آہنی زنجیریں
(Tariq Hussain Butt, UAE)
آمریت کی گود میں پلنے والوں
کیلئے آمرانہ انداز سے دامن چھڑانا بڑا مشکل ہوتا ہے اور آج کل جنرل ضیا
الحق کے مارشل لاء کی چھتری کے زیرِ سایہ خار زارِ سیاست میں میں قدم رکھنے
والے میاں برادران ایسے ہی آمرانہ ہتھکنڈے استعمال کر رہے ہیں جس نے
پاکستان کے جمہوری چہرے پر ایسی سیاہی مل دی ہے جس سے ہم مہذ ب دنیا کو
اپنا چہرہ دکھانے کے قابل نہیں رہے۔دنیا آگے کی جانب سفر کرتی ہے لیکن ہم
پیچھے کی جانب محوِ ِ سفر ہیں اور جنرل ایوب نے اپنے مخالفین کا ناطقہ بند
کرنے کیلئے ساٹھ کی دہائی میں جو کالا قانون نافذ کیا تھا مسلم لیگ (ن) کی
حکومت اسی کالے قانون کو ۲۰۱۴ میں لاگو کر رہی ہے اور پھر بھی اس بات پر
بضد ہے کہ اس کے اس انسانیت کش اقدام کو جمہوریت کا نام دیا جائے۔میاں
برادران کی تربیت چونکہ جنرل ضیا الحق کے زیرِ سایہ ہوئی ہے لہذا طاقت کا
استعمال ان کی سیاست کا وہ بنیادی پتھر ہے جس سے جان چھڑا نا ان کیلئے
ناممکن ہے۔وہ ہر چیز کو طاقت کے زور پر دبانا چاہتے ہیں چاہے اس میں ان کی
کتنی بھی سبکی ہو جائے ۔ابھی ماڈل ٹا ؤن سا نحے کی سیاہی بھی خشک نہیں ہوئی
تھی کہ تحفظِ پاکستان آرڈیننس نے جمہوریت نواز لوگوں کے دلوں کو دہلا کر
رکھ دیا ہے۔۱۵ ویں گریڈ کے ایک شخص کو انسانی زندگی کو ختم کرنے کا اختیار
دینے کا قانون میاں برادران ہی منظور کر نے کی جرات کر سکتے ہیں۔یہ قانون
سیاسی مخالفین کو زندانوں میں ڈالنے اور انھیں کسی بھی شک کی بناء پر قتل
کر دینے کا ایسا بلیک وارنٹ ہے جس کی مثال جمہوری تاریخ میں ڈھونڈے سے بھی
نہیں ملے گی ۔اس طرح کے قوانین کو آمریت میں تو بھگتا جا سکتا ہے لیکن ان
کا جمہوری معاشروں میں کیا کام۔حیران کن بات یہ ہے کہ پی پی پی جس کی تاریخ
ظلم و جبر، کالے قوانین اور آمرانہ ہتھکنڈ وں کے خلاف جرات مندانہ جدو جہد
سے بھری پڑی ہے وہ اس کالے قانون کا تحفظ کرنے میں پیش پیش ہے اور اس کے
چوٹی کے لیڈر ٹیلیویژن پر اس قانون کا دفاع کرتے نظر آرہے ہیں۔ حیف صد حیف
کہ جھنیں اس قانون کے خلاف ڈٹ جانا چائیے تھا وہ اس کالے قانون پر داد
وتحسین کے ڈھونگرے برسا رہے ہیں جیسے انھوں نے بہت بڑا انقلابی معرکہ سر کر
لیا ہے۔ پی پی پی کو تو ہنگامہ بپا کر دینا چائیے تھا کہ یہ قانون جمہوری
قدروں کا بیہمانہ قتل ہے لہذا اس کی منظوری نہیں دی جا سکتی اور نہ ہی اس
کا ساتھ دیا جا سکتا ہے۔ ظلم ظلم ہے چاہے اسے پیش کرنے والا جگری دوست ہی
کیوں نہ ہو۔یہ سچ ہے کہ آج کل میاں محمد نواز شریف اور آصف علی زرداری
بھائی بھائی بنے ہوئے ہیں لیکن انصاف میں رشتوں اور دوستیوں کا کیا تعلق ؟
کسی نے سچ کہا ہے کہ آج کل پی پی پی مسلم لیگ (ن) کی بی ٹیم کا رول ادا کر
رہی ہے اور اس ملک کی جمہوری روح کو آمرانہ پنجوں میں قید کرنے میں پیش پیش
