پاکستانی قوم کو تقسیم کرنے کی ایک اور سازش
(Ghulam Murtaza Bajwa, Lahore)
اس وقت پاکستان میں دوجنگیں ایک
ساتھ چل رہی ہیں۔ایک فوجی آپریشن ’’ضرب عضب‘‘جوملک بچانے کیلئے شروع
کیاگیا۔تودوسری جنگ ’’اقتدار‘‘ کی جو سیاسی پارٹیوں نے شروع کردی ہے۔جوملکی
کے مفادات کے مخالف ہے۔’’اقتدار‘‘کی جنگ شروع کرنے والے بات توپاکستان کی
کرتے ہیں اور اپناسرمایہ دوسرے ملکوں میں رکھتے ہیں۔ملک میں بدلتی ہو ئی
سیاسی صورتحال نے پاکستانی عوام کو تقسیم کرناشروع کردیا ہے۔پاکستان مسلم
لیگ(ق)،عوامی مسلم لیگ،تحریک انصاف سمیت دیگرسیاسی جماعتوں کے قائدین
جوانقلاب کی بات کررہیں۔ان تمام جماعتوں کے کارکن قومی وصوبائی اسمبلیوں کے
ممبرہیں۔توپھرکسے خلاف جنگ کی جارہی ہے۔یہ قارئین کاکالم آخری حصے میں
بتاؤں گا۔لیکن اس پاکستان کی دوبڑی سیاسی پارٹیوں میں ہونے والی گفتگو پر
ایک نذر ڈالی جائے توپتہ چلے گا۔کیا ہونے والے ہے۔
پرویز رشید کہتے ہیں کہ پاکستان پیپلز پارٹی جب برسراقتدار تھی تو وہ سابق
صدر پرویز مشرف کے تمام اقدامات کو آئینی استثنیٰ دینا چاہتی تھی، مسلم لیگ
(ن) اس میں رکاوٹ بنی۔ پیپلز پارٹی اور پرویز مشرف کے درمیان کیا بات چیت
ہوئی، ہم اسکا حصہ نہیں، ہم نے پیپلز پارٹی کی خواہش کے باوجود پرویز مشرف
کے غیرآئینی اقدامات کو پارلیمنٹ میں استثنیٰ دینے سے انکار کیا، یہ سب کے
سامنے ہے۔ یوسف رضا گیلانی مشرف کو بچانا چاہتے ہیں۔ اگر مشرف کے پاس کوئی
معاہدہ ہے تو یہ عدالت میں پیش کرنے کا اچھا وقت ہے۔ پرویز مشرف نے کہا کہ
کسی شخص کو لانگ مارچ کے ذریعے حکومت بدلنے کی اجازت نہیں دی جائیگی، حکومت
صرف ووٹ کے ذریعے ہی بدلے گی۔ اگر لانگ مارچز کے ذریعے حکومتیں بدلنے کی
روایت قائم ہوگئی تو یہ سلسلہ ختم نہیں ہو گا۔ اس مرحلے پر میں یہ نہیں
کہوں گا کہ اس روز (14 اگست) کو کوئی تصادم ہوگا یا نہیں تاہم میرے خیال
میں عوام اس بارے میں عمران کا ساتھ نہیں دینگے، عمران خان یہ بات ذہن میں
رکھیں گے کہ تصادم سے انارکی پیدا ہو سکتی ہے۔ یہ کہنا قبل از وقت ہے کہ
عمران یا طاہر القادری کو لانگ مارچز سے روکنے کیلئے گرفتاری کیا جائیگا یا
نہیں۔ ہم صورتحال سے جمہوری انداز میں نمٹیں گے تاہم اس کے ساتھ ہی یہ بات
بھی ہے کہ کسی کو قانون ہاتھوں میں نہیں لینے دینگے۔
عمران خان اس وقت اپنی سیاسی بقا کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ اس وقت فوج پر تنقید
کرنا دہشت گردی کے مترادف ہے۔ جمہوریت کو کوئی خطرہ نہیں، خطرہ صرف دہشت
گردوں اور آمریت کے پروردہ لوگوں کو ہے۔ عوامی خدمت کی سیاست سے خوفزدہ
لوگوں کو بے چینی ہے۔ یلغار کے ذریعے تبدیلی نہیں لائی جا سکتی۔ تبدیلی
کیلئے انتخابات کا انتظار کرنا چاہئے۔ 14 اگست پاکستان کا قومی دن ہے، اس
دن پوری قوم کو ایک ہونا چاہئے۔ عمران خان کو چاہئے کہ احتجاج کیلئے کوئی
اور دن مقرر کرلیں۔ 14 اگست کو ڈی چوک اسلام آباد میں قومی تقریب ہوگی جس
میں عمران خان سمیت تمام سیاسی جماعتوں کو بھی بلایا جائیگا۔ اس پروگرام کا
