پاکستان کے خلاف متوقع امریکی منصوبہ بندی

عزیز ہم وطن ساتھیو، میری ان گزارشات سے یقیناً بہت سارے لوگ اتفاق کریں گے اور کئی ساتھی شاید ان سے متفق نہیں ہوں گے۔ آپ لوگوں سے گزارش ہے کہ دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ میرے ان خدشات کو ہمیشہ خدشات ہی رکھے اور یہ کبھی صحیح ثابت نہ ہوں۔

9/11 کے امریکی جڑواں ٹاورز پر حملوں اور ان کا الزام مسلمانوں پر لگانے کا امریکی منصوبہ صرف اس اصول پر کامیاب ہوا کہ جھوٹ اتنا زیادہ بولو کہ وہ سچ لگنے لگے۔ چنانچہ ان حملوں کا الزام القاعدہ پر اس شدت سے لگایا گیا کہ وہ میرے سمیت سب کو سچ لگنے لگا۔ جبکہ میڈیا میں سینکڑوں ایسی تحقیقات موجود ہیں جو اس ڈرامے کو جھوٹ کا پلندہ ثابت کرتی ہیں۔ مثال کے طور پر آپ یو ٹیوب پر ہی " fraud 9/11" اور"nine eleven conspiracy" کے نام سے تلاش کریں تو بے شمار ایسی رپورٹیں دیکھ سکتے ہیں، جن کی رو سے یہ امریکی منصوبہ سازوں کا سوچا سمجھا منصوبہ تھا، جس کی بنیاد پر مشرق وسطی میں امریکی حملے کی راہ ہموار کی گئی۔

آپ لوگ جانتے ہیں کہ امریکہ نے عراق پر حملہ کر کے اسے تباہ و برباد کر دیا۔ جن خطرناک ترین اور انسانیت کے لیے مہلک ہتھیاروں کا پروپیگنڈا کیا گیا، وہ سب جھوٹ کا پلندہ ثابت ہوا۔ عراق سے نہ کوئی میزائل برآمد ہوا اور نہ ایٹمی تنصیبات اور نہ ہی کسی قسم کا مہلک اسلحہ۔ اس کے باوجود امریکہ تاحال عراق میں موجود ہے۔

اسی طرح افغانستان پر حملے کے لیے نہایت بھونڈے انداز میں یہ ثابت کیا گیا کہ القاعدہ شاید دنیا کی آٹھویں یا نویں ایٹمی طاقت بننے والی ہے۔ اس بنیاد پر افغانستان کی اینٹ سے اینٹ بجا دی گئی۔ اور ہم سادہ لوح لوگ واقعی اس انتظار میں رہے کہ ہو سکتا ہے القاعدہ نے کوئی ڈرٹی بم بنا لیا ہو جس کے ساتھ وہ امریکہ کو تباہ و برباد کردے۔ لیکن ایسا کچھ نہیں ہوا، بلکہ ہم نے اپنی ہی بربادی کے طویل ترین امریکی منصوبے کو کامیاب بنانے کے لیے دن رات ایک کردیا۔

