محبوبِ رب العالمینﷺکافرمان ہیں:’’روزہ رکھوصحت
مندہوجاؤگے۔‘‘(برکات شریعت،ص؍۱۹۲)مذکورہ فرمانِ رسالت مرض سے شفاء کی سند
ہے۔الحمدﷲ تعالیٰ!سائنسی تحقیق بھی بانی اسلام کے اس قول کی صداقت پر
سرتسلیم خم کرتی ہے۔؟مختصراً ملاحظہ فرمائیں۔ حکیم محمد طارق محمود چغتائی
اپنی تصنیف ’’سنت نبوی اور جدید سائنس ‘‘میں رقم طراز ہیں۔ ’’پروفیسر
مورپالڈ آکسفورڈ یونیورسٹی کی پہچان ہیں، انہوں نے اپنا واقعہ بیان کیا کہ
میں نے اسلامی علوم کا مطالعہ کیا اور روزے کے باب پر پہونچا توچونک پڑاکہ
اسلام نے اپنے ماننے والوں کے لئے کتنا عظیم فارمولہ دیا ہے۔ اگر اسلام
اپنے ماننے والوں کواور کچھ نہ دیتا صرف یہی روزے کا فارمولہ ہی دیتا تو
پھر بھی اس سے بڑھ کر ان کے پاس اور کوئی نعمت نہ ہوتی۔میں نے سوچاکہ اس
کوآزمانا چاہئے ۔ پھرمیں نے روزے مسلمانوں کے طرزپررکھناشروع کردئیے۔میں
عرصۂ درازسے معدے کے ورم ’’Stomach Inflamation‘‘میں مبتلا تھا۔ کچھ دنوں
کے بعد ہی میں نے محسوس کیا کہ اس میں کمی واقع ہوگئی ہے۔ میں نے روزوں کی
مشق جاری رکھی۔ پھر میں نے جسم میں کچھ اور تبدیلی بھی محسوس کی۔ اور کچھ
ہی عرصہ بعد میں نے اپنے جسم کو نارمل(NORMAL) پایا۔ حتیٰ کہ میں نے ایک
ماہ کے بعد اپنے اندر انقلابی تبدیلی محسوس کی ‘‘۔
پوپ ایلف گال ہالینڈ کا بڑا پادری گزرا ہے، اس نے روزے کے بارے میں اپنے
تجربات بیان کئے ہیں، ملاحظہ ہو۔ ’’میں اپنے روحانی پیروکاروں کو ہر ماہ
تین روزے رکھنے کی تلقین کرتا ہوں۔ میں نے اس طریقۂ کار کے ذریعہ جسمانی
اور وزنی ہم آہنگی محسوس کی۔ میرے مریض مجھ پر مسلسل زوردیتے ہیں کہ میں
انہیں کچھ اور طریقہ بتاؤں لیکن میں نے یہ اصول وضع کرلیا کہ ان میں وہ
مریض جو لا علاج ہیں ان کو تین یوم نہیں بلکہ ایک ماہ تک روزے رکھوائے
جائیں‘‘۔ قارئین کرام!غور کریں دیگر مذاہب کے لوگ روزے کے طبی فوائد سے
فائدہ اٹھارہے ہیں اور بعض لوگ روزہ ترک کرکے عذابِ جہنم کے مستحق بن رہے
ہیں۔اﷲ پاک ہم سب کو تا حیات احکامِ اسلام پر عمل کرنے کی توفیق عطا
فرمائے۔آمین |