امید بہار رکھ
(Shaikh Wali Khan Almuzaffar, Karachi)
اب اس بحث میں پڑنے کا توشاید
کوئی فائدہ نہیں ہوگا کہ مالا کنڈکے موجودہ المیے کا سبب کون بنا؟
عسکریت پسند یا عسکری قوت؟ عوام، علماء، حکمران اور سیاست دان جو اس المیے
کوگزشتہ ایک عرصہ سے رونما ہوتا دیکھ رہے تھے، انہوں نے اسے ٹالنے کے لیے
کیا کردار ادا کیا؟ـوہ کوئی کردار ادا کر بھی سکتے تھے یا نہیں؟ اس میں کس
فریق کے ساتھ اندرونی اور بیرونی ہمدردوں کی کتنی اور کیسی ہمدردی، رہنمائی،
ہمراہی ا ورہمنوائی رہی ہے؟ اس حوالے سے بھی کچھ کہا جا سکتا ہے، نہ کچھ
کہنے کا فائدہ ہے۔
اس وقت افواجِ پاکستان سوات کے عسکریت پسندوں کو ’’راہ راست‘‘ پر لانے اور
وزیرستان کے طالبان کو ’’راہِ نجات‘‘ دکھانے کی فیصلہ کن مہم پرہیں۔ یہاں
بھی بے شمار سوالات ہیں، طالبا ن اور مجاہدین کون ہیں؟ ان کے مقاصد کیا ہیں؟
ان میں اچھے کتنے ہیں اور برے کتنے ہیں؟ وہ کوئی حقیقی طاقت ہیں یا تصوراتی؟
اگر حقیقی ہیں تو ان کو کتنا نقصان ہوا اور ہو رہا ہے؟ اس خانہ جنگی کا ذمہ
دار کون ہے؟ اور کیا اس طرح عسکریت پسندی ختم بھی ہو جائے گی یا اس میں
مزید اضافہ ہوگا؟ یہ جنگ ہماری اپنی ہے یا غیروں کی؟ یہ ساری چیزیں اِمکان
و احتمال کے درجے میں ہیں، صرف اتنی بات طے ہے کہ بے شمار لوگوں کو’’ براہِ
راست ‘‘ خالق حقیقی سے ملانے اوردنیوی زندگی سے’’ نجات‘‘ دلانے کا عمل اپنے
جوبَن پر ہے۔
قوموں کی زندگی میں ایسے حالات آتے رہتے ہیں اور ان حالات میں مقتدر اور با
اختیار قوتوں کی آزمائش ہوتی ہے، چنانچہ ان کے فیصلوں کی بنیاد پر قومیں
عروج یا زوال کی راہ پر چلتی ہیں اور دوسروں کے لیے نشانِ راہ چھوڑجاتی ہیں
یاخود نشانِ عبرت بن جاتی ہیں۔ وطن عزیز میں اس وقت جو صورتِ حال ہے وہ
قیادت کے فقدان اور بیرونی مداخلت کا ایسا منہ بولتا ثبوت ہے کہ اس کی
نظیرماضی میں حقیقتا ً(نہ کہ مبا لغۃً )نہیں ملتی۔ نفاذ شریعت کے لیے مسلح
جد وجہد کے قائل اور حامی لوگوں سے اختلاف اپنی موت کو دعوت دینے کے مترادف
ہے، فوجی قیادت سے اختلاف رائے بھی اپنے پروانۂ موت پر دستخط کرنے سے کم
نہیں ہے۔ گویا ہر طرف موت ہی موت ہے اور دلیل وبرہان، مشاورت اور مفاہمت کی
راہیں مسدود اور معدوم ہوتی جا رہی ہیں۔
حالات سے غافل رہیں توبزدلی اور کم ہمتی کا احساس ڈستا ہے اور اگر باخبر
رہیں تو مایوسی اور دل شکستگی بے چین کر تی ہے۔ تاریخ کے اوراق میں موجود
جنگوں، المیوں، مصیبتوں اور فتنوں کی وہ داستانیں جو کبھی گرمیٔ محفل کے
لیے سنائی جاتی تھیں، جوش خطابت میں غازی ٔگفتار اور زور کتابت میں قلم کے
شیروں کا سرمایہ تھیں، آج سمعی وبصری آلات کے ذریعے اور بہ چشمِ خودہزاروں
المیے دیکھ دیکھ کر وہ سب ہیچ معلوم ہوتی ہیں۔
موجودہ آپریشن کے بعد قوم کتنی راحت محسوس کر تی ہے؟ یہ آنے والے دن بتائیں
گے، البتہ آج نصف کروڑ اہل وطن اس سے جس قدر متاثر ہیں، اس کا اندازہ لگانا
مشکل ہے۔اس وقت بظاہر تو وہی فتنے والی صورتِ حال ہے کہ کوئی حل کسی کی
سمجھ میں نہیں آرہا ہے، بہر حال رجائیت اور امیدِ خیر کو کسی طرح ہاتھ سے
جانے نہیں دینا چاہیے اور جو ہوا اور ہو رہا ہے بجائے اس پر رونے دھونے کے
حالات کی اصلاح، صورتِ حال کی بہتری، متاثرین کی مدد اور معاونت، اجتماعیت
کو فروغ دینے اور وحدت ویکجہتی کا ثبوت دینے کی اپنی بساط کے مطابق کوششیں
کرنی چاہییں۔
ہر فرد اور ہر جماعت کو بغاوت و نفرت کے خاتمے، امن وبھائی چارے، الفت
ومحبت کے فروغ کے لیے اپنی صلاحیتیں صرف کر نی چاہییں، دعاؤں اور توبہ و
استغفار کا اہتمام کرنا چاہیے، بعید نہیں کہ اﷲ تعالی قوم اور امت کے حق
میں کوئی بہتر فیصلہ فرمادے، اس لیے کہ پاکستان بہر حال امت کی امیدوں کا
مرکز اور مسلمانوں کا گھر ہے، جسے قائم، خوش حال اور روبہ ترقی رہنا چاہیے
اور اس کے لیے ہمارا اجتماعی اور انفرادی کردار بڑی اہمیت رکھتا ہے، سو
’’پیوستہ رہ شجر سے امیدِ بہار رکھ ‘‘کا نمونہ بننے اور بنانے کی آج جتنی
ضرورت ہے شاید پہلے کبھی نہ رہی ہو۔ |
|