وزیرستان آپریشن: متاثرین کی مشکلات میں مسلسل اضافہ

فوج کی طرف سے شمالی وزیرستان میں آپریشن شروع کیے ایک ماہ مکمل ہونے والا ہے اور نقل مکانی کا سلسلہ ابھی بھی جاری ہے۔ اب تک کی اطلاعات کے مطابق وزیرستان سے نقل مکانی کرنے والوں کی تعداد نو لاکھ سے تجاوز کر چکی ہے۔ نو لاکھ افراد کی رجسٹریشن مکمل ہو چکی ہے۔ ہفتے کے روز تک ایف ڈی ایم اے نے 73 ہزار 871 خاندانوں کی رجسٹریشن مکمل کی تھی، جس میں سے 29 ہزار 857 خاندانوں میں 35 کروڑ 82 لاکھ روپے تقسیم کیے گئے۔ نقل مکانی کرنے والوں میں 2 لاکھ 32 ہزار 438 خواتین، جبکہ 3 لاکھ 85 ہزار 214 بچے شامل ہیں۔ ڈیرہ اسماعیل خان میں 80 ہزار سے زاید متاثرین کی امداد کے لیے 3 مراکز قائم ہیں۔ پشاور میں 7 جولائی سے قائم رجسٹریشن کیمپ گورنمنٹ کامرس کالج میں ہفتے کے روز تک پانچ ہزار سے زاید خاندانوں کی رجسٹریشن کی گئی، جن کی مجموعی تعداد 29 ہزار پانچ سو 16 بنتی ہے۔ رجسٹریشن کا یہ عمل 14جولائی تک جاری رہے گا۔ ذرائع کے مطابق وزیرستان سے نقل مکانی کرنے والوں کی تعداد تو مسلسل بڑھ رہی ہے، لیکن حکومت کی جانب سے متاثرین کو دی جانے والی امداد ناکافی ہے۔ اکثر متاثرین کا کہنا ہے کہ وہ اپنا سب کچھ وزیرستان میں چھوڑ کر آئے ہیں، لیکن یہاں انہیں بروقت امداد نہیں دی جارہی۔ قبائلی علاقوں کی یونین کے صدر نور بہرام کے مطابق انفرادی سطح پر چند با حیثیت افراد نے متاثرین کی مدد کی، مگر حکومت کی جانب سے کوئی ریلیف نہیں ملا۔ ان کے مطابق وہ اپنے خاندان کے ہمراہ گھنٹوں پیدل چلنے کے بعد صدقی چیک پوسٹ پر اس امید کے ساتھ پہنچے کہ بچوں کو کچھ کھانے پینے کو ملے گا، مگر انھیں حکومتی انتظامات دیکھ کر مایوسی ہوئی۔ صرف ہم ہی نہیں ہزاروں کی تعداد میں لوگ پچیس گھنٹے کا پیدل سفر طے کر کے جب پہنچے تو حکام نے پانی کی ایک بوتل اور جوس کے پانچ ڈبے دیے، جبکہ گرمی سے تنگ بچے بھوک سے بھی نڈھال تھے۔ لوگ راشن کے لیے دن رات قطار میں کھڑے رہتے ہیں۔ بعض مقامات پر تو بے گھر افراد پر لاٹھی چارج کیا گیا۔ نقل مکانی کرنے والے بعض افراد کے مطابق وزیرستان سے نقل مکانی کرنے کے بعد ہمیں بہت سی مشکلات کا سامنا ہے، امداد لینے کے لیے گھنٹوں گھنٹوں قطاروں میں کھڑا رہنا پڑتا ہے اور پولیس کی لاٹھیاں کھانا پڑتی ہیں، اس خواری کے بعد جو امداد ملتی بھی ہے، وہ ہمارے کے لیے ناکافی ہوتی ہے۔

