المناک تاریخی انجام سے پہلے
(Sami Ullah Malik, London)
دنیا کی پانچ ہزار سالہ معلوم
تاریخ میں مہاراجہ رنجیت سنگھ وہ واحد حکمران نظر آتا ہے جس نے اپنے دور
حکومت میں کسی قسم کی کوئی سول ایڈمنسٹریشن نہیں بنائی تھی۔ وہ برصغیر کا
پہلا حکمران تھا جسے انگریز کی طرح ایک ریگولرفوج رکھنے کا شوق جنون کی حد
تک تھا۔اس سے پہلے خواہ وہ خلجی تھے یا تغلق، غوری تھے یا مغل سب نے دس
ہزاری اور پانچ ہزاری جیسے منصب مقررکئے ہوئے تھے۔جنگ پر روانہ ہونے لگتے
تو انہی منصب داروں کو دس ہزار اور پانچ ہزار افراد جمع کرنے کے لیے کہتے
اور پھر جنگ پر نکل کھڑے ہوتے لیکن رنجیت سنگھ کو برطانیہ اور فرانس کی
طرزپر فوج منظم کرنے کا ایسا جنون تھا کہ اس نے لاہور شہر کے باہر شالامار
باغ کے ساتھ ایک جگہ جسے بدھو کا آوا کہتے ہیں وہاں افواج کا ایک ہیڈکوارٹر
بھی قائم کردیا تھا اور جنرل ونچورا جیسے افراد کو یورپ سے بلا کر فوج کی
تنظیم اور ترتیب کی نگرانی سونپی تھی۔
رنجیت سنگھ فوج کو ہر مرض کی دوا سمجھتا تھا۔وہ اس امرت دھارا پر اس قدر
بھروسہ کرتا کہ اس نے ان تمام سول اداروں کو ختم کردیا جو اس سے پہلے
ہزاروں سال سے ہندوستان کے حکمرانوں نے یہاں قائم کئے تھے جن میں اشوک کے
مہامیر ’’شیر شاہ سوری ‘‘کے پرگنہ داراور مغلوں،خلیجوں اور تغلقوں کے
کوتوال تک شامل تھے۔اپنی زیر نگیں سلطنت میں جہاں بھی کوئی مسئلہ پیش آتا
وہ اسے حل کرنے کے لیے فوراًملٹری ہیڈکوارٹر سے رجوع کرتا اوربدھو کے آوے
سے فوج اسے حل کرنے کے لیے روانہ ہو جاتی۔ مالیہ وصول کرنا، لگان سے انکاری
لوگوں کے خلاف کارروائی کرنا ہو، دو لوگوں یا پھر دو گروہوں کے درمیان جنگ
ہو، ڈاکوؤں کا صفایا کرنا ہو یا پھر چوری ڈکیتی کی تفتیش، ہر معاملے میں
فوجی افسران کی صلاحیتوں کو آزمایا جاتا۔ اس سول ایڈمنسٹریشن کے خلا ء اور
فوج پر مکمل بھروسہ سے جو نتائج نکلے اور جو خوفناک انجام رنجیت سنگھ کی
اولاد اور سکھوں کی حکومت کا ہوا وہ تاریخ کا ایک المناک باب ہے۔
کیسے چار دفعہ بدھو کے آوا سے فوج روانہ ہوئی، اپنے ہی دارالحکومت لاہورکو
فتح کیا، ایک کو تخت سے اتارا، اسے سیکورٹی رسک قرار دیا اور دوسرے کو بٹھا
دیا۔ کبھی کھڑک سنگھ کی جگہ نونہال سنگھ تو نونہال سنگھ کی جگہ چاند کورپھر
دو ماہ بعد چاند کور کی جگہ شیر سنگھ ،مطمئن نہ ہوئے تو اس کی جگہ ہیرا
سنگھ اور پھر جواہر سنگھ اور آخر میں نوسالہ دلیپ سنگھ لیکن اس سارے عرصے
میں پولیس،انتظامیہ اور سول ایڈمنسٹریشن کا کام بھی فوج ہی کرتی رہی اور
حکمرانوں کو تخت سے اتارنے بٹھانے کا کام بھی لیکن یہ سب کچھ کرنے کا ایک
