قوم کو انقلاب مبارک ہو ، مبارک ہو ، مبارک ہو
(Prof Riffat Mazhar, Lahore)
پروفیسر رفعت مظہر ۔۔۔۔ قلم درازیاں
لال حویلی والے شیخ رشید احمد نے فرمایا کہ حکمرانوں سے نجات کا وقت قریب آ
ن لگا ۔ قوم انتظار کرے ، 15 دنوں کے اندر اِس حکومت کا’’دَھڑن تختہ‘‘ ہو
جائے گا۔شیخ صاحب نے ٹرین مارچ کے بغیر ہی یہ نویدِ دِل پذیر سنا کر ہمیں
اتنا خوش کر دیا کہ ہم نے بھی جوش میں آ کر اُنہیں ’’قومی نجات دہندہ‘‘
قرار دے دیا (اب اُنہیں اِسی نام سے لکھا اور پکارا جائے) ۔ہماری طرح الطاف
بھائی کو بھی شیخ صاحب کا یہ اعلان بہت بھایا اور اُنہوں نے بھی اپنی
’’کلاشنکوف ‘‘شیخ صاحب کو دینے کا اعلان کرتے ہوئے اُنہیں اپنا ’’معتمدِ
خاص‘‘ مقرر کر دیا۔افواجِ پاکستان کے ساتھ اتحادِ یکجہتی کے لیے منعقد کیے
جانے والے عظیم الشان جلسے میں ا فوجِ پاکستان کا ذکر محض تمہیدی اور مُنہ
کا سواد بدلنے تک محدود رہا ۔ اصل معاملہ تو شیخ صاحب کے ’’کلاشنکوفی عُہدے‘‘
کا اعلان تھا یا پھر نوید ِ انقلاب۔الطاف بھائی نے فرمایا کہ پہلے دہشت
گردوں کا صفایا ہو گا اور پھر اُن کا انقلاب جاگیرداروں اور کرپٹ
سیاستدانوں کا احتساب کرے گااور ہتھکڑیاں شیخ صاحب کے پاس ہونگی۔واہ جی واہ
! شیخ صاحب تو ایسے ’’حضرت‘‘ نکلے کہ مولانا طاہر القادی اور عمران خاں کو
بھی مات دے گئے۔ شیخ الاسلام نے ابھی تک ’’انقلاب‘‘ کی تاریخ نہیں دی، خاں
صاحب کا ’’ ملین مارچ‘‘ابھی دور ہے اور ’’چڑیا والے ‘‘صاحب کہتے ہیں کہ خاں
صاحب کا ملین مارچ ہو ہی نہیں سکتا کیونکہ جہاں خاں صاحب کا ملین مارچ ہو
نا ہے وہیں تو 14 اگست کو فوج پریڈ کر رہی ہوگی ۔دراصل چڑیا والے بھائی کو
خاں صاحب پر غصّہ ہی بہت ہے اِسی لیے وہ ایسی ’’بونگیاں‘‘ مار رہے ہیں ۔اُن
کے غُصّے کی ایک وجہ تویہ ہے کہ خاں صاحب اُن کی ’’چڑیا‘‘ کے پیچھے ہاتھ
دھو کرپڑ گئے ہیں اور دوسرے ہر وقت اُن کے محبوب چینل کا ’’مَکّو ٹھپنے‘‘
کے چکر میں رہتے ہیں۔ اِسی لیے چڑیا والے نے سونامیوں کو محض گُمراہ کرنے
کے لیے کہہ دیا کہ ملین مارچ نہیں ہو سکتا ۔ہم سمجھتے ہیں کہ اگر 14 اگست
کو فوج اور سونامیے مِل کر مارچ کریں تو یہ’’ سِول عسکری‘‘ دوستی کی ایسی
مثال ہو گی جِس پر ساری دنیا عش عش کر اُٹھے گی ۔ اِس لیے ملین مارچ تو
’’ہووے ای ہووے‘‘۔یہ الگ بات ہے کہ اب اِس کی ضرورت باقی نہیں بچی کیونکہ
شیخ صاحب نے اِس سے پہلے ہی حکمرانوں کو گھر بھیجنے کا ’’فیصلہ‘‘ کر لیا ہے
اور اب تومیاں برادران کا بستر بوریا ’’گول‘‘ ہونے میں صرف دَس دن ہی باقی
بچے ہیں ۔ضدّی میاں برادران جب بھی ضِد میں آ کر کوئی فیصلہ کرتے ہیں تو
ہمیشہ نقصان ہی اٹھاتے ہیں ۔لال حویلی والے نے بھی میاں برادران کے بہت
