تراویح
(Shaikh Wali Khan Almuzaffar, Karachi)
یہ ’’ترویحہ بمعنی استراحت‘‘ کی
جمع ہے،جوتراویح کی ہر چار رکعتوں کے درمیانی وقفے کوکہاجاتاہے، تراویح
رمضان المبارک کی ایک امتیازی عبادت ہے ،جو اپنی الگ شان رکھتی ہے ،اس نماز
کے ذریعہ رمضان المباک میں مسجدوں کی رونق بڑھ جاتی ہے ،عبادات کے شوق میں
غیر معمولی اضا فہ ہوجاتاہے ، روحانیت میں ترقی ہوتی ہے ،ایک ایک سجدے کی
وجہ سے اﷲ سے تعلق بنتاچلاجاتاہے ۔
۱۔صحیح احادیث شریفہ سے ثابت ہے کہ نبی کریم ﷺؑنے رمضان المبارک میں تراویح
کی باجماعت نمازچند مرتبہ پڑھائی ،لیکن جب مجمع زیادہ بڑھنے لگا ،تو صحابہ
کرام ؓ کے غیر معمولی ذوق وشوق کو دیکھ کر آپ ﷺ کو خطرہ ہوا، کہیں یہ نماز
امت پر فرض نہ کردی جائے، تو آپ ﷺ نے یہ سلسلہ موقوف فرمادیا،(بخاری شریف
1۔269) پھرعہد صدیقی میں مکمل اور دور فاروقی کے ابتدائی زمانہ تک یہ سلسلہ
یو نہی جاری رہا، اس کے بعد حضرت عمر ؓنے جب یہ دیکھاکہ لوگ مسجد میں تنہا
یاچھوٹی چھوٹی ٹولیاں بناکر نماز تراویح پڑھتے ہیں ، آپؓ نے مناسب سمجھا ،کہ
تراویح کی باقاعدہ جماعت قائم کردی جائے ، چنانچہ آپ ؓنے صحابہ ؓ کے بہترین
قاری ابی بن کعب ؓ کو تراویح کا امام مقرر فرمایا۔(صحیح بخاری )۔
۲۔ حضرت عبدالعزیر بن رفیعؓ کہتے ہیں کہ حضرت ابی بن کعب ؓ رمضان المبارک
میں مدینہ منورہ میں ۲۰ رکعت تراویح لوگوں کو پڑھاتے تھے اس کے بعد ۳ رکعت
وتر پڑھایاکرتے تھے۔(مصنف ابن شیبہ ۲۔۱۵۶)۔
۳۔حضرت یزید بن رومان ؓ فرماتے ہیں کہ لوگ رمضان المبارک میں حضرت عمر
فاروق ؓ کے زمانے میں تیئیس (۲۳)رکعت پڑھتے تھے ۲۰ رکعت نماز تراویح اور ۳
وتر۔(السنن الکبری للبیہقی ۲۔۶۴۹)۔
۴۔ملاعلی قاری ؒ نے لکھاہے کہ صحابہؓ کا اس بات پراجماع ہے کہ تراویح ۲۰
رکعت ہیں (مرقاۃ ۳ص ۳۷۲)۔
۵۔ علامہ ابن تیمہ ؒ فرماتے ہیں کہ یہ بات طے شدہ ہے کہ حضرت ابی بن کعبؓ
رمضان میں ۲۰ رکعت تراویح اور تین وتر پڑھاتے تھے کیونکہ یہ بات مہاجرین
وانصارکی موجودگی مین پیش آئی اور کسی نے اس پرنکیر نہیں کی ۔(مجموعۃ
الفتاوی)۔
۶۔امام ترمذی ؒ فرماتے ہیں کہ صحابہ کرام ؓمیں اکثر اہل علم کی یہی رائے ہے
کہ تر اویح کی بیس رکعات ہیں، جیساکہ حضرت عمر ؓ حضرت علی ؓ اور دیگر حضرا
ت ِ صحابہ ؓسے مروی ہے، سفیان ثوری ،عبداﷲ بن مبارک اورامام شافعی کا یہی