نقصان ایسا ہوا جس کا نتیجہ سکھ حکومت کے خاتمے کی صورت میں نکلا۔ فوج ویسی
ہی نفرتیں، ویسے ہی سکینڈل اور ویسی ہی بدنامیاں سمیٹتی رہی جو پولیس،
انتظامیہ اور سول ایڈمنسٹریشن کے حصے میں آتی ہے۔اس کی عزت و تکریم اسی طرح
سوال بن گئی جیسی ان محکموں کی بنا کرتی ہے۔اسی لیے جب سکھ انگریز نے پنجاب
پر قبضہ کرنے کے لیے حملہ کیا تو تاریخ یہ سفاک منظر پیش کرتی ہے کہ بھاگتے
ہوئے سپاہیوں کو کوئی پناہ نہیں دیتا تھا۔لاشیں بکھری ہوتی تھیں تو سوائے
اپنے سپاہیوں کے کوئی آخری رسوم تک ادا نہ کرتا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ پہلے
ہی حملے میں ہزاروں کے قریب سکھ سپاہی جان کی بازی ہار گئے اور بھاگتے
بھاگتے اپنی سلطنت کے دوسرے کنارے جاپہنچے۔
انگریز نے اس پچاس سالہ سکھ دور کا گہرا مطالعہ کیا۔اسے علم تھا کہ اس سارے
دور میں نفرت کیسے سمیٹی گئی اور شکست کیسے مقدر ہوئی۔ اسی لیے اس کا سب سے
پہلا کام لارڈ میکالے کی سربراہی میں ایک کمیشن کا قیام تھا جو برصغیر کو
ایک آزاد، منصف مزاج اور تعصب سے بالاتر سول ایڈمنسٹریشن عطا کرے۔قانون
بنے،ضابطہ فواجداری، تعزیرات ہندو اور ضابطہ دیوانی وغیرہ اور پھر ایک ایسی
سول انتظامیہ کو ترتیب دیا گیا جو کسی بھی قسم کی سیاسی مداخلت سے بالاتر
ہو، جو نفرت کے سیلاب کو روکنے کی صلاحیت رکھتی ہو اور اس ملک پر حکمران
انگریز کے خلاف غم و غصہ کو مختلف راستوں میں ڈھالنے کی تراکیب جانتی ہو۔
اسی لیے انگریز کے خلاف بڑی سے بڑی تحریکیں چلیں، جلوس نکلے، جلاؤ گھیراؤ
ہوا لیکن چند ہی ایک ایسے مواقع تھے جہاں فوج کو کرفیو کے لیے بلوایا گیا
ہو اور وہ بھی صرف چند دن کے لئے ۔یہی وہ کار گر نسخہ تھا کہ۱۸۵۷ء کے غدر
یا جنگ آزادی کے بعد پھر نہ تو فوج میں کوئی ایسی ریشہ دوانی پیدا ہوئی اور
نہ ہی لوگوں کی کوئی نفرت سیلاب بن کرفوج کے سامنے آکر کھڑی ہوئی۔
یہی آزاد انتظامیہ مدتوں اس مملکت خداداد پاکستان میں روز مرہ کی نفرتیں
بھی سمیٹی رہی اور حکومتوں کے خلاف اٹھنے والے سیلاب کا بھی سامنا کرتی رہی۔
یہ انتظامیہ نہ تو سیاسی تھی اور نہ ہی اس کا کوئی ایجنڈا تھاکہ وہ لوگوں
میں مقبول ہو۔ حکومت بدلتی تو یہ بھی اس کے ساتھ بدل جاتی۔ اسے اپنی
حدوداور ذمہ داریوں کا علم تھا کہ سیلاب کو کیسے روکنا ہے،نفرتوں کا کیسے
سامنا کرنا ہے۔اسی لیے ۱۹۵۳ء سے لے کر آج تک جتنی بھی تحریکیں چلیں ان میں
نفرت کا رخ بھی ایک ہی سمت رہا اور غصے کا لاوا بھی ایسا شدید نہ ہوسکا کہ
گلیوں، بازاروں، چوراہوں پر حکومت نام کی کوئی شے نظر نہ آئے۔
یہ سب کیسے ہوگیا۔ سیلاب اتنا شدید کیوں کر آیا کہ سب کچھ بہا کر لے گیا۔
