بابا جی آخری دنوں میں ٹکٹوں کے معاملے پر کپتان سے ناراض ہوگئے تھے۔“
”شاہ صاحب“ بھی کالم نگاروں میں خاصے فیورٹ ہیں۔ کئی کالم نگار حضرات ان کی
پیش گوئیوں کا ذکر کرتے ملتے ہیں۔ آج کل ایک نجی ٹی وی پر بابا جی کا
پروگرام بھی آتا ہے، جس میں وہ دنیا کے تقریباً ہر مسئلے پر رائے دیتے ہیں۔
اوریامقبول جان اور جاوید چودھری جیسے صاحبانِ دانش بھی اکثر بابوں کا ذکر
کرتے ہیں، لیکن ان بابوں کا نام خفیہ رکھتے ہیں۔ اوریاصاحب نے بابوں کی پیش
گوئیوں پر مشتمل کئی معرکہ آرا کالم لکھے ہیں، جس میں یہ بات انہوںنے تواتر
سے کہی ہے کہ 2014ءانقلاب کا سال ہے۔ انقلاب بھی کوئی قادری مارکہ نہیں
بلکہ اسلامی انقلاب۔ چھ ماہ باقی رہ گئے ہیں، دیکھتے ہیں کیا ہوتا ہے!
یہاں تک کالم پڑھنے کے بعد اگر آپ اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ ہم بابوں یا ان
سے تعلقات رکھنے کے خلاف ہیں، تو آپ کی رائے سو فیصد غلط ہے۔ ہم اسلامی
تصوف کے نہ صرف حامی ہیں بلکہ اس سے کچھ نسبت بھی رکھتے ہیں، مگر آج کل
بابوں کے نام پر جو ہول سیل کی دکانیں کھلی ہوئی ہیں، ان کی کسی صورت حمایت
یا حوصلہ افزائی نہیں کی جاسکتی۔ گلی محلوں میں جعلی عامل اور ٹھگ بابوں کے
کرتوتوں سے تو سب واقف ہیں، مگر یہ ”پڑھے لکھے“ بابے قوم کو کس طرف لے
جارہے ہیں، اس پر بھی توجہ دینی چاہیے۔ کالم نگاروں کے جتنے بابے ہیں، آپ
نے کبھی ان کے بارے میں یہ نہیں پڑھا ہوگا کہ انہوںنے لوگوں کو شریعت کی
پابندی اور تقویٰ اختیار کرنے کی تلقین کی ہو، ان کا سارا کاروبار فلسفیانہ
باتوں اور بڑے بڑے دعوو ¿ں پر چل رہا ہے۔ پروفیسر صاحب نے اپنی کتاب میں
لکھا ہے کہ جب وہ درس سے اکتا جاتے ہیں تو غزلیں سن کر دل بہلاتے ہیں۔ شاہ
صاحب کہتے ہیں کہ مجھے لوگوں کو نماز کا کہتے شرم آتی ہے، اس لیے دوران
مجلس نماز کا وقت ہوجائے تو کسی کو نماز پڑھنے کا نہیں کہتا، خود بھی بیٹھا
رہتا ہوں، ہاں اگر موقع مل جائے تو چپکے سے نماز پڑھ کر آجاتا ہوں۔ گانے
باجے، ترک نماز، عورتوں کے جھمگٹے، داڑھی پر استرے، مغربی طرزمعاشرت ان کے
”تصوف“ پر ذرہ برابر اثر نہیں ڈالتی۔
ہمارے ہاں لوگ کسی کے کشف وکرامات کو دیکھ کر اسے ولی سمجھنے لگتے ہیں،
حالاںکہ دونوں چیزوں کا ولایت سے کوئی تعلق نہیں۔ کشف تو ایک ایسی چیز ہے
جس کے لیے ایمان کا ہونا بھی شرط نہیں ہے۔ ہندو جوگی آپ کو ایسی ایسی خفیہ
باتیں بتادیںگے جسے سن کر آدمی چکراجائے۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ ہم لوگ عامل
اور کامل کے درمیان فرق کوسمجھ نہیں پارہے، جس کی وجہ سے غلط لوگوں کے ہتھے
چڑھ جاتے ہیں۔ کالم نگاروں کے بابے عامل ہیں، ان لوگوں نے کچھ عملیات کے
ذریعے وہ روحانی طاقت حاصل کرلی ہے جس سے ”کشف“ بھی ہوجاتا ہے۔ پروفیسر
صاحب سورہ ¿ کوثر جبکہ شاہ صاحب بسم اﷲ الرحمن الرحیم کے عامل ہیں۔ عامل کے
برعکس کامل وہ ہوتا ہے جو متقی وپرہیزگار اور شریعت کا پابند ہو۔ مرشد کے
منصب کا اہل صرف ایسا ہی شخص ہوتا ہے، اسی کی راہنمائی میں معرفت کا سفر طے
کیا جاسکتا ہے۔
اس کالم کا مقصد ہرگز ہرگز کالم نگاروں کے بابوں اور ان کی طرح کے دیگر
پروفیسر ٹائپ بابوں کی توہین نہیں۔ صرف یہ گزارش کرنی ہے کہ جو لوگ ان
بابوں کے پاس جائیں، وہ یہ ذہن میں رکھیں کہ وہ عاملوں کے پاس جارہے ہیں۔
اصل روحانی راہنمائی انہیں یہاں سے نہیں ملے گی۔ دراصل یہ اہم نکتہ ذہن میں
نہ رکھنے کی وجہ سے بڑی گمراہی پھیلنے کا خدشہ ہے۔ یہ عامل بابے اسلام کی
ایسی تشریح کرتے ہیں، جن کا بعض اوقات دوردور تک اسلام سے تعلق نہیں ہوتا،
پھر ان کا رہن سہن بھی غیرمحسوس طریقے سے متعلقین کو اسلامی طرزمعاشرت سے
دور کرنے کا سبب بنتا ہے۔ ان عامل بابوں کے پاس جاکر لوگ خود کو اس لیے بھی
”آرام دہ“ محسوس کرتے ہیں کہ اس طرح انہیں شرعی پابندیوں اور گناہ وثواب کے
چکر میں پڑے بغیر روحانیت انجوائے کرنے کا بھرپور موقع مل جاتا ہے۔
صحافیوں کو نئی نئی باتیں سننے کی ”ٹھرک“ ہوتی ہے، وہ اپنے اس ذوق کی تسکین
کے لیے ضرور عامل سے ڈسکس کریں مگر انہیں اپنے پڑھنے والوں پر ترس کھانا
چاہیے۔ سادہ لوح قارئین کو کیوں عاملوں کے شکنجے میں پھنسا رہے ہیں؟ |