’’منتیں تَرلے‘‘ کیے اور دروغ بَر گردنِ راوی وہ تو میاں برادران کے پاؤں
پڑنے کو بھی تیار تھے لیکن ہَٹ دھرم میاں برادران نے تو اپنے پاؤں پر بھی
پہرے بٹھا دیئے اِس لیے ’’تنگ آمد ، بجنگ آمد‘‘ کے مصداق شیخ صاحب نے بھی
سوچا کہ
عجز و نیاز سے تو وہ آیا نہ راہ پر
دامن کو اُس کے آج حریفانہ کھینچئے
اب شیخ صاحب بڑے ’’ٹھُسے‘‘ سے نیوز چینلز پر بیٹھ کر ایسی ایسی ’’دُر
فتنیاں‘‘ چھوڑ رہے ہیں کہ نیوز چینلز والے تو اُنہیں ہاتھوں ہاتھ لے رہے
ہیں لیکن اپنے ’’تاریک مستقبل‘‘ سے بے نیاز میاں برادران تا حال ’’سَتّو پی
کر ‘‘ سو رہے ہیں۔وجہ شاید یہ ہو کہ وزیرِ اعظم اور آرمی چیف کے مابین جتنی
افہام و تفہیم آج ہے ، پاکستان کی تاریخ میں پہلے کبھی نہ تھی اور جس کے
ساتھ فوج ہو اُسے بھلا ’’کیس بات کا خوف اور کاہے کا ڈَر ‘‘۔پہلے چودھری
نثار احمد وزیرِ اعظم اور آرمی چیف کے درمیان رابطے کا کام کیا کرتے تھے
لیکن اِس معاملے میں بھی وزیرِ اعظم صاحب نے’’خود کفیل‘‘ ہونا مناسب سمجھا
اور چودھری صاحب کو مکھن سے بال کی طرح نکال باہر کیا ۔ جس پر پہلے تو
چودھری نثار بہت ’’چیں بچیں‘‘ ہوئے پھر ’’ مُنہ بسور کر ‘‘گھر بیٹھ رہے ۔
خادمِ اعلیٰ سے چودھری صاحب کا یہ دُکھ دیکھا نہ گیا ۔ وہ چودھری نثار کو
ساتھ لے کر ’’جاتی عمرا‘‘جا پہنچے اور ۔۔۔ اور جو میاں صاحب کے ’’دستر خوان‘‘
پر بیٹھ جائے وہ بھلا پھر جائے گا کہاں؟۔
آمدم بَر سرِ مطلب ، شیخ صاحب کی ’’تِلملاہٹ‘‘ کا اصل سبب یہ ہے کہ اُن کی
بے پناہ صلاحیتوں سے استفادہ کرنے والا کوئی باقی نہیں بچا اور وہ ’’یوسفِ
بے کارواں‘‘ کی طرح اِدھر اُدھر بھٹکتے پھر رہے ہیں ۔شیخ صاحب کی حالت کا
اندازہ خود ہی لگا لیجئے کہ وہ جو کبھی کپتان صاحب کو ’’تانگے کی سواریوں
والا لیڈر‘‘ کہہ کر چھیڑا کرتے تھے، اُسی کے ’’چَرنوں‘‘ میں بیٹھنا
پڑا۔اُدھر ’’ضدّی خاں‘‘ نے شیخ صاحب کو گلے سے لگا کر بہت سے ’’سونامیوں ‘‘
کو ناراض بھی کر لیا اور اب وہ شیخ صاحب کی صلاحیتوں سے مستفید ہونے کوبھی
تیارنہیں ۔اسی لیے’’ شیخ الپنڈی‘‘ نے خاں صاحب سے ’’اوازار‘‘ ہو کر شیخ
الاسلام کے ’’ حُجرے‘‘ میں پناہ لے لی ۔اُدھر شیخ الاسلام نے بھی ’’حکومتی
بَڑھکوں‘‘ سے پریشان ہو کر اپنے انقلاب کو فی الحال’’ مشاورت کی الماری
‘‘میں بند کرکے تالا لگا دیا۔ شنید ہے کہ ایک دفعہ پھر وہ اپنے ’’جوتے
جرابیں‘‘ پیک کرنے میں مصروف ہیں ۔شیخ الاسلام کی بَد دلی کو تاڑتے ہوئے ’’
شیخ الپنڈی‘‘ نے نائین زیرو کی راہ لی۔ اب شیخ رشید اور الطاف بھائی مِل کر
بڑھکیں لگایا کریں گے ۔جاگیردارو ! ہوشیار باش ، اب تمہارا پالا دو ، دو
بڑھک بازوں سے پڑنے والا ہے ۔