تحریکوں، انقلابوں اور عوامی غیض و غضب کی تاریخ بڑی عجیب ہوتی ہے۔ فرانس
ہو یا انگلستان، روس ہو یا ایران، کئی سالوں کا ایک غصہ ہوتا ہے جو دلوں
میں پل رہا ہوتا ہے۔ہر شخص کا اپنااپنا دکھ اور اپنی اپنی درد بھری کہانی
ہوتی ہے اور پھر ایک واقعہ اسی سلگتی آگ پر پٹرول کا کا م کرتا ہے اور آگ
یوں بھڑک اٹھتی ہے کہ عمارتوں اورانسانوں کے جنگل اس کی لپیٹ میں آجاتے ہیں
لیکن پہلے اس آگ پر پانی ڈالنے،اسے ٹھنڈا کرنے اور اس کو راستہ دینے کے لیے
ایک آزاد اورمضبوط انتظامیہ موجود ہوتی تھی جو کسی نہ کسی حد تک خواہ کچی
ہی سہی ایک دیوار کا کام ضرورکرتی تھی۔ لیکن ہمارے عالی دماغ لوگوں نے قوم
کو ایک ایسا سسٹم تحفے میں دیا کہ جس پر لوگوں کا ایسے معاملات میں اعتماد
ہی قائم نہ ہوسکا۔کراچی جوروشنیوں کاشہرتھا،برسوں سے رینجرزکے پاس ہے اوراب
تومرکز نے صوبائی حکومت کے صلاح مشورہ سے خصوصی آپریشن بھی شروع کررکھاہے
لیکن نتائج سب کے سامنے ہیں۔سوات آپریشن کے بعدآج تک وہاں فوج بیٹھی ہوئی
ہے اوراب شمالی وزیرستان میں ۲۵سے ۳۰ ہزارفوجی اہلکارفوجی آپریشن میں مصروف
ہیں تاہم آپریشن مکمل کرنے کے بعدوہاں مستقل قیام کیلئے کنٹونمنٹ بنایاجائے
گاجہاں فوج کاکم ازکم ایک بریگیڈرکھاجائے گاجودس ہزارفوجیوں پرمشتمل ہوتاہے۔
منتخب سیاسی حکومت کاکام ہے کہ وہ ایسانظام متعارف کرواتی لیکن اب تواس کے
برعکس وہ سب کچھ ہوگیا جو گزشتہ۶۶ سالہ تاریخ میں نہیں ہوسکاتھا۔ جیلیں
ٹوٹیں، ہزاروں گاڑیاں جلیں، مکان،بنک، سرکاری عمارتیں، ٹرینیں جل کر خاکستر
ہو گئیں۔ اس دن اس بات کا احساس ہوا کہ ہمارے پاس تو کسی قسم کی سول
ایڈمنسٹریشن موجود ہی نہیں، ایسے میں اس خلا کوپرکرنے کیلئے فوج کوسامنے
لایاگیاہے لیکن میرا خوف اور میرا ڈر اپنی جگہ ہے۔نفرت کے سیلاب کی آنکھیں
نہیں ہوتیں،اس کے سر میں دماغ بھی نہیں ہوتا اور عوامی غیض و غضب کے سینے
میں درد مند دل بھی نہیں دھڑکتا۔ یو ں تو بس سیلاب ہوتا ہے اندھا گونگا،
بہرا، مستقبل سے بے نیاز اور حال کے غصے کا غلام۔اس سیلاب کو اگر راستہ نہ
دیا گیا، اس کو ٹھنڈا کرنے کی کوشش نہ ہوئی، اس کے جذبات کو آواز نہ ملی تو
رنجیت سنگھ اور اس کے جانشینوں کے انجام کی تاریخ کو تو خبر ہے۔اﷲ ہمیں،اس
ملک کو خدا د اد پاکستان اور اسی کی عزت و توقیر کو تاریخ کا حصہ ہونے سے
بچائے، ہم پر رحم کرے، ہماری خطائیں معاف کرے۔ثم آمین
میں اعتدال کا قائل تو مدتوں سے تھا
وہ شخص پھر بھی خفا میری وحشتوں سے تھا
مجھے خبر ہی نہیں زخم کتنے گہرے تھے
مرا تو رابطہ فقط اس کے مرہموں سے تھا |
|