سیاست عجب تماشہ ہے ۔کب کون سی سیاسی پارٹی کیسابیان جاری
کردے،کیساکوئی گل کھلِادے اس کا لوگوں کوکوئی اندازہ نہیں ہوتا۔گذشتہ وقتوں
میں سیاست ایک مقدس پیشہ ہواکرتاتھامگرزمانہ بدلنے کے ساتھ ساتھ سیاست کی
نوعیت ،اقداراورطورطریقوں میں بھی کافی فرق آگیاہے۔اب موجودہ دورمیں سیاست
اقتدارکی حوس کی صورت اختیارکرچکی ہے ۔ ہرسیاستدان دوسرے سیاستدان
کوپچھاڑنے کےلئے تمام حدودکوپارکرنے کوتیارہے ۔وہ اپنے مدمقابل کے سیاستدان
کواس قدربرابھلاکہنے پہ آمادہ ہوجاتاہے کہ دوسرے کونیچے دکھانے کے چکرمیں
اپنی شخصیت کوبھی بداخلاقی کی حدودپارکرکے داغداربنادیتاہے۔عقلمندسیاستدان
کسی دوسرے سیاستدان کی برائیاں کرنے کی بجائے اپنی کارکردگی کوبہترکرنے میں
مصروف رہتاہے مگرآج کے دورمیں سیاست کے شعبہ میں بداخلاق سیاستدانوں کی
تعدادبہت زیادہ ہونے کے سبب کہاجاسکتاہے کہ سیاستدان طبقہ بیوقوفوں کاٹولہ
بنتاجارہاہے۔تمام سیاستدانوں کوبیوقوفوں اورہوس کے پجاریوں کے ٹولے میں
شمارنہیں کیاجاسکتاہے کیونکہ آج بھی بے شمارسیاستدان ایسے ہیں جوشعبہ سیاست
کی وساطت سے خدمت خلق کے فریضہ کوتندہی سے انجام دینے میں مصروف عمل
ہیں۔بداخلاقی،بدنیتی اورہرموقعے پرمختلف چہرہ ظاہرکرنے والے سیاستدان ہی
اصل میں بیوقوف سیاستدانوں کے ٹولے میں شمارکیے جانے کے قابل ہیںاورایسے ہی
سیاستدان شفاف سیاستدانوں کی بھی شبیہ خراب کرنے کاکام کرتے ہیں ۔سیاستدانوںکوشعبہ
سیاست کے معیارکوبلندکرنے کی ضرورت ہے۔سیاستدانوں کوحق حاصل ہے کہ وہ حریف
سیاسی جماعتوں کو تنقیدکانشانہ بنائے مگرکیاہی بہترہواگر تنقیدکرنے والے
سیاستدان ساتھ میں نقطہ تنقیدسے متعلق جوازبھی پیش کردیاجائے ۔سیاست کے
شعبہ کی قدریں زوال پذیرہوتی ہوئی نظرآرہی ہیں جس کےلئے باشعورسیاستدانوں
کوچاہیئے کہ وہ اس سمت میں گہری فکروعمل سے کام لیں۔
حال ہی میں منعقدہوئے ہندوستان کے سولہویں لوک سبھاانتخابات کے دوران بھی
سیاسی جماعتوں کے لیڈران نے حریف جماعتوں کے لیڈران کی ذات پہ حملے کیے
گئے۔کہاجاتاہے کہ جب بھی کسی کی شخصیت پراُنگلی اُٹھائی جاتی ہے توایک
اُنگلی تومخالف شخص کی طرف ہوتی ہے مگردیگرچاروں انگلیوں کارُخ تنقیدکرنے
والے شخص کی طرف ہوتی ہیں۔بقول شاعر
عیب اوروں میں ڈھونڈنے والو
اپنے گھرمیں بھی آئینہ رکھنا
جس کافطری مطلب یہی ہوتاہے کہ کوئی بھی شخص جودوسرے شخص کوتنقیدکی زدمیں
لارہاہے اُس میں بھی کافی خامیاں ہیں، یہ مقام سیاستدانوں کےلئے ہی نہیں
بلکہ ہرکس وناکس کےلئے سمجھنے کاہے کہ اس کی ذات خودکتنی خامیوں سے
بھرپورہے ۔اس لیے ہرکسی شخص خواہ وہ سیاستدان ہویازندگی کے دیگرکسی شعبہ
ہائے فکرسے وابستہ کوئی دیگرشخص اُسے کسی کی شخصیت پراُنگلی اُٹھانے سے
