طاہر القادری صاحب کی علمی خیانتیں - 2

بسم اللہ الرحمن الرحیم
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

آگے جانے سے قبل چند اہم معروضات:

جوں ہی طاھر القادری صاحب کا نام آتا ہے ہر انسان جو پاکستان میں بستہ ہے یا پاکستان سے باہر ہے مگر کسی طور پر بھی اسکا تعلق پاکستان سے ہے تو اس کی دلی خواہش ابھرتی ہے کہ وہ تبدیلی اور انقلاب جو اصل تبدیلی ہے اور جو قرآن والسنۃ کی بات کرے، جس کا ذکر اور طریقہ ہم نے پہلے کیا تھا:

https://www.hamariweb.com/articles/article.aspx?id=49034

اور جو عوام الناس کو ان کے اصل حقوق دلاۓ وہ تبدیلی قادری صاحب کے مرہون منت آ جاۓ، مگر یہ قول اتنا آسان نہیں. بعض احباب کے پیٹ میں اس وقت شدید مروڑ اٹھا جب انکو قادری صاحب کی اصل یعنی علمی خیانتوں کی پہلی قسط ظاہر کی گئ، میں ان سے التماس کروں گا کے نمک سلیمانی کا استعمال کریں، ان شاء اللہ آفاقہ ہوگا، جی ہاں، دین کی نمک سلیمانی یعنی قرآن والسنۃ کو صحیح یا حسن احادیث پر سمجھنا اور ضعیف وکذاب و من گھڑت راویوں کی روایات سے کلی اجتناب، جو شخص یہ عمل نہیں کرتا اسکی ہزار کیا پچاس ہزار کتب بھی ضرب سفر ہیں، چاہے وہ ان اشاعت کی گئ کتب کا ایک پیسہ بھی اپنے اوپر سور کی طرح حرام سمجھے، امید ہے سمجھنے والے احباب سمجھ گیے ہوں گے، بہر کیف طاھر القادری صاحب کی علمی خیانتوں کو ظاہر کرنے کا مقصد ان کی غیبت نہیں بلکہ وہ پوشیدہ چہرہ ظاہر کرنا ہے جو ایک عام آدمی سے چھپا ہوا ہے، اور جیسا کہ اسما الرجال کے موضوع پر علماء اور محدثین کا عمل رہا ہے، یعنی کہ جو شخص دین میں جھوٹ کا سہارا لے اسے شیخ الاسلام کہلوانے کا کاہے کا حق ہے؟ اور وہ دنیا کے اعمال کو وہ کس طرح اصول پر کرے گا؟ اسی طرح ہم اسکی اس جھوٹی عزت سے کیوں جلیں گے جو اللہ کے پاک دین کو جھوٹ کی بنیاد پر کھڑا کرے؟ ولیعذ باللہ، یہ تو جب قبر میں اور آخرت میں پکڑ ہوگی کے اللہ کے دین میں آپ نے جھوٹ کا سہارا لیا، کیوں؟ تو پھر لگ پتا جاۓ گا. بہر حال اسکا یہ مطلب نہیں کہ ھم گمراہوں کی گمراہی کو اکسپوز نہ کریں. ایک نقطہ اور یہ بھی ہے کہ ہمارے نزدیک نہ تو پاکستان یا کسی بھی مسلمان ملک کے مسائل کا حل جمہوریت میں ہے، دیکھیں:

https://www.hamariweb.com/articles/article.aspx?id=48920

اور نہ ہی ہم اس کے قائل ہیں کہ کسی طرح بھی پاکستان کے مختلف پارٹیوں کے شہنشاہ حضرات پاکستان میں کسی قسم کی تبدیلی لا سکتے ہیں، کیونکہ ان کی اصل ہی مال کو ناجائز طریقہ سے کمانا ہے اور ضبردستی عوام الناس سے ٹکس اور در ٹکس وصول کرنا ہے اور زکوۃ کا نظام کو لاگو کرنے کی کوئ سعی نہیں، اس لیے ہم اس بات کے قائل نہیں کہ حاضر وقت کے حکمرانوں اور انکی خواہشات کو انڈورس کریں مگر اسکا یہ مطلب نہیں کہ کذاب اور متروک کی خیانتوں کو ظاہر نہ کریں، جو لوگوں کو دین کے نام پر گمراہ کر رہا ہے

طاہر القادری صاحب کے علمی خیانتوں کا دوسرا حصہ:

6. طاہر القادری صاحب نے اس کتاب کے صفحہ 850 پر ایک سند بیان لکھی ھے جو وہ نقل کرتے ہیں محمد بن حسن الشیبانی سے جو امام ابو حنیفہ تک پہنچتی ہے، اس کو طاہر القادری صاحب اپنی سند قرار دیتے ھیں، اس سند میں ایک راوی عبداللہ بن محمد الحارثی الحنفی ہے، اسماء الرجال کی کتاب لیسان المیزان میں اس راوی کے حالات درج ہیں:

عبداللہ بن محمد بن یعقوب الحارثی الحنفی کے بارے میں ابن جوزی نے کہا ابو سعید کہتے ہیں اس راوی پر یہ تہمت لگی ہے کہ یہ حدیثیں گھڑتا تھا.

