پھر ایک اور ڈرامائی پسپائی۔ ۔ ۔
۔ ۔
اور وقت نے ایک بار پھر بھر پور جوڑ توڑ، لین دین، بیس بیس کروڑ کے بھاؤ
تاؤ اور قائمہ کمیٹی میں عددی برتری کے حصول کیلئے ہزاروں پاپڑ بیلنے کے
باوجود این آر او پر ایک اور شرمناک ڈرامائی پسپائی حکومت کے مقدر میں لکھ
دی، یوں این آر او کے کالے قانون کی بنیاد پر لوٹ مار اور کرپشن کو جائز
قرار اور تحفظ دینے والے آئینی عمارت کھڑی کرنے کی کوشش اپنے قیام سے پہلے
ہی زمین بوس ہوگی، حیرت انگیز طور پر حکومت کے پیروں کے نیچے سے زمین
کھیچنے اور حکومت کی فتح و کامرانی کو ذلت و رسوائی میں بدلنے والے کوئی
اور نہیں اس کے اپنے اتحادی ثابت ہوئے، یعنی جن پر تکیہ تھا وہی پتے ہوا
دینے لگے کی مصداق، حکومت کی اتحادی متحدہ قومی موومنٹ کے قائد الطاف حسین
نے کالا قانون قرار دیتے ہوئے دو ٹوک لہجے میں نہ صرف قومی اسمبلی میں این
آر او کی مخالفت کا اعلان کیا بلکہ صدر زرداری اور ان کی کابینہ کو
بالواسطہ طور پر قربانی دینے کا بھی مشورہ دے ڈالا، ظاہر ہے متحدہ قومی
موومنٹ کے اس واضح مؤقف کے بعد حکومت کی شکست یقینی اور پسپائی لازمی امر
تھا، چنانچہ پہلے وزیر آعظم نے قومی اسمبلی میں سب کو ساتھ لے کر چلنے کا
عندیہ دے کراس ہزیمت کو ٹالنے کی کوشش کی اور رات گئے ایوان صدر کے ترجمان
نے این آر او کو قومی اسمبلی میں پیش نہ کرنے اور اتحادیوں کو ساتھ لے کر
چلنے کے اعلان سے اپنی جان چھڑائی۔
ہوسکتا ہے کہ ایم کیو ایم کی اس ڈرامائی پیش رفت کے پس پردہ مقاصد کچھ اور
ہوں لیکن اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ ایم کیو ایم کی جانب سے
این آر او کی مخالفت عوامی رائے عامہ کے عین مطابق تھی، چنانچہ قومی
مصالحتی آرڈیننس یا این آر او کے معاملہ پر حکمران پیپلزپارٹی کا پلٹا
کھانا لازمی تھا، کیونکہ پیر کے روز دن بھر کی گرما گرمی اور جوڑ توڑ کی
کوششوں کے بعد بھی پیپلزپارٹی کو اپنے اتحادیوں کی طرف سے شدید مخالفت کا
سامنا تھا اور رات تک صورتحال واضح ہوگئی تھی کہ اس آرڈیننس کو پارلیمنٹ سے
منظور کرانے کے لیے مطلوبہ ووٹ نہیں مل سکیں گے جس سے حکومت کو شدید خفت کا
سامنا کرنا پڑے گا، چنانچہ حکومت نے اسے پارلیمنٹ میں پیش نہ کرنے میں ہی
عافیت جانی، گو کہ حکومت نے اپنی اس پسپائی کو سب کو ساتھ لے کر چلنے کے
ملمع میں لپیٹنے کی کوشش کی ہے لیکن دیکھا جائے تو این آر او کو پارلیمنٹ
میں پیش کرنے سے فرار بھی حکومت کا اعتراف شکست ہی ہے، سیاسی مبصرین کے
خیال میں حکومت کو ایک نئے سیاسی بحران کا احساس ہوگیا تھا جس سے بچنے کے
لیے این آر او کو پارلیمنٹ میں پیش کرنے کا فیصلہ واپس لے لیا۔
لیکن حقیقت یہ ہے کہ این آر او کروڑوں اور اربوں روپے کی کرپشن، فوجداری
نوعیت کے قبیح جرائم اور سیاستدانوں کے علاوہ بیورو کریٹس اور طبقہ اشرافیہ
کے دیگر افراد کی بے ضابطگیوں کو معاف کرنے اور انہیں مزید لوٹ مار کی
اجازت دینے کا ایسا سرٹیفکیٹ ہے، جس کی کسی بھی قانون پسند اور مہذب معاشرے