ہے لیکن اس سے بھی انکار کی گنجائش نہیں ہے کہ ایک وقت تھا کہ پی پی پی ایک
ترقی پسند جماعت تھی جو آزادیِ رائے اور انسانی حقوق کی چیمپین تھی اور آج
اسی جماعت کی نظروں کے سامنے انسانی حقوق اور آزادیِ رائے پر ڈا کہ ڈالا جا
رہا ہے اور وہ خاموش تماشائی کا کردار ادا کر رہی ہے حالانکہ اسے انسانی
حقوق کی آزادی کی خاطر میدانِ عمل میں ہو نا چائیے تھا کیونکہ یہی اس کی
پہچان ہے۔
مو قف بدلنے کے بھی کوئی اصول، ضابطے اور پیمانے ہوتے ہیں ۔پی پی پی لاکھ
مسلم لیگ (ن) کے ساتھ محبت کی پینگیں بڑھائے کسی کو کوئی اعتراض نہیں ہے
کیونکہ جمہوریت میں دوست اور دشمن مستقل نہیں ہوتے لیکن کم از کم اس کالے
قانون کے خلاف سینہ سپر ہو کر وہ سڑکوں پر تو نکل سکتی تھی کیونکہ یہ قانون
پاکستان اور جمہوریت کے خلاف سنگین سازش ہے۔محترمہ بے نظیر شہید بھٹو جنرل
پرویز مشرف کی ایمرجنسی کے خلاف دبئی سے خصو صی طور پر پاکستان پہنچی تھیں
اور ا یمرجنسی کے خلاف عوام کو متحد کیا تھا اور حکومت کا تحفظِ پاکستان کا
کالا قانون تو اس ایمرجنسی سے بھی زیادہ خطرناک اور تباہ کن ہے کیونکہ اس
میں انسانی جان کو شک کی بنا پر ختم کر دینے کا اختیار ایک پندرھویں گریڈ
کے افسر کو تفویض کر دیا گیا ہے۔ربِ کائنات نے تو انسانی جان کے تقدس اور
حرمت کی خود قسم کھائی ے لیکن یہاں پاکستان کے حکمران اسی انسان کو بغیر
وارنٹ گرفتار کرنے اور اسے شک کی بناء پر قتل کر دینے کا حکم دے کر اسلام
کی بنیادی تعلیمات سے بغاوت کر رہے ہیں۔ بہترین جہاد ظالم حکمران کے خلاف
کلمہِ حق بلند کرنا ہے اور تحفظِ پاکستان آرڈینینس ظلم کی انتہا ہے ۔ذولفقار
علی بھٹو کی للکار اور محترمہ بے نظیر بھٹو کی جمہوری جدو جہد کا دعوی کرنے
والی پی پی پی سے اس طرح کے رویوں کی توقع نہیں تھی۔شائد آصف علی زرداری
مفاہمتی سیاست کے تقاضو ں کا شکار ہو گئے ہیں اور ظلم کو ظلم اور جبر کو
جبر کہنے سے گریزاں ہیں۔ان کی ایسی ہی سیاسی غلطیوں اور مفاہمانہ سوچ کی
بدولت پی پی پی اپنی ترقی پسندانہ پہچان ختم کرتی جا رہی ہے ۔ پی پی پی تو
پہلے ہی مئی ۲۰۱۳ کے انتخا بات کے بعد جان کنی کے عالم میں ہے لیکن بنیادی
حقوق کی معطلی پر میاں برادران کے ساتھ رقص پارٹی میں شامل ہونے سے پی پی
پی کا مکمل صفایا ہو جائے گا اور ذولفقار علی بھٹو کی روح تڑپ رہی ہو گی کہ
جس جمہوری پاکستان کیلئے انھوں نے اپنی جان کا نذرا نہ پیش کیا تھا ا س ملک
میں لوگوں کے جان و مال کا کوئی محا ففط نہیں رہا۔دھشت گردوں کے ہا تھوں تو
دنیا پہلے ہی تنگ تھی لیکن اب وہ لوگ جنھوں نے عوام کی حفا ظت کا ذمہ لیا
تھا اب انھوں نے بھی آئینی دھشت گردی کا آ غا ز کر دیا ہے اور ایک ایسا
معاشرہ تشکیل دینے کی کوششیں کر رہے ہیں جس میں کسی کو بولنے اور اظہارِ
