ابن سینا کے ایک راوی صادق بیان کرتے ہیں۔
ابن سینا کہتے ہیں میں کبھی کسی سے قائل نہیں ہوا، مگر ایک خاکروب نے مجھے
لاجواب کر دیا۔ میں ایک صبح سیر کو جا رہا تھا۔ کیا دیکھتا ہوں کہ ایک
خاکروب گندگی دھو رہا ہے اور بڑے شوق سے یہ شعر پڑھ رہا ہے۔
جھانک مت اے نفس ذلت کی طرف
جی اگر جینا ہے با عز و شرف
تجھ کو آلودہ و نات سے کبھی
ہونے میں دونگا نہیں تا زندگی
میں یہ شعر اس سے سن کر بڑا متعجب ہوا کہ یہ شخص کام کیا کر رہا ہے اور کہہ
کیا رہا ہے۔ غلاظت دھونا اور دعویٰ شرافت کرنا عجب حماقت ہے۔ مجھ سے رہا نہ
گیا چنانچہ میں نے اسے کہہ دیا کہ اپنا کام دیکھ اور سوچ کہ تو اس دعویٰ
میں کہاں تک حق بجانب ہے۔ خاکروب یہ سن کر بولا۔اے ابن سینا! آپ کو زیب
نہیں دیتا کہ آپ اس طرح بات کریں۔ اتنے بڑے فاضل، عاقل، کامل فلسفی اور
ادیب ہو کر آپ بادشاہوں کے حضور قصور واروں کی طرح ہاتھ باندھے کھڑے رہتے
ہیں۔ اور کچھ غیرت اور شرم محسوس نہیں کرتے۔آہ! آپ نے اپنے علم و ہنر کو
دھبہ لگا دیا اور شرافت کی لٹیا ڈبو دی۔ اگر خوداری رکھتے تو بادشاہ اور
وزیر خود آپ کے پاس کھچے چلے آتے۔ دیکھو! میں کسی کا غلام نہیں۔ اپنی نیند
سوتا اور اٹھتا ہوں۔ شریف وہی ہے جو اپنے دستِ بازو سے کما کر کھائے۔ کسی
کے آگے ہاتھ نہ پھیلائے۔ مزدوری کا کام خواہ کیسا ہی کیوں نہ ہو دنائیت کی
دلیل نہیں ہو سکتا۔ شرافت انسان کی ذات میں ہے کام میں نہیں۔ انسان کو ایسا
وطیرہ اختیار کرنا چاہیے جس سے لوگوں کی نظروں میں خوار نہ ہو۔ خاکروبی
ذلیل پیشہ سمجھا گیا حالانکہ نوکری اس سے ذلیل تر ذلت ہے اور گدائی سب سے
زیادہ۔ اے ابن سینا! افسوس آپ کو ابھی تک عزت و ذلت میں تمیز نہیں۔ یہ سن
کر میں لاجواب ہو گیا اور میرے پاؤں شرم کے مارے زمین میں گڑ گئے۔ اس نے جو
کہا اس کی تردید میں کسی خوشامدی اور غلام کو لب کشائی کی جرات نہیں ہو
سکتی۔ غالب نے کیا خوب کہا تھا۔
کعبہ کس منہ جاؤ گے غالب مگر شرم تم کو نہیں آتی
غیرت اور شرم محسوس نہ کرنا، قصورواروں کی طرح سرجھکائے ہاتھ میں پیالہ لیے
گداگری کرنا، نہ خوداری نہ ذلت کا احساس اور اوپر سے خوش ہونا۔ خواری پر
خوشی اور غلامی کو دانائی کو تصور کر بیٹھے ہیں۔ پاکستان کی کابینہ میں
کیری لوگر بل کی منظور کے بعد صدر، وزیراعظم، وزیرخارجہ، وزیر اطلاعات
ونشریات، وزیر برائے پارلیمانی امور اور دیگر وزراء اسکو تاریخی واقعہ قرار
دے رہے ہیں۔ پیپلز پارٹی کی حکومت جس چیز کو عظیم کارنامہ بتارہی ہے وہ
اتنی قابل ستائش بات نہیں جس پر فخر کیا جائے۔آٹا، چینی کی قلت، مہنگائی،
ناانصافی، لاقانونیت، بم دھماکے، ڈرون حملے، بلیک واٹر، امریکیوں کی
پاکستان میں پرُاسرار سرگرمیاں، پاکستانی دفاع کو درپیش خطرات اور کیری
لوگر بل قوم سراپا احتجاج ہے وہاں حکومت کا خوشیاں منانا باعث حیرت ہے۔
شاید عزت و ذلت میں تمیز بھی نہیں آتی۔