احمد السلیمانی نے کہا سند گھڑتا تھا ایک متن پر لگا دیتا تھا ایک متن گھڑتا تھا دوسری سند پر لگا دیتا تھا،

ابو زرعہ الرازی نے کہا یہ ضعیف ہے، حاکم نے کہا کہ یہ سچے راویوں سے عجیب روایتیں بیان کرنے والا ہے.

خطیب نے کہا اسکے ساتھ حجت نہیں پکڑی جاتی.

خلیلی نے کہا یہ استاذ کے ساتھ مشہور ہے اور یہ کمزور راوی ہے اسکو (محدثین نے) کمزور کہا اور یہ بھی کہا کہ یہ تدلیس کرتا تھا.

خطیب البغدادی نے کہا یہ عجیب، منکر روایتیں بیان کرتا تھا اور یہ ہجت نہیں ہے. اسی طرح امام بیہقی نے، کتاب القراء میں صحیح سند سے ایک بڑے محدث سے نقل کیا کہ یہ راوی حدیثیں گھڑتا تھا. تو اس سے ثابت ہوا کہ طاہر القادری صاحب جھوٹے اور مردود راویوں کی روایتیں اپنی کتاب میں استدلال کے لیے پیش کرتے ہیں اور ان کی اپنی نقل کی گئ سند میں بھی ضعف موجود ہے.

7. جب سیدنا آدم علیہ السلام سے غلطی اور لغزش سرزد ہوئ تو آپ علیہ السلام نے اللہ سے دعا کی:

"ربنا ظلمنا انفسنا وان لم تغفرلنا وترحمنا لنکونن من الخسرین"

سورۃ الاعراف، 23

اسکے مقابلہ میں طاھر القادری صاحب کو دعوی ہے کہ آدم علیہ السلام نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے وسیلے سے دعا کی اور طاھر القادری صاحب نے اس دعوی کو مستدرک للحاکم جلد 2 صفحہ 615 کے حوالہ سے نقل کیا اور اس بارے میں مزید لکھا ہے

اس حدیث پاک کو جن اجل علماء اور ائمہ و حفاظ حدیث نے اپنی کتب میں نقل کرکے صحیح قرار دیا ہے ان میں سے بعض یہ ہیں:

1. البیہقی فی الدلائل جلد 5 صفحہ 489،

2. ابو نعیم فی الحلیہ جلد 9 صفحہ 53،

3. التاریخ الکبیر جلد 7 صفحہ 374،

4. المعجم الکبیر للطبرانی جلد 2 صفحہ 82،

5. الہیثمی فی مجمع الزوائد جلد 8 صفحہ 153،

6. ابن عدی فی الکامل جلد 4 صفحہ 1585،

7. الدر المنثور جلد 1 صفحہ 60،

8. الآجری 442،445،

9. فتاوی ابن تیمیہ جلد 2 صفحہ 150

طاھر القادری صاحب کا حوالہ:

عقیدہ توحید اور حقیقت شرک صفحہ 264،265،266 منہاج القرآن کی چھپی ہوئ، اشاعت ہفتم، سن 2005

محدث العصر الشیخ زبیر علی زئ رحمہ اللہ، جو کئ نام نہاد لوگوں اور نام نہاد ارٹکلز لکھنے والوں کو کانٹے کی طرح چبتے ہیں، ان کی تحقیق میں طاہر القادری صاحب نے 9 مذکورہ کتابوں اور علماء کے بارے میں 9 غلط بیانیاں کی ہیں، جن کی تفصیل درج ذیل ہے:

امام بیہقی نے اس روایت کو صحیح نہیں کہا، بلکہ فرمایا:

تفرد بہ عبدالرحمن بن زید ابن اسلم من ھذا الوجہ عنہ وھو ضعیف (واللہ اعلم"

مفہوم:

اس سند کے ساتھ عبدالرحمن بن زید بن اسلم منفرد ہے، اور وہ ضعیف ہے، واللہ اعلم"

(حوالہ: دلائل النبوۃ جلد 5 صفحہ 489، طبع دار الکتب العلمیہ بیروت لبنان)

امام بیہقی نے تو راوی کو ضعیف قرار دیا اور قادری صاحب کہ رہے ہیں کہ انہوں نے روایت کو صحیح قرار دیا؟

حافظ ابو نعیم الاصبہانی کی کتاب حلیہ الاولیاء (جلد 9 صفحہ53؟) میں یہ روایت نہیں ملی اور نہ اسے ابو نعیم کا صحیح قرار دینا ثابت ہے.

