کام پھر ان کا ہی ہنر آیا

جس قلم کار نے جس سیاستدان نے مشہور ہونا ہو،واہ واہ کروانی ہو،آزادی اظہار کا سرخیل بننا ہو،اپنی اوقات بڑھانی ہو،فوج کی گود میں بیٹھ کے فوج کی داڑھی نوچتا ہے اور ایک سرے سے دوسرے سرے تک اس کی واہ واہ ہو جاتی ہے۔اس ملک کا وزیراعظم ریکارڈ پہ ہے کہ قربانیاں اپنی جگہ ،جانیں لٹانا بھی ٹھیک لیکن آخر یہ لوگ اس کام کی تنخواہ لیتے ہیں۔یہ ہمارا ہی ملک ہے کہ لوگ اسی کا کھاتے ہیں اور اسی کی فوج اور ایجینسیوں کو گالی دیتے ہیں۔لوگ آئی ایس آئی کو طعنہ دیتے ہیں کہ یہ سیاستدانوں اور صحافیوں کو خریدتی ہے۔اس پہ میرے دو سوال ہیں ایک یہ کہ آئی ایس آئی کو یہ کام سونپا کس نے تھا۔دوسرا یہ کہ بکاؤ مال کو غیر ملکی خریدیں تو جائز لیکن کوئی اپنا خرید لے تو یہ قابلِ مذمت۔کیا ہم نہیں جانتے کہ اس ملک کے سیاستدان ہمارے ازلی دشمن سے رقم وصول کرتے رہے ہیں۔بھارت کے ٹینکوں پہ بیٹھ کے آنے کا اعلان بھی یہ سیاستدان ہی تو کرتے رہے ہیں۔پہلے دشمن ملک کی ایجینسیاں صحافیوں کی قیمت لگایا کرتی تھیں اب پورے کے پورے چینل لانچ کر دئیے جاتے ہیں جو اپنے مالکوں کا چراغ جلاتے ہیں اور انہی کے مطلب کی کہتے ہیں۔تفصیل کیا بیان کروں پتہ پتہ بوٹا بوٹا حال ہمارا جانے ہے۔

ملک اس وقت اپنے انتہائی نازک دور سے گذر رہا ہے۔فوج بالآخر دہشت گردوں کے خلاف آپریشن میں مصروف ہے۔یہ لوگ اپنی جانیں قربان کر رہے ہیں۔رمضان کے اس مقدس مہینے میں شہادتوں کے چراغ مسلسل جلائے جا رہے ہیں۔افسروں اور جوانوں کی کوئی تمیز نہیں۔اس صورت حال نے ایک انسانی المئیے کو جنم دیا ہے۔آٹھ لاکھ سے زیادہ لوگ شورش زدہ علاقوں سے ہجرت کر کے کے پی کے مختلد علاقوں میں آ چکے۔ان میں مردوں کے علاوہ عورتیں اور بچے بھی شامل ہیں۔فوج جہاں دشمن کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کے مادرِ وطن کی مانگ بھر رہی ہے وہیں ان مہاجرین کی بحالی اور ان کی تکالیف کم کرنے کی بھرپور کوشش بھی کر رہی ہے۔فوج کے جوانوں اور افسروں نے سب سے پہلے اپنی ایک دن کی تنخواہ ان ہم وطنوں کے لئے مختص کی۔اپنا ایک ماہ کا راشن بھی ان لوگوں کی نذر کیا۔نہ کسی صلے کی تمنا اور نہ ہی ستائش کی پروا۔یہ تنخواہ نہیں جناب والا وطن کی محبت ہے ،ہم وطنوں سے پیار ہے۔دیکھا تو یہ بھی گیا ہے کہ ایک آدمی ان بے گھر لوگوں کی حالتِ زار کا مشاہدہ کرنے جاتا ہے تو اس کے ساتھ کیمرہ مینوں کی فوج ظفر موج ہوتی ہے۔