قول ہے ، امام شافعی فرماتے ہیں ، میں نے مکہ مکرمہ میں لوگوں کو بیس رکعت
ہی پڑھتے ہوئے پایا، یہی موقف ابن عباس ؓ ،نعمان بن بشیرؓ اور حضرت عائشہ ؓ
سے مروی ہے۔ (ترمذی )۔
۷۔ تعامل صحابہؓ،تابعین،تبع تابعین یعنی خیر القرون میں اور مابعد میں بھی
جمہورِامت حتیٰ کہ اہل حرمین شریفین کا معمول یہی رہا ہے۔
انہیں روایات وآثار اورتعامل کی وجہ سے جمہور علما اور ائمہ اربعہ (امام
ابوحنیفہؒ،امام مالک ؒ،امام شافعی ؒ اور امام احمد بن حنبلؒ) کا متفقہ موقف
یہ ہے کہ تراویح کی رکعات ِ مسنونہ بیس ہیں ۔اس لئے تراویح ۲۰رکعت پڑھنے کا
اہتمام کرنا چاہیے ، اور اس میں کسی قسم کی کوتاہی نہیں کرنی چاہیے ،ہم
اپنے دوستوں کی محفل میں گھنٹوں ضیاعِ وقت کر جاتے ہیں ،ایک یا ڈیڑھ گھنٹہ
اﷲ کے سامنے کھڑے ہونے سے ہمیں دل برداشتہ نہیں ہونا چاہیے، بلکہ ہمت سے
کام لینا چاہیے ،نامعلوم یہ ہماری زندگی کاآخری رمضان ہو۔اہل حدیث کے یہاں
کچھ روایات کی بناپر آٹھ رکعات تراویح پڑھی جاتی ہیں،اہل تشیع تقریباً
تراویح کی جماعت کے قائل نہیں ہیں۔بہرکیف ہم یہاں اپنے قارئین کے لئے
تراویح کے متعلق چیدہ چیدہ اور اہم مسائل ذکر کئے دیتے ہیں۔
٭نماز تراویح سنت مؤکدہ ہے، بلاعذر چھوڑنا گناہ ہے ،اگر فوت ہوجائے تو
قضانہیں۔
٭اعتکاف کی طرح ہرمحلے کی مسجد میں تراویح سنتِ کفایہ ہے،اگر کسی محلے میں
کہیں بھی تراویح کی جماعت نہ ہو،تو پورا محلہ گنہگار ہوگا۔
٭مسافر ومریض کے لئے اگر تراویح دشوار نہ ہو، تو پڑھنا افضل ہے۔
٭سمجھدارمراہق کی امامت میں تراویح کی جماعت ہوسکتی ہے۔
٭نا بالغ سامع کوصفِ اول میں کھڑا ہونے کی اجازت ہے۔
٭نماز تراویح اور تمام سنن نوافل اگر چہ مطلق نماز کی نیت سے درست ہوجاتی
ہیں، لیکن بہتریہ ہے کہ اس میں تراویح کی نیت کرکے نماز شروع کی جائے ،کہ
میں۲ یا۴رکعات نماز تراویح ادا کررہاہوں ۔
٭اگر غلطی سے تین رکعتیں پڑھیں ،مگر دوسری رکعت پر قعدہ کرلیا ،تو وہ صحیح
ہوگئیں اور تیسری باطل ہوگئی،تیسری رکعت میں جوحصہ قرآن کا پڑھاہے ،اسے
دہرائیں اور اگر ایک سلام سے تین رکعتیں پڑھیں اور دوسری رکعت پر قعدہ نہیں
کیا،تو تینوں رکعتیں شمار میں نھیں آئنگی ،ان میں جوقرآن پڑھاہے، اسے
دہرایاجائیگا۔