واقفان حال اور امریکی منصوبہ بندی کو کچھ نہ کچھ سمجھنے والے قلم کار شور مچاتے ہی رہ گئے کہ اصل امریکی منصوبہ کچھ اور ہے اور بظاہر کچھ اور، لیکن ہم نے اپنے کان اور آنکھیں بند کرلیں۔ تھوڑا سا دماغ اگر استعمال کیا جائے تو آسانی سے اس منصوبے کو سمجھا جا سکتا ہے۔ زیادہ دور جانے کی ضرورت نہیں ہے۔ صرف اسی بات پر غور کریں کہ اچانک پاکستان سے ایک ایسی حکومت کو جو خالص جمہوری تھی اور پاکستان کی تاریخ میں شاید عوام کی زبردست ترین تاریخی حمایت کے نتیجے میں وجود میں آئی تھی، غیر جمہوری طریقے سے ختم کردیا گیا۔ اس کے لیے ایسے بلا جواز الزام تراشے گئے جو سراسر حقیقت کے خلاف تھے۔ پاکستان کے ان سارے لیڈروں کو جو قوم کو کسی نہ کسی انداز میں غیر جمہوری قوتوں کے خلاف کھڑا کر سکتے تھے، غیر مؤثر کر دیا گیا۔ پاکستان کی دو بڑی جماعتوں کو تقسیم کر دیا گیا۔ پیپلز پارٹی جو بدترین حالات میں بھی اتحاد اور اتفاق کی مثال بنی رہی، اس میں کئی ذیلی پارٹیاں بنانے کے لیے میر صادق اور میر جعفر ڈھونڈ لیے گئے۔ ایک طرف معمولی الزامات میں مسلم لیگ کے لیڈروں کو ملک بدر کر دیا گیا اور دوسری طرف پیپلز پارٹی جس پر زیادہ شدید الزام لگا کر ہمیشہ کے لیے اس کے لیڈروں کی کہانی ختم ہونے کا اعلان کیا گیا تھا، اس کے ساتھ معاہدہ کر کے، ایک منصوبے کے تحت الیکشن اس انداز سے جتوانے کی منصوبہ بندی کی گئی کہ اس کی محبوب لیڈر جو کچھ سیاسی بصیرت رکھتی تھی، وہ منظر عام سے غائب ہو جائے۔ چنانچہ یہی ہوا، بے نظیر کو قربان کر دیا گیا اور اقتدار ایسے لوگوں کے حوالے کیا گیا جو امریکی منصوبہ بندی کے راستے میں رکاوٹ نہ ڈال سکیں۔

اس طرح سے تمام امریکی منصوبوں کی کامیابی ممکن ہو سکی جو اس خطے میں امریکہ کے طویل قیام کے سلسلے میں معاون ہو سکیں۔ کشمیر کے سلسلے میں پاکستان کے مبنی پر حقیقت مؤقف کو ختم کر دیا گیا۔ حکومت پاکستان اور پاکستان کے لیڈران جو سارا سال کشمیر ہمارا ہے کے نعروں‌سے اپنے جلسوں کو گرماتے تھے، اچانک بھول گئے کہ کشمیر بھی کوئی مسئلہ تھا۔ پاکستان کو اس کے گھر کے اندر ایک ایسی نہ ختم ہونے والی جنگ میں دھکیل دیا گیا، جس میں پورا ملک جلنے لگا ہے۔

چند حیران کن حقائق کے بارے میں آپ بھی ذرا سوچیں:

کشمیر کا جہاد ساٹھ سال سے جاری ہے۔

افغانستان میں مجاہدین بیس پچیس سال سے جہاد شروع کیا ہوا تھا۔ روس کے خلاف بھی اور مقامی لیڈروں کی آپس کی خانہ جنگی بھی تھی۔

ہندوستان کے خلاف پاکستان کے عوام کی کبھی دو رائیں نہیں رہیں۔

پاکستان اور دوسرے اسلامی ممالک کے مجاہدین جن کی کئی عشروں سے پاکستان کے جہادی کیمپوں میں تربیت ہورہی تھی ، کسی نے بھی کبھی روس، ہندوستان یا افغان سرداروں کے خلاف کوئی خود کش حملہ نہیں کیا۔ تمام مجاہدین اس بات پر متفق تھے کہ ایسی کوئی کوشش بھی اسلامی تعلیمات کے مطابق نہیں ہے۔ (سوائے چند انتہائی حالات کے) اور کبھی کسی مجاہد نے اپنی کسی گفتگو میں اس قسم کا کوئی ارادہ ظاہر کیا۔ پاکستان کے تمام علما بھی ہمیشہ ایسے حملوں کے خلاف رہے۔