فوج اس جنگ میں جانے سے پہلے بجا طور پہ یہ توقع کر رہی تھی کہ قوم سیسہ پلائی دیوار کی طرح یکسو ہو کے ان کی پشت پہ کھڑی ہو گی۔قوم نے اپنا حق ادا کیا۔اسی اثناء میں ملک کی دو بڑی پارٹیوں میں انتخابی اصلاحات کے معاملے پہ جنگ چھڑ گئی۔دھیمے سروں میں شروع ہونے والی یہ جنگ اب اس نہج پہ آگئی ہے کہ دونوں پارٹیوں نے الیکشن کمیشن سے پارٹی سربراہوں کی نا اہلی کے لئے ریکارڈ بھی طلب کر لیا ہے۔ حکمران جماعت جس کے وزیر اطلاعات پہلے ہی جلتی پہ تیل ڈالنے کے ماہر ہیں،اسے معاملے کو ٹھنڈا کرنے کی کوشش کرنی چاہئیے تھی۔بجائے اس کے اس نے بدزمانہ ارسلان افتخار کی مدد سے ایک پرانے مردے کو قبر سے نکالا اور قوم کے سامنے پیش کر دیا۔عمران خان کی ناجائز اولاد۔۔۔۔اس بنیاد پہ ارسلان اب عمران کو نا اہل کروانا چاہتا ہے۔اس کا خیال ہے کہ عمران اب صادق اور امین نہیں رہے۔کوئی اس بد بخت آدمی سے یہ سوال کیوں نہیں کرتا کہ کل جب عوام الیکشن سے پہلے باسٹھ تریسٹھ کی دہائی دے رہے تھے تو آپ کے ابا جی کے حکم سے ریٹرنگ آفیسر ان شقوں کا مذاق کیوں اڑا رہے تھے؟ اب اگر کوئی بد معاش غنڈہ چور قرض خور سود کا کاروبار کرنے والا،ناجائز اولا کا باپ اس اسمبلی کا ممبر ہے تو اس کی اجازت کس نے دی تھی۔طاہر القادری سے باسٹھ تریسٹھ شق لاگوکرنے کی درخواست پہ بھونڈے اور لا یعنی سوال کس نے پوچھے تھے؟ارسلان ایسا سبز قدم ہے کہ پہلے اس نے اپنے باپ کی ناموس کو ڈسا۔ عدلیہ کی عزت خاک میں ملائی۔شعیب سڈل کا نام اس کے ساتھ آیا تو وہ نیک نام آدمی بھی موردِ الزام ٹھہرا۔وزیر اعلی مالک اور بلوچستان کے گورنر کو معافی مانگنا پڑی اب یہ نواز شریف کے گٹے گوڈوں میں بیٹھے گا۔بیٹھے گا کیا بیٹھ چکا۔اب تحریک انصاف کے جیالے جو ویسے ہی سوشل میڈیا پہ بہت ہتھ چھٹ ہیں۔عمران جن کے لئے دیوتا ہے۔انہوں نے گھر کی عورتوں تک کو نہیں بخشا۔مریم نواز کے قصے،عائشہ احد کی کہانیاں،شہباز شریف کی لا تعداد بیویاں حتی کہ اب نواز شریف کی ناجائز اولاد ۔۔۔یہ کیا طرزِ سیاست ہے۔آپریشن ضربِ عضب میں یہ ہمارے سیاستدانوں کی کنٹری بیوشن ہے۔

دہشت گردوں سے فوج لڑے۔ہجرت کرنے والوں کو فوج سنبھالے ،شہروں میں امن و امان فوج کی ذمہ داری ہو،زلزلہ آئے تو بھی فوج ہی کی طرف تمام نظریں اٹھیں۔سیلاب کے پانیوں کو بھی فوج کے سینوں سے ٹکرا کے عوام تک پہنچنا پڑے۔بھل صفائی فوجی کریں اور واپڈا کے میٹر بھی،گھوسٹ سکول بھی یہی فوج تلاش کرے تو بھائی جب آپ یہ سب فوج سے کروائیں گے تو پھر آپ کس بات کا بھتہ لیتے ہیں۔آپ لوگ صرف ناجائز دھندے کرتے ہیں اور ناجائز شادیاں اور اولادیں پیدا کرتے ہیں اور پھر توقع کرتے ہیں کہ لوگ آپ کی عزت کریں گے۔لوگ آپ کو دیوتا بنا کے رکھیں گے۔یہ بے وقوف لوگ رکھیں گے لیکن کب تک۔انہوں نے دو دھائیاں بھٹو ز کو سر پہ بٹھا کے رکھا لیکن آج کل وہ کہاں ہیں اس سے ہی کچھ سبق سیکھ لو۔

ملک دشمنوں سے جنگ فوج کا کام ہے۔شہادتیں بھی انہی کا اعزاز،یہ بھی درست کہ انہیں حکومت کا کوئی حق نہیں لیکن آپ ملک کو تباہی کے دھانے پہ لے جائیں گے تو پھر عوام خود فوج کو آواز دیں گے۔یہ یاد رکھیں کہ فوج آتی ہمیشہ مجبوری کے تحت ہے لیکن جاتی پھر مجبور ہو کے ہے۔
Malik Abdul Rahman jami
About the Author: Malik Abdul Rahman jami Read More Articles by Malik Abdul Rahman jami: 283 Articles with 291004 views I am from Abbottabad presently living at Wah.I retired as Lt Col from Pak Army. I have done masters in International Relation and Political Science. F.. View More