٭اگر ایک سلام سے ۴ رکعتیں پڑھیں، اور دوسری رکعت پر قعدہ کیا تو چاروں
صحیح ہوگئیں اور اگر ایک سلام سے ۴رکعتیں پڑھیں اور قعدہ اولی نہیں کیا،تو
صرف اخیر کی ۲ رکعتیں معتبر ہونگی اور پہلی ۲ رکعتیں شمار نہیں ہوں گی،
لہذا ان پہلی دو رکعتوں میں جو قرآن پڑھاہے، صرف اسے دہرایا جائے گا۔
٭تراویح باجماعت۲۰ رکعتیں دس سلاموں سے پڑھی جائیں گی ،اور ان میں ہر
ترویحہ میں یعنی ہر ۴رکعت میں کچھ دیر وقفۂ استراحت کرنا پسند یدہ ہے ،
ترویحہ کے لئے کوئی خاص عبادت متعین نہیں ہے ،بلکہ کچھ ذکر واذکار،تلاوت یا
نفلوں کا سلسلہ ہونا چاہئے ۔
٭کسی شخص سے تراویح کی بعض رکعات چھوٹ جائیں ،تو ترویحہ میں وہ رکعات پوری
کرلے، اگر پھر بھی رہ جائیں اور امام وترپڑھانے کیلئے کھڑا ہوجائے، تو امام
کے ساتھ اولاًوتر اداکرے، اس کے بعدچاہے تو اپنی چھوٹی ہوئی رکعات پڑھیں ۔
٭تراویح صلاۃِ عِشاء کی توابع ہیں،اس سے پہلے پڑھنا درست نہیں ہے۔
٭تراویح الگ سنت ہے اور ختم الگ،ختم کے بعد بھی اگر ایام رمضان باقی ہیں،تو
تراویح کا تسلسل جاری رہے گا۔
٭جس نے عشاء کی نمازبا جماعت نہ پڑھی ہو، وہ اپنی فرض نماز تنہا پڑھ کر،
تراویح اور وترکی جماعت میں شریک ہوسکتاہے ۔
٭تراویح میں ختم قرآن بھی سنت ہے،ایک رات یا تین یاسات ،یا اس سے زیادہ میں
ختم قرآن سب جائز ہے، البتہ صحت حروف اور عربی لب ولہجہ کا خیال رکھا
جائے۔نیزختمِ قرآن کریم پر کسی قسم کا معاوضہ لینا جائز نھیں ہے۔
٭سورۂ فاتحہ سے پہلے اور سوائے سورۂ براء ۃکے ہر سورت کی ابتدا میں بسم اﷲ
پڑھنا امام کے واسطے ضروری ہے، البتہ سامعین کے لئے ایک مرتبہ ہی امام
کاجہراً پڑھنا کافی ہے۔
٭نمازِتراویح مردوں کی طرح خواتین کے بھی ذمے ہے،طریقۂ کار میں کوئی فرق
نہیں ہے،اگر کوئی محرم حافظ میسّر ہو ، تو ان کی امامت میں ختم قرآن میں
شریک ہوں،نا محرم ہو تو پسِ پردہ ان کا قرآن سنیں۔خواتین کی امامت مکروہ
ہے،لیکن پھربھی کوئی حافظۂ قرآن ہو ،جو عورتوں ہی کو امامت کرائیں،تو
’’خاتون امام‘‘ مرد امام کے مانند آگے الگ مصلے پر کھڑی نہ ہو، بلکہ پہلی
صف میں ہی دیگر خواتین کے ساتھ تھوڑا سا آگے کوکھڑی ہو،حافظہ کی آواز بھی
غیر محرموں کو سنائی نہ دے،نیز یاد رہے خواتین کی اقتدا میں مردوں کی نماز
نہیں ہوگی ،اگر چہ محرم ہی کیوں نہ ہوں ۔ |
|