خیال کی آزادی نہیں ہو گی۔اب اگر کسی نے حکومت کے خلاف لب کشائی کرنے کی
کوشش کی تو انھیں تحفظِ پاکستان آر ڈینینس کے تحت مقدمات اور موت جیسے
فیصلوں کا سامنا کرنا پڑے گا جو بنیادی انسانی حقوق پر داکہ ڈالنے کے
مترادف ہے۔
میاں برادران نے اپنی پچھلی حکومت میں بھی اسی طرح کا قانون منطور کیا تھا
اور خصوصی عدالتیں قائم کی تھیں ۔پتہ نہیں کہ میاں برادران کو کون اس طرح
کی زرخیز تجاویز دیتا ہے جو بعد میں ان کے گلے کی ہڈی بن جاتی ہیں ۔کمال یہ
ہے کہ میاں برادران نے جو قانون اپنے مخالفین کے لئے مدون کیا تھا ۱۲
اکتوبر ۱۹۹۹ کے شب خون کے بعد جنرل پرویز مشرف کے ہاتھوں اسی قانون کے تحت
ان پر مقدمہ قائم ہوا تھا اور انھیں عمر قید کی سزا ہوئی تھی ۔یہ وہی وقت
تھا جب میاں برادران معافی نامہ لکھ کر سعودی عرب روانہ ہو گئے تھے اور
مسلم لیگ (ن) کے سارے شیر سرکس کے شیر ثابت ہوئے تھے کیونکہ میاں برادران
کی رخصتی پر نہ تو کسی آنکھ میں کوئی آ نسو تھا اور نہ ہی انھیں کوئی ملال
تھا ۔میاں برادران وکلا تحر یک کی مقبولیت کے بعد پاکستان لوٹے تو پی پی پی
کے ساتھ اس بات پر متفق ہوئے کہ باہم مل کر پاکستانی عوام پر اپنی بادشاہی
قائم کرنی ہے اور تحفظِ پاکستان آرڈینینس اسی سمجھوتے کی جدید شکل ہے جس کی
پی پی پی نے دل کھول کر حما ئت کر دی ہے۔ کمال یہ ہے کہ اس قانون کی زد میں
پارلیمننٹیرین کی اولادیں تو آنے سے رہیں لہذا نھیں کسی قسم کا کوئی خو ف
اور ڈر نہیں ہے ۔دوسروں کی اولادیں تو کیڑے مکوڑے ہیں جو انسانیت کے معیار
پر پورا ہی نہیں اترتیں لہذا دھشت گردی کے نام پر انھیں موقعہ پر ہی گولی
مارنے کا حکم حکمرانوں کی فرعونیت کا بین ثبوت ہے جس کا مظاہرہ ماڈل ٹاؤن
میں دیکھا گیا ہے ۔سنا تھا کہ سوچ پر کوئی پابندی نہیں ہوتی لیکن یہ کیسی
حکومت ہے جس نے سوچ پر بھی پابندی عائد کر دی ہے ۔اب اس بات کا فیصلہ پولیس
انسپکٹر کر یگا کہ انسان کیا سوچیں اورکیسے سوچیں ؟اگر انھوں نے اپنی مرضی
سے سوچنے کی کوشش کی تو پھر بندوق کی گولی ان کی زندگی کا چراغ گل کرنے
کیلئے کافی ہو گی ۔ حقیقت تو یہ ہے کہ اس قانون کی سیدھی زد تو پاکستان کے
ان لوگوں پر پڑیگی جو جمہوری قدروں کے دیوانے ہیں، انسانی حقو ق کے
علمبردار ہیں اور ترقی پسندی کے داعی ہیں۔ عظیم فلاسفر روسو نے کہا تھا کہ
انسان کو خدا نے آزاد پیدا کیا لیکن بعد میں اسے غلامی کی زنجیریں پہنا دی
گئیں لہذا الوگوں کو ان زنجیروں کو توڑنے کیلئے میدان میں نکلنا ہوگا۔روسو
کی پکار انقلابِ فرانس کی بنیا د بنی تھی اور میاں برادران کا حالیہ کالا
قانون ایک اسلامی انقلاب کی نوید بنے گا ۔جبر کی فضا ہی اسلامی انقلاب کی
منزل کو اور زیادہ قریب کر دیگی۔ پاکستان میں آجکل جس انقلاب کے نعرے سنائی
دے رہے ہیں کیا یہ وہی اسلامی انقلاب ہے جس کی راہ عوام دیکھ رہے ہیں؟ ؟؟ |
|