میں مثال نہیں ملتی، یہاں یہ بات بھی قابل توجہ ہے کہ این آر او کے امتیازی
قانون کا فائدہ محض ایک مخصوص گروہ کو پہنچا اور ایک مخصوص مدت کے درمیان
قائم کئے گئے مقدمات واپس ہوئے، جن پر ریاست نے اربوں روپے کے اخراجات قومی
خزانے سے کئے این آر او کو پارلیمنٹ کا قانونی تحفظ ملنے کی صورت میں آئندہ
کوئی سیاستدان اور بیورو کریٹ قابل مؤاخذہ نہیں رہے گا، خواہ وہ بدترین
بدعنوانی، بے ضابطگی حتیٰ کہ فوجداری جرائم کا مرتکب ہی کیوں نہ ہو، اس بنا
پر تمام محب وطن حلقوں کی طرف سے یہ مطالبہ کیا جاتا رہا ہے کہ ایک آمر کے
امتیازی قانون پر کم از کم پارلیمنٹ مہر تصدیق ثبت نہ کرے تاکہ غیر جمہوری
قوتیں عوام کو یہ باور نہ کرا سکیں کہ اس ملک میں قانون اور ضابطوں کا
اطلاق صرف عام عوام پر ہوتا ہے، طاقتور طبقات کو بدعنوانی، بے ضابطگی اور
لاقانونیت کی کھلی چھٹی ہے اور پارلیمنٹ کا کام مخصوص طبقات کے مفادات کا
تحفظ اور نگہبانی رہ گیا ہے اس طرح سے وہ آئین بھی مذاق بن کر رہ جائیگا جس
میں ہر شہری کو بلاامتیاز و تفریق زندگی گزارنے اور قومی وسائل سے مستفید
ہونے کا حق حاصل ہے۔
واضح رہے کہ قومی مصالحت اور مفاہمت کے خوبصورت نام سے سابق فوجی حکمران
جنرل پرویز مشرف نے جو بدنام زمانہ آرڈیننس جاری کیا اس کا مقصد پیپلز
پارٹی کی قیادت کو مراعات دیکر اپنے اقتدار کو طول دینا اور دنیا پر یہ
ثابت کرنا تھا کہ بے نظیر بھٹو، آصف علی زرداری اور دیگر سیاستدان بدعنوان
ہیں اور اپنی بدعنوانی پر پردہ ڈالنے کیلئے ایک فوجی آمر سے ڈیل پر مجبور
ہوئے ہیں یہی وجہ ہے کہ وطن واپسی پر بے نظیر بھٹو نے حالات کو بھانپ کر
مجبوری کی اس ڈیل سے جو امریکہ کی مرضی اور ضمانت کے ساتھ مکمل ہوئی تھی
چھٹکارا پانے کی کوشش کی اور بعض حلقوں کی رائے کے مطابق اپنی موت کو گلے
لگایا، توقع یہ تھی کہ فروری کے عام انتخابات کے نتائج کے مطابق جب پیپلز
پارٹی مسلم لیگ (ن) اور دیگر سیاسی و جمہوری قوتوں کے تعاون سے اقتدار میں
آ گئی تو اولین فرصت میں اس بدنام زمانہ آرڈیننس کو بالائے طاق رکھ کر عوام
کو یہ باور کرائے گی کہ اس ملک میں کسی آمر کی مسلط کردہ امتیازی خواہش اور
اپنے اقتدار کے تحفظ کیلئے کی جانے والی ڈیلز کیلئے کوئی گنجائش نہیں۔
مگر بدقسمتی سے ایسا نہیں ہوا اور دو سال کا عرصہ گزر جانے کے باوجود نہ تو
حکمرانوں نے اپنے خلاف چلنے والے مقدمات کے سلسلے میں آزاد عدلیہ کا سامنا
کیا ہے، نہ 17ویں ترمیم ختم کر کے پارلیمنٹ کی بالادستی کا اہتمام کیا ہے
اور نہ ہی پرویز مشرف دور کی امریکہ نواز پالیسیوں کو ترک کر کے آزاد خارجہ
پالیسی کی تشکیل کا آغاز کیا، بلکہ حکومت نے اُلٹا بین الاقوامی مالیاتی
اداروں سے قرض در قرض اور شرمناک شرائط سے لبریز کیری لوگر بل قبول کر کے
قوم اور مقتدر طبقات میں نئے اختلافات پیدا کر دیئے ہیں وہ موجودہ جمہوری
