خون مسلم۔۔ارزاں کیوں ہے؟

آنسو ہیں کہ تھمتے نہیں،آہیں کہ رکتی نہیں،ایک لاچار مسلمان کر ہی کیا سکتا ہے،دنیا کے چپے چپے پر امت مسلمہ کے کٹے جسموں کو دیکھ کر قلم کی سیاہی بھی خون لگتی ہے،بارود کی بو لگتی ہے، اکتالیس کلومیٹر طویل اور چھ تا بارہ کلومیٹر چوڑی دنیا کی سب سے بڑی اوپن جیل غزہ میں اٹھارہ لاکھ انسان محصور ہیں،ہاں! اٹھارہ لاکھ انسان؟ میں نہیں چاہتا کہ غزہ یا پھر غرب ِ اردن یا پھر اردگرد کے ممالک میں پناہ گزین فلسطینیوں کو انسان کہنے سے کسی صیہونی قوم پرست کے جذبات کو ذرا سی بھی ٹھیس پہنچے۔ میری مراد ہے غزہ کی اٹھارہ لاکھ انسان نما مخلوق۔ اسرائیل میں فی مربع کلو میٹر تین سو بہتر انسان بستے ہیں اور غزہ کے پنجرے میں فی مربع کلومیٹر پانچ ہزار بیالیس انسان نما سانس لیتے ہیں۔۔۔پر ایک ہزار کے قریب فضائی حملے ہوچکے ہیں جس کے نتیجے میں سینکڑوں جانیں ضائع ہو چکی ہیں،دوسری طرف زمینی کارروائی بھی شروع ہوچکی ہے،مسلمانوں کی نسل کشی کی جارہی ہے ،خون مسلم اتنا ارزاں ہوچکا ہے کہ کوئی بولنے کی طاقت ہی نہیں رکھتا،امن،امن پکارنے والی زبانیں عالمی زیونسٹ دہشتگردی پر گنگ ہوچکی ہیں،غیروں کا کیا شکوہ اپنے ہی شتر مرغ کی طرع ریت میں سر چھپا ئے بیٹھے ہیں،نہ خلافت کے علمبردار میدان میں آئے ہیں اور نہ ہی بادشاہت کے پیروکار۔

دنیا میں ستاون اسلامی ممالک ،اسلام دنیا کا دوسرا بڑا مذہب،دین محمدﷺ کے 1.57بلین نفوس ماننے والے،دنیا کا تیئس فیصد مسلمان،مشرق وسطٰی،شمالی افریقہ،ہارن آف افریقہ اور ایشیاء میں بڑی تعداد میں آباد،امریکہ،یورپ میں کمیونٹیز کی صورت میں رہتے ہیں،دنیا کے قیمتی ترین وسائل سے مالا مال،سب کچھ ہونے کے باوجود آٹھ ملین یہودیوں کے سامنے بے بس دکھائی دیتے ہیں،اسے مجرمانہ غفلت کہیں یا بزدلی۔ دنیا بھر کی این جی اوز اور نام نہاد امن،آزادی کی ٹھیکیدار،انسانی حقوق کی تنظیموں،مذہبی آزادی کے راگ الاپنے والے دانشوروں کو جیسے سانپ سونگھ گیا ہو طالبان کے خلاف عقلی اور انسانی دلیلیں دینے والے بے حس مسلمان اور حکمران گونگے بنے بیٹھے ہیں،کوئی چیخ و پکار نہیں کوئی آہ و بکا نہیں۔
فلسطین میں جاری اسرائیلی بمباری کوئی نئی بات نہیں کیونکہ اسرائیل ہمیشہ اسطرح کی کارروائیاں کرتا چلا آرہاہے۔ اور جب بھی اس کے خلاف کوئی قرارداد پیش کی جاتی ہے تو سلامتی کونسل میں بیٹھا امریکی ایلچی یٹو کا لفظ بول کر مظلوم فلسطینیوں کی امیدیں ہی توڑ دیتا ہے۔اس ظلم کے خلاف دوسری اہم آواز عرب لیگ اور او۔آئی۔سی کی ہے جو اب زبانی کلامی مخالفت اور مزحمت بھی گوارا نہیں کرتیں۔

ایک وقت تھا جب اسرائیل کو ایسی کاروائیوں پر شام سے حافظ الاسد، عراق سے صدام حسین، سعودی عرب سے شاہ فیصل اور بعد ازاں شاہ عبدالعزیز کی جانب سے تنقید کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔ کیمپ ڈیوڈ میں فلسطینیوں کے خون کا سودا کرنے والا مصر بھی آج چپ ہے،آج محمد مرسی بھی جیل میں ہے،مصر اپنی جانب کی غزہ کی سرحدیں بھی بند کر چکا ہے تاکہ مظلوم فلسطینیوں کو کئی امداد نہ پہنچ سکے۔ پوری دنیا میں آج اردگان کے علاوہ کوئی لیڈر نہیں جو فلسطینیوں سے اظہار ہمدردی ہی کر سکے۔آج ایران کا احمدی نژاد بھی موجود نہیں جو اس ظلم پر بول سکے،ایرانی سنیوں کیخلاف ساری طاقت صرف کررہے ہیں تو سنی شیعوں کو کافر کہ کر مار رہے ہیں۔

مشرق وسطی میں 9/11 کے بعد جاری مشکوک جہادی تحریکوں نے جہاں خطے کے اندر اسرائیل مخالف قوتوں کو کمزور کر دیا ہے وہیں پر ماضی کی دو طاقتور اسرائیلی حریف ریاستیں شام اور عراق اپنی بقائء کی جنگ لڑ رہی ہیں۔ یہ کیسے جہادی گروہ ہیں جنھیں اسرائیل کے خلاف ایک گولی چلانے کی بھی فرصت نہیں۔ جب کہ شام کا وہ علاقہ جہاں جہادی گروہ قابض ہیں وہاں سے اسرائیلی سرحدیں چند قدم سے زیادہ دور نہیں ہیں۔میں یہاں پر سعودی عرب کا ذکر نہیں کروں گا جس کا سرمایہ اپنی ہی مسلمان ریاستوں میں انتشار کے لیے کام آ سکتا ہے مگر فلسطینیوں کے ساتھ اظہار ہمدردی سے ریاض کے شہزادوں کو بھی کوئی سروکار نہیں۔آج پوری دنیا میں کوئی ایسی طاقت نہیں جو اسرائیل کو باز رکھ سکے کیوں کہ بحیرہ روم کے کنارے پر موجود اس صہیونی ریاست سے سب کے مفادات جکڑے ہوئے ہیں ۔اور غلیل سے اسرائیل کا مقابلہ کرتی فلسطینیوں کی تیسری نسل سے نہ تو مسلم حکمرانوں اور نہ ہی عالمی دنیا کو کوئی فائدہ پہنچا سکتی ہے۔ مسلم حکمرانوں کو غزہ کے مقتل میں بکھری لاشوں سے کوئی غرض نہیں،ان کی تو طاقت امام،پیسہ ایمان ہے،ایک بھکاری کو پیسہ جہاں سے ملے گا وہی اس کا امام ہوگا،وہ پیسہ چاہے دلالی کرکے ملے یا اپنی عزت،خون بیچ کے ملے اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔
Azhar Thiraj
About the Author: Azhar Thiraj Read More Articles by Azhar Thiraj: 77 Articles with 68409 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.