التاریخ الکبیر سے مراد اگر امام بخاری کی التاریخ الکبیر ہے تو یہ روایت وہاں نہیں ملی اور نہ امام بخاری نے اسے صحیح قرار دینا ثابت ہے-

المعجم الکبیر للطبرانی جلد 2 صفحہ 82 پر یہ روایت موجود ہے لیکن امام طبرانی نے صحیح نہیں کہا بلکہ فرمایا، مفہوم:

یہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے صرف اسی اسناد سے مروی ہے، احمد بن سعید نے اسکے ساتھ تفرد (منفرد) کیا.

حافظ ہیثمی رحمہ اللہ نے مجمع الزوائد جلد 8 صفحہ 253 پر کہا:

رواہ الطبرانی فی الاوسط والصغیر وفیہ من لم اعرافھم

اسے طبرانی نے الاوسط اور الصغیر میں روایت کیا اور اس میں ایسے راوی ہیں جنہیں میں نہیں جانتا"

ابن عدی کی کتاب الکامل کے مجولہ جلد 4 صفحہ 1585 بلکہ ساری کتاب میں روایت نہیں ملی.

در منثور جلد 1 صفحہ 58 اور دوسرا نسخہ جلد 1 صفحہ 131 میں یہ روایت بحوالہ المعجم الصغیر للطبرانی، حاکم، الدلائل لابی نعیم، الدلائل للبیہقی اور ابن عساکر موجود ہے لیکن اسے صحیح نہیں کہا گیا.

اسی طرح الآجری فی الشریعہ میں اسے صحیح قرار نہیں دیا گیا

( دیکھیں: الآجری فی الشریعہ صفحہ 427،428 حدیث 956، دوسرا نسخہ جلد 3 صفحہ 1415)

حافظ ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے اس روایت کو بحوالہ ابو نعیم فی دلائل النبوۃ نقل کیا مگر صحیح نہیں قرار دیا، بلکہ عرش کے بارے میں صحیح احادیث کی تفسیر کے طور پر نقل کیا.

(مجموع فتاوی جلد 2 صفحہ 151،150)

کیونکہ حافظ ابن تیمیہ نے بذات خود اس روایت کی جرح کی اور فرمایا، مفہوم:

اس حدیث کی روایت پر حاکم پر انکار کیا گیا ہے،کیونکہ انھوں نے خود (اپنی) کتاب المدخل میں کہا:

عبدالرحمن بن زید بن اسلم نے اپنے باپ سے موضوع حدیثیں روایت کی...

(مجموع فتاوی جلد 1 صفحہ 255،254)

طاھر القادری صاحب کی 9 غلط بیانیوں کے تذکرے کے بعد عرض ہے کہ مستدرک الحاکم وغیرہ کی روایت مذکورہ موضوع (من گھڑت) ہے. حافظ ذہبی نے اسے موضوع کہا اور باطل خبر قرار دیا. حافظ ابن حجر عسقلانی نے خبرا باطلا والی جرح نقل کر کے کوئ تردید نہیں کی یعنی حافظ ابن حجر کے نزدیک بھی یہ روایت باطل ہے.

(لسان المیزان جلد 3 صفحہ 360 دوسرا نسخہ جلد 4 صفحہ 162)

جبکہ قادری صاحب نے یہ تمام جرحیں چھپا لیں یا غلط بیانیاں کیں؟

8. سیدہ عائیشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی طرف منسوب ایک روایت میں آیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سفید ٹوپی تھی جسے آپ پہنا کرتے تھے، وہ آپ کے سر اقدس پر جمی رہتی تھی.

(حوالہ: المنہاج السوی صفحہ 770 حدیث 985 بحوالہ ابن عساکر فی تاریخ دمشق جلد 4 صفحہ 193 دوسرا نسخہ جلد 4 صفحہ 333، کنز العمال جلد 7 صفحہ 121 حدیث نمبر 18285)

اس روایت کو طاھر القادری صاحب نے بطور حجت پیش کیا ہے، حالانکہ اسکی سند میں عاصم بن سلیمان الکوزی روای ہے جس کے بارے میں حافظ ابن عدی نے فرمایا:

یعد فیمن یضع الحدیث

مفہوم: اسکا شمار انلوگوں میں ہے جو حدیث گھڑتے تھے

(حوالہ: الکامل لابن عدی جلد 5 صفحہ 1877 دوسرا نسخہ جلد 6 صفحہ 412)

امام دار قطنی رحمہ اللہ نے فرمایا:

بصری کذاب عن ھشام وغیرہ

مفہوم: یشام (بن عروہ) وغیرہ سے روایت کرنے والا بصری جھوٹا ہے.

(حوالہ: الضعفاء والمتروکین: 412)

گویا قادری صاحب جھوٹے راویوں کی احادیث بیان کرکے اور مسائل ایسی روایت سے استنباط کر کے عوام الناس کو گمراہ کر رہے ہیں.

تفصیل ان شاء اللہ جاری ہے
manhaj-as-salaf
About the Author: manhaj-as-salaf Read More Articles by manhaj-as-salaf: 291 Articles with 448861 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.