عام فطرہ

سوال پوچھا گیا ہے کہ عام فطرہ پونے دو سیر یا ایک کلو ۶۳۳ گرام موجودہ وزن سے جسکی قیمت ۳۵؍روپئے ہے فطرہ ادا کریں اور محلوں میں رہنے والے لگژری گاڑیاں رکھنے والے امیر لوگ چھوارے اور کشمش کی قیمت میں ادا کریں جو ۳۲۶؍روپئے اور ۴۸۹ روپئے ہوتی ہے۔ کیا ایسا حکم مطابق تقویٰ و شریعت ہے یا افتراق امت کا سبب ہے۔

حافظ جلال علی ،مسجد قطب شاہ پھول والی گلی چوک لکھنؤ
ھوالموفق

اوپر بیان کیا گیا حکم فقہاء شریعت کے خلاف ہے۔ اور تفریق امت کا سبب ہے۔ جبکہ شریعت کے احکام بلا تفریق ہر خاص و عام کے لئے یکساں ہیں۔ اور خلوص و للٰہیت کے لئے ہوتے ہیں۔

ماہ رمضان المبارک میں اﷲ تعالیٰ جل شانہ کے بندوں نے عبادت و ریاضت کرکے اﷲ تعالیٰ کی رحمتوں، برکتوں فضل و انعام کے حصول کے لئے جو اعمال مقبولہ کرنے کی کوشش کی ہے انکی قبولیت کے شکرانہ میں عید کی خوشی ہے۔ اگر کوئی کمی رہ گئی ہے تو وہ فطرہ کی ادائیگی سے پوری ہونے کی توقع ہوتی ہے۔ اور فطرہ کے ذریعہ بھوکے شخص کا پیٹ بھر کر اسکو بھی خوشی میں شریک کرکے اﷲ تعالیٰ کی رضا مندی کے ساتھ معاشرہ کی بھلائی بھی مقصود ہوتی ہے۔ اور اجتماعی خوشی ملتی ہے۔

پیٹ بھرنے کے لئے اﷲ تعالیٰ نے ہر خطے میں بیشمار پھل ،سبزیاں، میوے اور اناج کی پیداوار سے نوازا ہے۔ لیکن شریعت کا حکم ہر ایک کو یکساں قبول ہو اور آسانی والا ہو اسلئے شریعت نے فطرہ میں ۔ گیہو، جو، آٹاو ستو اور کشمش و خرما کو پیمانہ بنایا ہے۔ جو ہر امیر و غریب کو علاقائی پیداوار کے مطابق بہ آسانہ غذا کے کام آ سکے۔ جیسا کہ ’’فتاویٰ عالمگیری میں فتاویٰ قاضی کے حوالے سے لکھا ہے کہ چار چیزوں میں صدقۂ فطر دینا واجب ہے۔ گیہوں، جو، خرما اور کشمش۔ لہٰذا گیہوں یا اسکا آٹا یا کشمش میں صدقۂ فطر آدھا صاع یا پونے دو سیر جسکا موجودہ وزن ایک کلو ۶۳۳ گرام ہوتا ہے یا مقامی اعتبار سے اسکی موجودہ قیمت ایک شخص کی طرف سے فطرہ میں دی جائے اور جو یا اسکا آتا یا ستو یا خرما ایک صاع یعنی ساڑھے تین سیر موجودہ وزن میں ۳ کلو ۲۶۶ گرام یا پھر مقامی طور پر موجودہ قیمت اوسط درجہ کی ایک شخص کی طرف سے دی جائے ۔ اس میں امیر و غریب کی کوئی تفریق نہیں ہے نہ جبر و اکراہ ہے صرف خلوص و للٰہیت ہے۔

فقہائے کرام مسلمات کو بیان کرتے ہیں جہاں کے موافق جو کام آسانی سے اختیار کیا جا سکتا ہو اس پر عمل کیا جائے۔ چونکہ ہندوستان کی عام غزا اور پیداوار کشمش یا خرما نہیں ہے (یہ عرب ممالک کے لئے ہے) بلکہ جو، گیہوں ہی ہر امیر و غریب ہندوستانی استعمال کرتا ہے ۔ (چاول و چنا وغیرہ بھی نہیں ہے) لہٰذا ہندوستان میں فطرہ گیہوں یا جو یا اسکے آٹے اور ستو کی شکل میں یا پھر اس کی مروجہ قیمت کے اعتبار سے ہی آج تک دیا جاتا رہا ہے۔ کسی بھی مفتی نے خرما اور کشمش دینے کے لئے زبردستی حکم جاری نہیں کیا ہے آج تک۔

لیکن اب محلوں میں رہنے والوں اور لگژری گاڑیوں سے چلنے والوں کو خرما اور کشمش یا اسکی قیمت ۳۳۶ روپئے یا ۸۴۹ روپئے فطرہ میں دینے کا حکم جاری کرنا اور اگر وہ نا دیں تو طعنہ زنی کرنا ، شرمسار کرنا، غریبوں میں کمتری اور امیروں میں برتری، گھمنڈ وغرور کا احساس کرانا امیری کا جرمانہ و تاوان جبر و اکراہ سے وصول کرنا۔ یہ منشاء شارع کے خلاف اور روح تقویٰ و پرہیزگاری کے منافی ہے۔ خلوص و للٰہیت کے بجائے با ہمی تفرقہ اور نفرت و عدات کا پیش خیمہ ہے۔ لا اکراہ فی الدین۔ دین میں جبر و اکراہ نہیں ہے۔ لا یکلف اﷲ نفسا الاوسعھا (اﷲ تعالیٰ بندے کو اس کی وسعت سے زیادہ تکلیف نہیں دیتا ہے) فقہاء نے کوئی بھی حکم آج تک ایسا جاری نہیں کیا ہے بلکہ نبی رحمت ؐ کی شفقتوں کے مد نظر آسانی و مہربانی کا راستہ دکھایا ہے۔

صاحب ثروت کے لئے اختیار کلی ہے کہ وہ چاہیں تو اپنی محنت کی کمائی کے ہیرے جواہرات اور لگژری گاڑیاں بھی فطرہ کے علاوہ انٹرنیشنل فقیروں کو بخوشی وبکراہت دے سکتے ہیں۔

زکوٰۃ و خیرات صدقات و عطیات و فطرہ میں خلوص و للٰہیت ہونا ضروری ہے ریاکاری و دکھاوا نہ ہو اور غرباء کا حق دیا جا سکے امراء کے ثواب میں اضافہ ہو۔ آپس میں جذبۂ خلوص و ہمدردی اخوت و بھائی چارہ میں اضافہ ہو معاشرہ کی بھلائی و بہتری ہو اسی میں رب تعالیٰ و تقدس کی رضا و خوشنودی اور اسلام کی سربلندی ہے۔ واعتصموابحبل اﷲ جمیعا ولا تفرقوا۔۔

واﷲ اعلم و حکمہ احکم حررہ ابوالعرفان محمد نعیم الحلیم النصاری قادری رزاقی غفرلہ اﷲ الحمید الولی فرنگی محلی۔
۱۰؍رمضان المبارک ۱۴۳۵؁ھ
۹؍۸؍۲۰۱۴؁ء
Qazi e Shaher Mufti Abul Irfan
About the Author: Qazi e Shaher Mufti Abul Irfan Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.