سرور انڈوں والا

مجھے امارت سے چڑ نہیں لیکن مجھے سونے کا چمچہ منہ میں لے کے پیدا ہونے والے زہر لگتے ہیں۔تجربہ شاہد ہے کہ اکثر غبی بدکردار نالائق اور منحنی ہوتے ہیں۔عزیزی کے بقول شوخے۔کام کے نہ کاج کے دشمن اناج کے۔اکثریت بابا دادا کی برسوں کی کمائی عزت پل بھر میں اڑا کے فارغ۔تازہ ترین مثال ارسلان افتخار ہے۔اس کے نحس قدم جہاں پڑتے ہیں شرمندگی کا باعث بنتے ہیں۔مسکین سا وزیر اعلیٰ بلوچستان اب ساری دنیا کو بتاتا پھر رہا ہے کہ اس منحوس کو سرمایہ کاری بورڈ کاوائس چئیرمین بنا کے مجھ سے غلطی ہو گئی۔افتخار چوہدری غریب خود بھی کبھی سوچتا ہوگا کہ بس غلطی ہی ہوگئی۔اسی پہ کیا موقوف ایک لمبی لائن ہے۔گجرات کے چوہدری ،سب الزام ان پہ لگ سکتے ہیں لیکن کرپشن۔۔۔۔مونس نے لیکن نام ڈبویا۔ولی خان ۔۔۔۔۔۔۔ملک دشمنی بھارت دوستی اور غداری تک کا الزام لوگ لگاتے ہیں لیکن کرپشن۔۔۔۔اسفندیار کی کے پی حکومت کو لوگ ایزی لوڈ حکومت کا نام دیتے تھے۔مفتی محمود ،فرقہ وارانہ سیاست کے سرخیل ،پاکستان کے بننے ہی کے مخالف لیکن کرپشن۔۔۔۔۔اب ان کے سپوتوں کے پڑوس سے بھی ڈیزل کی بو آتی ہے۔بھٹو،اپنی مثال آپ ،بے بدل اور بے مثال،تیسری دنیا کی قیادت کا دعوے دار،اپنے ساتھیوں تک کو ٹارچر کرنے والا ڈکٹیٹر لیکن کرپشن۔۔۔۔۔لوگ آج بھی ہیروں کے ہار اور سرے محل کی کہانیاں سناتے ہیں۔میاں شریف کہ مزدور تھے ۔اولاد کے لئے اقتدار کی خواہش بھی لیکن کرپشن۔۔۔۔۔۔۔آج مرغی کے انڈے تک دھائی دیتے ہیں۔اس ملک میں پیسے کے لئے پرکھوں کی عزت داؤ پہ لگانے والے بے حساب ہیں۔ایسے میں کوئی انڈے بیچنے والا گورنر بن جائے اور بھلے بنانے والا صدر تو حیرت بجا ہے۔

پنجاب کے گورنرچوہدری سرور جو برطانیہ میں بھرپور سیاسی دور گذارنے کے بعدپنجاب کے گورنر بنائے گئے، ٹی وی پہ انٹرویو دے رہے تھے اور بڑے ذوق وشوق سے اینکر کو اپنی جوانی میں کی جانے والی محنت کے قصے سنا رہے تھے۔انہوں نے بتایا برطانیہ میں ایم پی بننے سے پہلے میں نے شروع کے دنوں میں انڈے بھی بیچے اور لوگ ایم پی بن جانے کے بعد بھی کبھی کبھار مجھے" سرور انڈوں والا" کہہ کے یاد کیا کرتے تھے۔میں نے دعا کی کہ اﷲ کرے ان کی اولاد وہیں برطانیہ میں سیاست کرے ۔کبھی یہاں نہ آئے کہ یہاں جو آتا ہے نمک کی کان میں نمک ہو جاتا ہے۔ہمارے ہاں ایسا طلسم بھی اس فلکِ ناہنجار نے دیکھا کہ ایک وزیر کے اکاؤنٹ میں کوئی چار کروڑ ڈال گیا اور اس غریب کو پتہ بھی نہیں چلا۔پاکستان کی دوسری نسل کے حکمرانوں نے دونوں ہاتھوں سے ملک کو لوٹا۔پیپلز پارٹی کی سابقہ حکومت میں بابائے کرپشن کی سرپرستی میں وزرائے اعظم سے لے کلرک تک ہر شخص نے بہتی گنگامیں ہاتھ ہی نہیں دھوئے بلکہ اس میں اشنان کیا۔حج اور عمرہ کرنے والوں تک کو نہیں بخشا گیا۔جس کے جو ہاتھ لگا لے اڑا۔مقام ِ حیرت یہ بھی ہے کہ اس کے باوجود اعتزاز احسن اور قمر زمان کائرہ جیسے لوگ ابھی بھی بلاول بھٹو اور اس کے باپ کی وفاداری کا دم بھرتے ہیں۔اعتزاز تو خیر سے وکیل ہیں اور سنا ہے فیس بھی تگڑی لیتے رہے ہیں لیکن کائرہ۔۔۔۔۔خیر ہوگا کچھ ہمیں کیا۔