نظام کیلئے کسی خطرہ سے کم نہیں، چنانچہ ان حالات میں جناب آصف علی زرداری
کا یہ شکوہ کہ عوام کو حقائق سے ہٹانے کے لیے سیاست کو ان کے گرد گھمایا
جارہا ہے، این آر او پر قانونی ماہرین سے مشاورت کی جائے گی اور متحدہ کے
تحفظات بیٹھ کر دور کیے جاسکتے ہیں، انتہائی حیرت کی بات ہے کہ ایوان صدر
اور حکمران پیپلزپاٹی نے اب تک این آر او پر قانونی ماہرین سے مشاورت ہی
نہیں کیا! یہ بات کسی طور سمجھ میں آنے والی نہیں ہے، جہاں تک سیاست کو ان
کے یا پیپلزپارٹی کے گرد گھمانے کی بات ہے تو اس میں تعجب کیسا؟ سیاست
ہمیشہ حکمرانوں کے افعال و اعمال کے گرد ہی گھومتی ہے، جہاں تک متحدہ کے
تحفظات کی بات ہے تو یہ تحفظات کیا ہیں، اس کی وضاحت ہونی چاہیے تھی، رہی
دور کرنے کی بات، تو پیر کی شب تک متحدہ کے تحفظات کو دور نہیں کیا جاسکا
تھا، ورنہ حکومت این آر او پر پسپائی اختیار نہ کرتی۔
حقیقت یہ ہے کہ معاملہ ابھی ختم نہیں ہوا، وزیراعظم گیلانی نے اسمبلی سے
خطاب میں کہا ہے کہ ہم اور ہمارے اتحادی اب بھی این آر او کا جائزہ لے رہے
ہیں، یعنی اگر کامیابی کا یقین ہوجائے تو یہ آرڈیننس پارلیمنٹ میں پیش
ہوسکتا ہے جب کہ صدر زرداری نے اشارہ دیا ہے کہ این آر او کو 28نومبر تک
پارلیمنٹ میں پیش کرنا لازمی نہیں، لیکن گھیرا تنگ ہوتا جارہا ہے اور صدر
زرداری کی رخصتی کی افواہیں تیز ہوگئی ہیں، فی الوقت سوال یہ ہے کہ عدالت
عظمیٰ کی ہدایت پر این آر او پارلیمنٹ میں پیش نہ کیا گیا تو اس کا مستقبل
کیا ہوگا؟ کیا یہ ختم ہوجائے گا اور اگر ایسا ہوا تو اس سے فیض یاب ہونے
والوں کا کیا ہوگا؟ جناب زرداری کو بطور صدر کب تک اور کس قسم کا استثنیٰ
حاصل رہے گا؟ یا اس کی جگہ کرپشن اور لوٹ مار کو تحفظ دینے والا کوئی اور
قانون لایا جائیگا؟ ایسے بہت سے سوالات ہیں جو اٹھنے شروع ہوگئے ہیں اور
ایک اور بحران پس بحران صاف نظرآرہا ہے۔
بظاہر حکومت نے اپنے حلیفوں کی طرف سے ہاتھ کھڑے کرنے کے بعد این آر او کو
پارلیمنٹ میں پیش نہ کرنے کا دانشمندانہ فیصلہ کیا ہے لیکن اب محض وقت
گزاری سے کام نہیں چلے گا موجودہ جمہوری نظام کی بقا و استحکام کا دار و
مدار حکومت کے ایسے فیصلوں پر ہے جو کسی ایک شخص، گروہ یا جماعت کے ذاتی و
گروہی مفادات سے بالاتر ہو کر محض قومی اور اجتماعی مفاد میں کئے جائیں،
این آر او کے مسئلہ پر جو سیاسی ارتعاش پیدا ہوا ہے اس سے عہدہ برآ ہونے کی
واحد صورت یہی ہے کہ موجودہ حکمران جناب الطاف حسین کی صائب تجویز کے مطابق
عدلیہ کا سامنا کریں، اگر وہ بے قصور ہیں تو یوسف رضا گیلانی کی طرح
عدالتوں سے بری ہوں، 17ویں ترمیم ختم کر کے پارلیمنٹ کو وہ اختیارات واپس
کریں جو غاصب فوجی آمر نے زبردستی حاصل کئے تھے اور ملک میں حقیقی مصالحت
اور مفاہمت کی فضا پیدا کریں، بصورت دیگر مائنس ون، مائنس تھری، مڈ ٹرم
الیکشن، قومی حکومت اور بنگلہ دیش ماڈل کی افواہیں گشت کرتی رہیں گی اور
موجودہ نظام ہمیشہ عدم استحکام سے دوچار رہیگا۔ |