پھر یہ کون لوگ ہیں؟

ذہن کو ماؤف کرنے والی جو دوائیں صرف امریکی ایجنسیوں کے زیر استعمال ہوتی ہیں، وہ ان خود کش بچوں کو کون دے رہا ہے۔

ہر حملے میں کسی نہ کسی خود کش کا سر اور دھڑ مل رہا ہے لیکن ایک بار بھی حکومت پاکستان نے ایسی کوئی دستاویز عوام کے سامنے کیوں پیش نہیں کی جس سے ثابت ہو کہ یہ مجاہدین ہی کا کام ہے۔

ہر حملے میں گرفتار، زخمی اور مرنے والے افراد ہمیشہ کے لیے منظر عام سے کیوں غائب ہو رہے ہیں۔ ان کو میڈیا کے سامنے کیوں پیش نہیں کیا جاتا۔ ان کی کبھی نہ تو واضح شناخت پیش کی گئی اور نہ کسی اسلامی تنظیم سے ان کا تعلق ثابت کیا جا سکا۔

کتنے ہی بھارتی ایجنٹوں کی گرفتاری کی خبریں آپ سنتے ہیں لیکن ان کو کبھی میڈیا کے سامنے کیوں پیش نہیں کیا جاتا۔

دوسری طرف سرحدی قبائل پر سوچے سمجھے ایسی شورش کی گئی جو شاید کسی دشمن قوم پر بھی نہ کی گئی ہو گی۔ غاصب ہندوستان کے ساتھ کشمیر کی قیمت پر بھی تعلقات بڑھائے جا رہے ہیں لیکن اپنی قوم کے لوگوں سے صرف گولی کی زبان میں بات کی جاتی ہے۔

لال مسجد کے قصے میں بلا مبالغہ ہزاروں طلبا و طالبات کو صرف فرعونیت کی بھینٹ چڑھا دیا گیا۔ ورنہ اگر اسلام آباد کے کسی بھنگی یا خوانچہ فروش کو بھی اس معاملے کو سلجھانے کے لیے استعمال کرلیا جاتا تو شاید وہ کامیاب ہو جاتا۔ لیکن پاکستان کے جغادری لیڈروں نے کوئی بھی پر امن کوشش نہیں کی جس سے معاملہ سلجھ جاتا۔ یا شاید ان کو فرعون وقت سے اس درجہ سفاکی کی امید ہی نہ ہوگی۔

پاکستان کے ایک بہت بڑے صوبے کے ایک لیڈر کو قتل کیا گیا جس کو وہاں بہت زیادہ عزت و احترام حاصل تھا۔ اس کو قتل کرنے کے لیے بھی کوئی مناسب جواز گھڑنے کی زحمت بھی گوارا نہیں کی گئی۔ تاکہ وہاں ایسی کوئی رکاوٹ یا لیڈر شپ باقی نہ رہے جو بلوچ عوام کو متحد رکھ کر امریکی منصوبے کو ناکام بنا سکے۔

پاکستان کا متوقع مستقبل
امریکہ جس ملک میں تباہی و بربادی کا کھیل کھیلتا ہے اور اس کے وسائل پر قبضہ کرنا چاہتا ہے، سب سے پہلے اپنی تمام پروپیگنڈہ مشینری کو اس کے خلاف لگا دیتا ہے۔ یہ پروپیگنڈہ اس زور سے کیا جاتا ہے کہ اس ملک کے لوگ بھی یہ سمجھنے لگتے ہیں کہ شاید سچ یہی ہے۔

