غزہ کا لہو

رمضا ن المبارک کا مقدس مہینا پوری آن ، بان ، شان سے آگے بڑھ رہاہے ۔ ارادہ تھا ، کسی اصلاحی موضوع پر لکھوں ۔ اس مہینے کے شب و روز اصلاحی تحریر کا ہی تقاضا کرتے ہیں ۔ پھر یک سر ارادہ ملتوی ہو گیا ۔ وجہ غزہ کی حالیہ مخدوش حالت ہے۔ کوئی طاقت اس شہر ِبے اماں اور اس کے حرماں نصیب باسیوں کا حقیقی سہار انہیں بن رہی ۔ غزہ کی کشیدہ صورت حال نے خصوصا مسلم دنیا اور عموما پوری دنیا کو پریشان اور مبہوت کر دیا ہے ۔ اتنا مبہوت کہ اقوام ِ متحدہ کے جنرل سکریٹری کو کہنا پڑا کہ غزہ میں صورت حال تباہی کے دہانے پر ہے ۔ یہ خطہ ایک اور جنگ کا متحمل نہیں ہو سکتا ۔ بگڑتی ہوئی صورت حال تیزی سے قابو سے باہر ہوتی جارہی ہے اور تشدد پھیلنے کا خطرہ اب بھی حقیقی ہے ۔ اقوام ِ متحدہ کے جنرل سیکریٹری کے یہ الفاظ غزہ کی حقیقی صورت حال کی صحیح نشان دہی کر تے ہیں ۔

میں اپنے پچھلے کالم میں اس امر کی نشاندہی کر چکا ہوں کہ عن قریب اسرائیل اور حماس کے درمیان ایک خونی جنگ ہونے والی ہے ، جس کا آغاز منگل سے ہوا ۔ اگر چہ اس سے پہلے اسرائیل کی طرف سے دو ایسی خوش گوار خبریں سننے کو ملیں ، جس سے بہ ظاہر لگتا تھا کہ یہ خونی جنگ ٹل جائے گی ، مگر پھر حالات اچانک تبدیل ہو گئے اور غزہ کو انسانیت کے خون سے نہلا دیا گیا ۔ دو خوش گوار خبریں یہ ہیں :
1۔ اسرائیل کے وزیر ِ اعظم بنجمن نیتن یاہو نے پیر کے روز شہید کیے جانے والے 16 سالہ ابو خضیر کے والد کو فون کیا اور اس بات کا وعدہ کیا کہ فلسطین کے اس نوجوان کے قاتلوں کے خلاف قانونی چارہ جوئی کی جائے گی ۔ واضح رہے کہ 16 سالہ ابو خضیر کو ان تین نوجوانوں کے قتل کے بدلے میں شہید کیا گیا ، جن کا تعلق اسرائیل سے تھا اور ان نوجوانوں کے قتل کے بعد اسرائیل نے ان کے قتل کا ذمہ دار حماس کو ٹھہراتے ہوئے بہ بانگ ِ دہل کہا تھا کہ ان نوجوانوں کا بدلہ لیا جائے گا اور حماس کو اس کی قیمت چکانی پڑے گی ۔
2۔ ابو خضیر کے قتل کی پاداش میں اسرائیلی حکام نے کئی یہودیوں کو گرفتار کر لیا ۔ اسرائیل کا یہ اقدام بھی قابل ِ تعریف ہے ۔

پھر یکا یک 8 جولائی بروز منگل سے اسرائیل کی جانب سے بمباری شروع کر دی گئی ۔ وائس آف امریکا کے مطابق اب تک کی کارروائیوں میں 160 سے زائد افراد شہید ہو چکے ہیں ۔ تازہ کارروائیوں میں پولیس سربراہ کے گھر کو نشانہ بنا کر مکمل طور پر تباہ کر دیا گیا ۔ جس میں کم از کم 18 افراد شہید ہوئے ۔ تازہ اطلاعات یہ بھی ہیں کہ اسرائیل ، جو پہلے فضائی کا رروائیوں تک محدود تھا ، اب زمینی کارروائیاں بھی شروع کر چکا ہے ۔ (وائس آف امریکا نے "شہید" کی جگہ "ہلاک" کا لفظ استعمال کیا ہے ۔ )اب ذرا اسرائیلی جارحیت کے متعلق العربیہ کی یہ رپورٹ پڑھیے:
"اتوار کے روز اسرائیلی فوج کے ایک ترجمان نے بتایا کہ ان کے لڑاکا طیاروں نے ہفتہ اور اتوار کی شب غزہ کی پٹی پر تقریبا 20 فضائی حملے کئے جس کے بعد گذشتہ منگل سے جاری اسرائیلی حملوں میں شہید ہونے والوں کی تعداد 200 ہو گئی جبکہ 1329 افراد زخمی ہیں۔"
(ترجمان نے فلسطینی مزاحمت کے بارے میں کچھ یوں بتایا:)
"ترجمان کے مطابق گذشتہ 24 گھنٹوں کے دوران 53 میزائل اسرائیلی علاقے پر داغے جا چکے ہیں، اس طرح ابتک فلسطینی مزاحمتی تنظیمیں اسرائیل پر 800 راکٹ داغ چکی ہیں، جن میں 127 کو امریکی میزائل شکن دفاعی سسٹم 'آئرن ڈوم' نے فضا ہی میں تباہ کر دیا۔"

افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ غزہ کی صورت حال پر مسلم دنیا کے جس رد ِ عمل کی توقع تھی ، وہ نظر نہیں آیا ۔ پاکستان سمیت کئی ملکوں نے غزہ میں اسرائیلی جارحیت کی مذمت کی ۔ لیکن ۔۔۔۔ مذمت سے کیا ہوتا ہے ۔ مذمت تو اقوام ِ متحدہ نے بھی کی ہے ۔ باراک اوباما نے بھی کی ہے ۔ ہاں۔۔۔ مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ ہم مذمت کے سوا اور کر ہی کیا سکتے ہیں ۔ ہم اگر چہ 1 ارب 60 کروڑ ہیں ، دنیا کی دوسری بڑی قوم ہیں، اور ہمارے کئی ملک تیل کے ذخائر سے مالامال ہیں۔ یعنی ہم معاشی لحاظ سے بھی پسماندہ نہیں ہیں ۔ لیکن اس کے با وجود بھی ہم بہت کم زور ہیں ۔ بہت زیادہ کم زور ۔۔۔۔ اتنے کم زور کہ ایک چھوٹے سے ملک اسرائیل کو ترکی بہ ترکی جواب دینے ، اور اپنے بھائیوں کے لیے کوئی چھوٹا سا عملی کام کرنے سے بھی مکمل طور پر قاصر ہیں ۔ سوچتا ہوں اسرائیل کو اپنے شہریوں سے کتنی محبت ہے کہ تین شہریوں کے بدلے میں اس نے پورے فلسطین کا نظام تہس نہس کر دیاہے ۔ اور ہمیں اسرائیل کے مقابلے میں اپنے بھائیوں سے کتنی محبت ہے ، اس سوال کا جواب ڈھونڈنے کے لیے 50 سے زائد ملکوں پر نظر دوڑاتا ہوں ۔ او آئی سی کو دیکھتا ہوں ، عرب لیگ کا مشاہدہ کرتا ہوں ۔ ملکوں ملکوں شریعت اور خلافت کی علم بردار تنظیموں کا معائنہ کرتا ہوں ۔ ۔۔ تو سر ندامت سے جھک جاتا ہے ۔ کاش !!! ہم بھی اسرائیل کی طرح اپنے بھائیوں سے محبت کرتے ۔ غزہ کے سلسلے میں مسلمانوں کا کردار دیکھ کر پہلے بار مسلمانوں کی "طاقت " کا حقیقی ادرا ک ہوا ہے ۔

میں اس بات کا اعتراف کرتا ہوں کہ میں غزہ کے سلسلے میں کسی بھی قسم کا عملی کام کرنے سے قاصر ہوں ۔ ہاں ۔۔ فیس بک پر غزہ کے معصوم بچوں ، لہولہان نو جوانوں ، سسکتی بلکتی عورتوں کی چند تصویریں رکھ سکتا ہوں ۔ ٹویٹر پر چند سخت جملوں سے مسلم حکمرانوں کو کوس سکتا ہوں ۔ ہماری ویب پر غزہ کے بہتے لہوکا نوحہ لکھ سکتا ہوں ۔ اس کے ساتھ ساتھ غزہ کے مسلمانوں کے بارے میں دعا بھی کر سکتا ہوں ۔ آئیے دعا کرتے ہیں :
یارب!! ۔۔۔۔۔۔۔۔ اس امت ِ مرحومہ کے ہر زخم کی چارہ جوئی فرما کہ یہ امت مزید زخم سہنے کی سکت نہیں رکھتی ۔

یارب !!! میرے غزہ کے دامن پر لگے انسانیت کے لہو کے چھینٹے جلد از جلد سکھا دے اور اس شہر کو امن کا گہوارہ بنا دے ۔ (آمین)
Naeem Ur Rehmaan Shaaiq
About the Author: Naeem Ur Rehmaan Shaaiq Read More Articles by Naeem Ur Rehmaan Shaaiq: 122 Articles with 159265 views میرا نام نعیم الرحمان ہے اور قلمی نام نعیم الرحمان شائق ہے ۔ پڑھ کر لکھنا مجھے از حد پسند ہے ۔ روشنیوں کے شہر کراچی کا رہائشی ہوں ۔.. View More