مبصرین کے مطابق سخت گرمی کی وجہ سے نقل مکانی کرنے والوں کی مشکلات میں مزید اضافہ ہو رہا ہے، جبکہ رمضان المبارک میں امداد کی اس کمی کی وجہ سے متاثرین کی زندگی مزید اجیرن ہوکر رہ گئی ہے، کیونکہ سولہ گھنٹے کا روزہ رکھنے کے بعد جب شام کو افطار کیا جاتا ہے، تو متاثرین آپریشن کے پاس افطاری کا کوئی بہتر انتظام نہیں ہوتا۔ اطلاعات ہیں کہ متاثرین میں خوراک اور ادویہ کی کمی کی وجہ سے بہت سے افراد بیمار پڑ رہے ہیں، ان کے علاج معالجے کا کوئی معقول انتظام بھی نہیں ہے، لیکن حکومت محدود سطح پر انتظامات کر رہی ہے۔ زیادہ قابل افسوس بات تو یہ ہے کہ وزیرستان سے نقل مکانی کرنے والوں کا دکھ کوئی بھی نہیں سمجھ رہا، ان مشکل حالات میں بھی ذمہ دار حضرات اپنی سیاست چمکانے میں مصروف ہیں، سیاست دانوں میں کوئی انقلاب لانے کے خواب دیکھ رہا ہے، تو کوئی انتخابی اصلاحات کا مطالبہ کر رہا ہے، لیکن نقل مکانی کرنے والوںکا اصل مسئلہ کسی کے ذہن میں نہیں ہے، سب کو اپنی ہی پڑی ہوئی ہے۔ وفاقی حکومت کا کہنا ہے کہ ہم متاثرین آپریشن کو امداد تو دیں گے، لیکن ان کی کفالت کرنا خیبر پختونخوا حکومت کی ذمہ داری ہے، جبکہ کے پی کے حکومت یہ ذمہ داری وفاق پڑ ڈال رہی ہے۔ کے پی کے میں برسراقتدار جماعت پاکستان تحریک انصاف تمام مہاجرین کو بھول کر اپنی سیاست میں مگن ہے اور اپنے جلسوں کی تیاریاں کررہی ہے، حالانکہ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ تحریک انصاف رضاکارانہ طور پر اپنے کارکنوں کو متاثرین کی خدمت کے لیے وقف کردیتی اور بڑے پیمانے پر متاثرین کے لیے امدادی کیمپ لگائے جاتے اور ان کو بروقت امداد فراہم کر کے ان کی مشکلات کو حل کیا جاتا، یہ سب کچھ کرنا تحریک انصاف کی اس لیے ذمہ داری ہے، کیونکہ ایک تو وہ صوبہ خیبر پختوانخوا میں برسر اقتدار ہے اور دوسری وجہ یہ کہ تحریک انصاف نے روز اول سے اپنی سیاست کا محور وزیرستان میں آپریشن کی مخالفت کو بنایا ہے، اب جبکہ آپریشن شروع ہوچکا ہے، تو اس سے متاثر ہونے والے افراد کی مشکلات کو حل کرنے کی زیادہ ذمہ داری تحریک انصاف پر عاید ہوتی ہے، لیکن تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کا کہنا ہے کہ خیبر پختونخوا میں ان کی جماعت بغیر امداد کے بے گھر ہونے والے افراد کا بوجھ اٹھانے کے قابل نہیں ہے۔ امداد کے بغیر ان کی حکومت صورتحال سے نمٹنے میں کامیاب نہیں ہو سکے گی، جبکہ وزیراعلی خیبر پی کے کا کہنا ہے کہ بڑی تعداد میں آئی ڈی پیز کے آنے کے باعث صورت حال تشویشناک ہے، لہٰذا عالمی ادارے شمالی وزیرستان سے نقل مکانی کر کے آنے والے آئی ڈی پیز کی انسانی بنیادوں پر مدد کریں۔

دوسری جانب متاثرین کی مشکلات میں اضافے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ انہیں صرف خیبر پختونخوا تک ہی محدود رکھا جارہا ہے، سرکاری سطح پر انہیں کے پی کے میں کیمپوں میں ہی رہنے پر مجبور کیا گیا ہے، اگر کوئی اپنے طور پر دوسرے صوبوں میں مختصر مدت کے لیے رہنے کی کوشش کرتا ہے تو دوسرے صوبوں میں ان کو عزت نہیں دی جارہی،بلکہ روکا جارہا ہے۔ بلوچستان اور سندھ کی حکومتوں کی جانب سے تو انہیں اپنے صوبوں میں داخل ہونے سے باقاعدہ طور پر منع بھی کیا گیا تھا، اگرچہ بعد میں تردید کی گئی، لیکن حقائق یہی ہیں کہ انہیں دوسرے صوبوں میں داخلے کی آزادی نہیں ہے۔ اسی سلسلے میں جمعہ کے روز متاثرین کی اندرون سندھ آبادکاری کے خلاف قوم پرست جماعتوں کی جانب سے احتجاج کیا گیا۔ مظاہرین نے سندھ میں آئی ڈی پیز کی آمد کو سوچی سمجھی سازش قرار دیا اور کہا کہ یہاں پہلے ہی آبادی کا دباﺅ ہے، ایسے میں لاکھوں آئی ڈی پیز کی آمد سے سندھ کے عوام کے مسائل میں مزید اضافہ ہوجائے گا۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ شمالی وزیرستان کے لاکھوں مکین بے گھر ہوچکے ہیں،شمالی وزیرستان میں فوجی آپریشن کی وجہ سے ایک ”انسانی سانحہ“ جنم لے رہا ہے، ملک کے تمام لوگوں کو چاہیے کہ دل کھول کر متاثرین کے ساتھ تعاون کریں، کیونکہ ان افراد نے ملک کی خاطر اپنے گھر بار چھوڑے ہیں، اس لیے سب کا فرض ہے کہ ان بے گھر افراد کی دل کھول کر مدد کریں۔ مشکل کی اس گھڑی میں شمالی وزیرستان سے نقل مکانی کرنے والوں کی امداد کرنا صرف بڑی نیکی ہی نہیں، بلکہ قومی فریضہ بھی ہے۔
عابد محمود عزام
About the Author: عابد محمود عزام Read More Articles by عابد محمود عزام: 869 Articles with 703942 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.