فیصلہ ایک سال پہلے کیا گیا تھا۔ ہم نے جمہوریت کا دامن نہیں چھوڑنا مگر
کسی کو قانون بھی ہاتھ میں نہیں لینے دینگے۔ طاہر القادری کا اصل ایجنڈا
ملک میں فرقہ وارانہ فسادات کرانا ہے۔ پرویز مشرف کے معاملے میں ہم فریق
نہیں، انکا فیصلہ عدالت نے کرنا ہے۔ پاکستانی افواج اس وقت ملک کو پرامن
بنانے کا مقدس فریضہ سرانجام دے رہی ہیں۔ ہم سب کا فرض ہے کہ ان کے ساتھ
کھڑے ہوں۔ گزشتہ ایک سال میں پاکستان کی معیشت بہتر ہوئی ہے۔
پیپلز پارٹی کے رہنما قمر زمان کائرہ نے کہا ہے کہ پرویز مشرف کے ساتھ
اقتدار چھوڑنے سے متعلق سمجھوتہ ہوا تھا، نوازشریف بھی اس سمجھوتے کا حصہ
تھے۔ نوازشریف سمجھوتے کا حصہ نہیں تھے تو انکی حکومت نے پرویز مشرف کیخلاف
کیس کیوں نہ بنایا۔ پرویز مشرف کیخلاف مقدمہ عدالت کے ذریعے بنا پرویز مشرف
کیساتھ سمجھوتہ ہوا تھا کہ اقتدار چھوڑ دیتے ہیں تو انکے خلاف فوجداری کیس
نہیں بنے گا۔ لاہور میں تقریب سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا حکمرانوں کا
مزاج آمرانہ ہے، مسلم لیگ (ن) ذمہ داری کا مظاہرہ کرتی تو ایسے حالات پیدا
نہ ہوتے۔ احتجاج کرنے والی جماعتوں سے ڈائیلاگ کا راستہ اپنانا چاہئے۔
پیپلز پارٹی کے ترجمان سینیٹر فرحت اﷲ بابر نے سابق وزیراعظم یوسف رضا
گیلانی کے پرویز مشرف سے معاہدے سے متعلق بیان پر وضاحت دیتے ہوئے کہا ہے
کہ پرویز مشرف نے مواخذے کے ڈر سے استعفیٰ دیا تاہم پیپلز پارٹی نے کسی
کیساتھ کوئی ڈیل نہیں کی۔ فرحت اﷲ بابر نے کہا سابق صدر آصف زرداری نے
پرویز مشرف کے مواخذے کی دستاویز تیار کرنے کیلئے ایک کمیٹی تشکیل دی تھی
جس میں مجھ سمیت رضا ربانی اور شیری رحمان جبکہ مسلم لیگ (ن)کی جانب سے
اسحاق ڈار اور احسن اقبال شامل تھے جس کے بعد پرویزمشرف کو پیغام بھجوایا
گیا۔ انہوں نے اپنے مواخذاے کے ڈر سے استعفیٰ دینے کا فیصلہ کیا تاہم اس
سلسلے میں پیپلز پارٹی نے کسی بھی معاملے پر ان سمیت کسی کیساتھ کوئی ڈیل
نہیں کی تھی۔
اس تصادم اورانارکی کی جنگ میں پاکستانی عوام امن کہاں سے
لائیں۔مہنگائی،غیربت اور بیروزگارنوجوانوں کیلئے کوئی نئی خبر نہیں ملے
گی۔رمضان المبارک مہنگائی کرنے والے کون ہیں؟۔سرکاری خزانے پرکس نے ڈاکہ
ڈالنے والے کون ہیں؟۔اب اقتدارنہیں ملاتوانقلاب کیلئے عوام کو سبزباغ دکھنے
لگے۔لانگ مارچ کیلئے لاکھوں افرادکے فاقلے اسلام آباد کیلئے روانہ ہونگے جس
کا خرچہ پارٹیوں کے کارکنوں کے ذمہ ہوگا۔عیدپرغریب عوام کو گھر جانے کیلئے
گاڑیوں کی چھتیں کی نہیں ملتی۔ اگرسیاستدانوں نے ملک میں انقلاب لانا ہے تو
عید پرعوام کو مفت سفرسہولیات فراہم کریں۔تاکہ ہرمحنت کش باآسانی اپنے اپنے
آبادئی علاقے اپنے خاندان میں کرسکے۔ورنہ سب حسب روایت اقتدار کی جنگ جاری
رہے گی۔عوام کو تو پہلے ہی ظلم سہنے کی عادت ہے۔سیاستدانوں کا ڈرامہ لگنے
کی۔احتساب سے بچانے کیلئے ایک سازش کے تحت پاکستانی قوم کاتقسیم کیا
جارہاہے کہ اگریہ قوم متحدرہی تو سب چوروں کا احتساب ہوگا۔ |
|