اس کے بعد وہ عوام کے اندر نسلی، لسانی اور مذہبی اختلافات کو بھڑکاتا ہے۔ اس سلسلے میں اسی ملک کے لوگوں کو استعمال کیا جاتا ہے۔ مختلف مراکز اور مساجد میں دھماکے کر کے اس کا الزام ایک دوسرے پر دھر دیا جاتا ہے۔ اگلے مرحلے میں امریکہ اس ملک سے جمہوریت کی بساط لپیٹ دیتا ہے یا اسی کمزور جمہوری حکومت قائم کرتا ہے جو اس کے سامنے ذرا بھی اکڑ نہ دکھا سکے۔ اس کے بعد اس قوم یا ملک کے تمام ایسے لیڈروں کو مختلف ذرائع سے قتل کروا دیا جاتا ہے جن کے بارے میں ‌امکان ہو کہ وہ رائے عامہ کو امریکہ کے خلاف متحد کر سکیں۔ اس کے بعد اگلا مرحلہ ایسا ہوتا ہے جس کے بارے میں ہم سوچنے کی جرات بھی نہیں کرسکتے۔

اب کیا ہونے لگا ہے؟
بلوچستان کی پاکستان سے علیحدگی کی راہ ہموار کی جا رہی ہے۔

شیعہ اور سنی کے درمیان نفرت پید کی جا رہی ہے۔

پاکستان کے بارے میں یہ پروپیگنڈا کیا جا رہا ہے کہ ساری القاعدہ قیادت کو پاکستان نے پناہ دے رکھی ہے۔

سرحدی قبائل کو تقریبا پاکستان کے خلاف کر دیا گیا ہے۔

اب امریکہ ان میں سے کسی علاقے کے عوام کی سرپرستی کر کے پاکستان سے الگ آزاد حکومت قائم کروانے کی پوزیشن میں ہے۔ جسے ہم روکنے کی پوزیشن میں بالکل نہیں ہیں۔

کشمیر کو پاکستان کا حصہ بنانے کے امکانات تقریبا ختم کر دیے گئے ہیں۔

کراچی میں حالات کو اس نہج پر لایا جا رہا ہے تاکہ ایک الگ آزاد ریاست کے قیام کی راہ ہموار ہو سکے۔

پاکستان کے تمام صوبوں میں ایک دوسرے کے خلاف نفرت پیدا کی جا رہی ہے۔

دنیا کے واحد اسلامی ملک کی ایٹمی قوت کبھی بھی یہود و نصاریٰ کو ہضم نہیں ہوگی۔ اس کو ہر حال میں پاکستان سے ختم کیا جائے گا، چاہے انھیں اس سلسلے میں کچھ بھی کیوں نہ کرنا پڑے۔

عزیز ساتھیو!
اگر اہل پاکستان کے حالات میں کوئی واضح ترین تبدیلی، قومی سلامتی کی طاقت ور ترین تحریک، پیدا نہیں ہوتی یا کوئی نمایاں انقلابی نعرہ نمودار نہیں ہوتا تو میرے منہ میں خاک، تمام حالات اسی جانب اشارہ کر رہے ہیں۔ شاید اب صرف دعاؤں سے سب کچھ ٹھیک نہیں ہوسکتا۔ " خدا کسی قوم کی حالت میں اس وقت تک تبدیلی پیدا نہیں کرتا جب تک وہ قوم خود اپنی حالت کے بدلنے کو اٹھ کر کھڑی نہ ہو جائے۔ دشمن سے کبھی خیر کی توقع نہ رکھی جائے۔ اسلام اور پاکستان کے جو دشمن ہیں وہ ہمیشہ سے ہیں اور ہمیشہ چولا بدل بدل کر آتے رہیں گے۔ اللہ تعالیٰ نے واضح طور پر مسلمانوں سے فرما دیا ہے کہ یہود و نصاری تمہارے دوست ہرگز نہیں ہو سکتے۔ اور مسلمانوں کو چھوڑ کر یہود و نصاریٰ کو دوست بنانے سے سختی سے روکا گیا ہے۔ لیکن ہم ہمیشہ ان کی دوستی کی توقعات رکھ رہے ہیں جو اللہ کے احکام کی بھی خلاف ورزی ہے۔
Abdul Hai Abid
About the Author: Abdul Hai Abid Read More Articles by Abdul Hai Abid: 2 Articles with 3835 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.