وال سٹریٹ جنرل نے 16اکتوبر کو کیری لوگر بل پر تبصرہ کرتے لکھا کہ”امریکہ
نے پاکستان کی آنکھوں میں کیری لوگر بل کے ذریعے پنجے گاڑ دیئے ہیں“۔اخبار
کے مطابق 152 ارکان پر مشتمل ایوان میں بھارتی لابی بھی موجود تھی۔اس میں
بعض مخصوص اور توہین آمیز شرائط جن سے پاکستان کے عسکری حلقوں نے ناراضگی
کا اظہار کیا۔ ان بگڑے ہوئے حالات میں حکومت کی سنجیدگی کا بخوبی اندازہ
لگایا جا سکتا ہے کہ اس نازک مرحلے پر انہوں نے این آر او کا ڈول بھی گلے
میں ڈال لیا تاکہ عوام اور میڈیا کی توجہ کو تقسیم کیا جا سکے۔ وزیرستان
آپریشن کا آغاز ہوتے ہی امریکیوں نے پاک افغان سرحد سے اپنی پوسٹیں خالی کر
دیں تاکہ وزیرستان کے دہشت گرد آسانی سے آر پار جا سکیں اور انہیں
افغانستان سے بھی بغیر کسی رکاوٹ کے مدد ملتی رہے۔ اس کے باوجود حکومت
سوائے امریکی خوشنودی کے علاوہ اور کوئی ایجنڈہ نہیں رکھتی۔ اس امریکی ساتھ
کو چھ دہائی گزر چکی ہیں۔ اس ذلت نے ایک بازو کٹوا دیا۔ ساتویں بحری بیڑے
کی آس میں سیاسی عدم استحکام کے مرکز میں بدل ڈالا۔ ہمارے مضبوط بازوئے
شمشیر قبائلی علاقے کو دشمن کے اڈے میں بدل کر پہلے طالبان کو روس کے خلاف
نام نہاد جہاد کے نام پر بنایا بعد ازاں ان ہی طالبان کے خلاف دہشت گردی کی
جنگ کا ہوا کھڑا کر کے ان کو مار رہے ہیں۔ ہم لہولہان ہو چکے ہیں۔ نجانے
مزید کتنی مار، رسوائی ہمارے مقدر میں ہے اور کتنے ہی دھماکے ہمارے منتظر
ہیں۔
پاکستانی علاقوں میں شورش برپا کر کے اسے اندرونی طور پر عدم استحکام کا
شکار بنا دیا گیا ہے۔ بلوچستان سمیت سرحدی و قبائلی علاقوں میں سی آئی اے،
موساد اور را (شیطانی تکون)مشترکہ طور پر دہشتگردوں کو امداد فراہم کرنے
میں مصروف ہیں۔ امریکہ کا وطیرہ رہا ہے کہ وہ بیک وقت کئی منصوبوں کو آگے
بڑھاتا ہے۔ ایک کی ناکامی کے بعد دوسرا، دوسرے کے بعد تیسرا لیکن اصل ہدف
کو نہیں بھولتا۔ یہ اسی منصوبہ بندی کے تحت ہو رہا ہے تاکہ دنیا کی نظر میں
پاکستان کا امیج ایک دہشت گرد ملک کے طور پر پیش کیا جا سکے اور اس کو
شکنجے میں کس کر جوہری طاقت سے محروم کر دیا جائے۔ اس بل میں کہا گیا ہے کہ
امریکہ، حکومت پاکستان کے ساتھ تعاون جاری رکھے گا کہ پاکستان جوہری
ہتھیاروں سے متعلق مواد کی منتقلی کے نیٹ ورک کو منہدم کرنے میں کردار ادا
کرے۔ مثلاً اس سے متعلقہ معلومات فراہم کرے یا پاکستانی قومی رفاقت جو اس
نیٹ ورک کے ساتھ ہے تک براہ راست رسائی دے۔ پڑوسی ممالک میں حملوں کی روک
تھام، مختلف حصوں بشمول کوئٹہ اور مریدکے میں موجود دہشت گرد ٹھکانوں کا
مکمل خاتمہ جیسی شرائط کو 1.5ارب ڈالر کی کیری لوگر بھیک کے بدلے مان لینا
ایسا ہی ہے جیسے کہ ہم جوہری ہتھیاروں کی منتقلی میں ملوث، دہشتگردی ہماری
پیداوار ہے اور ہم ہی اس کی پشت پناہی کرنے والے ہیں۔ اب تو ہمیں دوست اور
دشمن کی پہچان ہو جانی چاہیے۔ |