اگر شیخ الاسلام اور شیخ الپنڈی گجرات کے چودھریوں کے ساتھ مل کر اکٹھے
’’عازمِ انقلاب ‘‘ ہوتے تو دو گھنٹوں میں انقلاب کا آنا اظہر من الشمس ہو
جاتا لیکن چودھری شجاعت حسین تو ابتداء ہی میں اتنے ’’اوازار‘‘ ہو گئے کہ
مولانا فضل الرحمٰن کو دِل کی بات کہہ بیٹھے ۔ اُدھر مولانا فضل الرحمٰن نے
بیچ چوراہے بھانڈا پھوڑ دیا اور اب چودھری شجاعت صاحب ہر کسی کو روک روک کر
یہ کہہ رہے ہیں کہ
کیا غم خوار نے رُسوا ، لگے آگ اِس محبّت کو
نہ لاوے تاب جو غم کی ، وہ میرا راز داں کیوں ہو
دروغ بَر گردنِ مولانا فضل الرحمٰن ، مولانانے قہقہے لگاتے ہوئے فرمایا کہ
چودھری شجاعت حسین پارلیمنٹ کی مسجد کے ’’حُجرے‘‘ میں تشریف لائے تومولانا
نے چودھری صاحب سے پوچھا کہ اُنہیں مولانا طاہر القادری کی قیادت قبول کرنے
کی کیا سوجھی؟۔چودھری صاحب کہنے لگے ’’ نواز لیگ نے مرکز اور پنجاب سنبھال
لیا ، سندھ پیپلز پارٹی لے اُڑی، خیبرپختونخوا تحریکِ انصاف کے حصّے میں آ
گیا اور بلوچستان ڈاکٹر عبدالمالک کے حصّے میں۔ ہمارے لیے باقی بچا ہی کیا
تھا سوائے طاہر القادری کے‘‘۔چودھری صاحب کہتے ہیں کہ ’’جو باتیں مولانا
صاحب نے کہیں ، اِن کا تو اِس ملاقات میں ذکر تک نہیں ہوا ۔ اس کی گواہی
سابق وزیرِ اعلیٰ اکرم خاں درانی بھی دے سکتے ہیں ‘‘۔شنید ہے کہ ’’اندر
کھاتے‘‘چوہدری صاحب نے مولانا سے شکوہ بھی کیا لیکن مولانا نے پھر قہقہے
لگاتے ہوئے کہا ’’چودھری صاحب ! روزہ رکھ کے جھوٹ تو نہیں بولا جاتا
ناں‘‘۔ہم سمجھتے ہیں کہ مولانا فضل الرحمٰن جیسے جیّد عالمِ دین کی زبان سے
جھوٹ نکل ہی نہیں سکتا البتہ یہ ہو سکتا ہے کہ چودھری صاحب نے اِس ملاقات
میں نہ سہی ، کسی اور ملاقات میں یہ باتیں کہی ہوں ۔ویسے چودھری صاحب اگر
اکرم خاں درانی کی گواہی دلانا چاہیں تو اپنا شوق پورا کر لیں ، ہمیں یقین
ہے کہ درانی صاحب بھی مولانا کے حق میں ہی گواہی دیں گے ۔منجھے ہوئے سیاست
دان چودھری شجاعت حسین اگر اپنی زبان پر تھوڑا سا کنٹرول کر لیتے تو کم از
کم یہ نوبت تو نہ آتی کہ اب مولانا طاہر القادری ’’عصائے مُوسوی‘‘ ہاتھ میں
لیے اُنہیں ڈھونڈتے پھر رہے ہیں۔ اُدھر چودھری پرویز الٰہی گجراتی بھی آجکل
’’ فُل ایکشن‘‘ میں ہیں ۔اُنہوں نے تو یہاں تک کہہ دیا ہے ’’ نواز حکومت کو
گرانے کے لیے ہر دروازہ کھٹکٹائیں گے‘‘۔آخری خبریں آنے تک تو چودھری
برادران صرف ایک ہی دَر کے ’’سوالی‘‘ تھے لیکن اب چونکہ وہ دَر بند ہو چکا
اور گھر والاخود بے گھر و بے دَر ،اِس لیے چودھری برادران اب ’’ کاسۂ
گدائی‘‘ لیے دَر دَر بھٹکتے پھر رہے ہیں ۔ دیکھتے ہیں کہ اُن کا کاسۂ گدائی
اقتدار کی بھیک سے لبا لَب ہوتا ہے یا نہیں۔ |
|