بات چوہدری سرور کی ہو رہی تھی اور درمیان میں کیسا یہ ذکر آگیا۔یہی گورنر جن کا میں نے ذکر کیا۔ان کے ایک فیصلے کے مطابق ملک کے مشہورِ زمانہ ایچی سن کالج سے اشرافیہ کا کوٹہ ختم کر دیا گیا ہے۔ پہلے یہ کوٹہ کم اور عطیات کا معاملہ زیادہ تھا جو جتنی بڑی رقم لگاتا تھا اتنی جلدی ہی اس کے بیٹے پوتے نواسے کو داخلہ مل جایا کرتا تھا۔اس دھندے میں وہ بچے جو میرٹ پہ داخلے کے مستحق ہوتے تھے مار کھا جاتے تھے۔سرور صاحب نے ایک بہتر معاشرے میں کام کیا ہے۔وہ جانتے ہیں کہ دولت کے بل بوتے پہ میرٹ کا ناس مار کے کسی مقام پہ پہنچنے والااس منصب کا ستیاناس کر کے رکھ دیتا ہے۔اس صورتِ حال کو گورنر نے نوٹس کیا اور بورڈآف ڈائریکٹرز کے ذریعے کالج انتظامیہ کو کوٹہ سسٹم ختم کر کے خالصتاََ میرٹ کی بنیاد پہ داخلوں کا حکم جاری کیا۔میں حیران ہوں کہ گورنر نے یہ ہمت کیسے کی۔اس لئے کہ گورنر بھی جانتے ہیں کہ ایک دوسرے کی شکل نہ دیکھنے والی اشرافیہ کی دم پہ جب پاؤں پڑے تو یہ مڑ کے کوبرا سانپ کی طرح سب دم پہ کھڑے ہو جاتے ہیں۔ اس حکم کی زد میں آنے والوں میں شریف فیملی ،گجرات کے چوہدری،گورنر تاثیر اور طارق رحیم کی اولادیں اور اسی قبیل کے دوسرے بہت سے بھی تھے۔پاکستان کے طرزِ سیاست کو دیکھتے ہوئے میرا خیال تھا کہ اس فیصلے کے بعد شاید گورنر سرور کی گورنری ہی خطرے میں پڑ جائے کہ مزاجاََ ہمارے سیاستدان نہ سننے کا حوصلہ ہی نہیں رکھتے۔انڈوں والا سرور ابھی ایسا نہ سہی لیکن کبھی تو ہم جیسا تھا۔میں گورنر کے اس فیصلے کی تحسین کرتے ہوئے قوم سے بھی یہ اپیل کرنا چاہتا تھاکہ وہ کسی انہونی کی صورت میں گورنر کو پوری طرح سپورٹ کریں۔

یہ بڑی زیادتی ہو گی اگر میں اس اخباری خبر کا حوالہ نہ دوں جس میں کہا گیا ہے کہ پنجاب کے وزیر اعلیٰ شہباز شریف نے گورنر پنجاب کو ذاتی طور پہ فون کر کے اس فیصلے کی تحسین کی ہے اور انہیں اپنی پوری حمایت کا یقین دلایا ہے۔ایسا پہلے کبھی ہوا تو نہیں لیکن اگر یہ خبر واقعی سچ ہے تو شہباز شریف اس فیصلے پہ مبارک باد کے مستحق ہیں۔ان کا یہ فیصلہ نہ صرف عوام کے لئے بلکہ ان کے بچوں کے لئے بھی مفید ثابت ہو گا۔وہ جب یہ جان جائیں گے کہ میرٹ کے بغیر اب کسی پوسٹ کا حصول ممکن نہیں تو وہ محنت کر کے اسے حاصل کرنے کی کوشش کریں گے۔یوں آپ کو اچھی اولاد اور ہمیں اچھے حکمران میسر آئیں گے۔انڈے بیچنے والے میرٹ پہ گوروں کے دیس میں تو ایم پی تو بن جاتے ہیں ہمارے ہاں ان کی لیاقت نہیں دیکھی جاتی۔ان کی خدمت دیکھی جاتی ہے۔گورنر بھی پنجاب میں میرٹ پہ تھوڑی گورنر بنے ہیں لیکن گورنر سرور کے اس حکم سے ایک بات تو ثابت ہو گئی کہ نیچے سے اوپر گئے ہوئے شخص کی آنکھ میں کہیں کوئی انصاف مروت تواضح لحاظ اور میرٹ کی حیا ہوتی ہے۔اﷲ کریم گورنر صاحب کو اس طرح کے مزید اقدامات کرنے کی توفیق دے۔مجھے یقین ہے کہ اگر اس طرح کی کچھ خبریں مزید آئیں تو لوگ پاکستان کی بہتری کی امید باندھنا شروع کر دیں گے۔

امید زندگی ہے۔امید ختم ہو جائے تو لوگ مرنے مارنے کے لئے تیار ہو جاتے ہیں۔ایسے ہی مواقع پہ قوموں کی تخریب کے چھابے لگتے ہیں۔سارے دشمن اکٹھے ہو کے سر بلند ہونے کی کوشش کرنے والوں کے سر کچلنے کی کوشش کرتے ہیں۔قوموں کا اتحاد و اتفاق اور ان کی یکسوئی کو تباہ کرنے کی کوششیں کی جاتی ہیں۔ سمجھدار قائدین اپنی قوم کو ان بحرانوں سے نکال لے جاتے ہیں جبکہ بے وقوف خود بھی ڈوبتے ہیں اور اپنے جانثاروں کو بھی بھنور کے حوالے کر دیتے ہیں۔
Malik Abdul Rahman jami
About the Author: Malik Abdul Rahman jami Read More Articles by Malik Abdul Rahman jami: 283 Articles with 290996 views I am from Abbottabad presently living at Wah.I retired as Lt Col from Pak Army. I have done masters in International Relation and Political Science. F.. View More