ہمیشہ گریزکرناچاہیئے۔موقعہ پرست سیاستدان اپنے مفادکے حصول کےلئے
کیاکیانہیں کرجاتے ۔عام آدمی جب سیاستدانوں کے بے تکے بیانات اورپل پل
بدلتے چہروں کودیکھتے ہیں تووہ حیران رہ جاتے ہیںاوراس کے ذہن میں سوال
اُٹھتاہے کہ یہ کیسے لوگ ہیں جواپنے مفادکےلئے ہرجائزونائزکوانجام دینے
کےلئے ہمیشہ تیاررہتے ہیں۔
ریاست جموں وکشمیرمیں گذشتہ پانچ سال سے عمرعبداللہ کی سربراہی میں نیشنل
کانفرنس اورکانگریس جماعت کی مخلوط حکومت قائم ہے ۔مخلوط حکومت کے وزرائ،
ممبران قانون سازکونسل اورممبراسمبلیوں کی بات ہی چھوڑئیے صرف عمرعبداللہ
نے کتنے چہرے اوربیانات تبدیل کیے اس سے ہرکوئی واقفیت رکھتاہے۔وزیراعلیٰ
عمرعبداللہ نے اپنے دورِاقتدارمیں کئی مرتبہ استعفیٰ دینے تک کی دھمکیاں
بھی دیں مگرکرسی کی طرف نظریں ڈال کرعمرعبداللہ کادِل اقتدارسے چپکے رہنے
کی ہی صلاح دیتارہااوراستعفیٰ دینے کی دھمکیاں عوام کےلئے بے سودہی ثابت
ہوئی۔ حالانکہ کچریوال نے لوک پال بل کے منظورنہ ہونے پردہلی کے وزیراعلیٰ
کی کرسی چھوڑدی۔عوام ہندوستان کچریوال کے سچے پن اورعوام کواہمیت دینے کے
جذبے کی قائل ہے ۔کچریوال کے پاس سچائی ہی ایک ایساہتھیارتھاجس کے بل بوتے
پروہ دہلی میں اسمبلی انتخابات کے دوران 28نشستوں پہ قابض ہوئے اورکانگریس
کی سینئررہنمامحترمہ شیلادیکشت جوکہ گذشتہ پندرہ سالوں سے دہلی میں اپناراج
چلارہی تھیں کواقتدارسے ہٹایا۔نہ صرف دہلی کی عوام نے بلکہ پورے ملک کی
عوام دیکھتے ہی دیکھتے اس کے سچے پن کی قائل ہوگئی ۔کچریوال عوام کی توجہ
کامرکزاس لیے بنے کیونکہ بددیانتی پرمبنی سیاست کے دورمیں عوام کوکوئی بھی
سچاسیاستدان دوردورتک نظردوڑانے کے باوجودکہیں نظرنہ آرہاتھا۔
وزیراعلیٰ ریاست عمرعبداللہ صاحب کی صدارت میں گذشتہ روزسرینگرمیں کابینہ
اجلاس منعقدہواجس میں چنداہم فیصلے لیے گئے جن میں سے وزیراعلیٰ نے اپنی ہی
حکومت کی جانب سے تشکیل کردہ نئی ریکروٹمنٹ پالیسی کوکالعدم کرنابھی شامل
رہا۔یہ فیصلہ ریاست جموں وکشمیرکے نوجوانوں کےلئے نہایت ہی اہمیت کاحامل
اورخوش آئندہے مگرعوامی حلقوں میں اس فیصلے بے وقت لیاگیافیصلہ کہاجارہاہے
اورعوام یہاں تک کہہ رہی ہے کہ عمرعبداللہ واس کے کابینہ رفقاءنے یہ فیصلہ
مفادپرستی کی زدمیں آکرلیا ہے یااِس فیصلے سے متعلق یوں کہاجائے کہ وقت کی
نمازاوربے وقت کی ٹکرجیسافیصلہ عمرعبداللہ نے لیاہے۔اس میں بھی شبہ نہیں کہ
گذشتہ پانچ سالوں میں وزیراعلیٰ عمرعبداللہ نے کچھ اہم اورتاریخ سازفیصلے
لیے ہیں ،مگرتمام تاریخی فیصلے بے وقت لیے جانے کے سبب بے سودہی ثابت ہوئے
ہیں۔اس بات کااندازہ اس بات سے لگایاجاسکتاہے کہ اگروزیراعلیٰ عمرعبداللہ
کے فیصلوں کی ٹائمنگ صحیح ہوتی توپارلیمانی انتخابات کانتیجہ مختلف
ہوتا۔عمرعبداللہ نے آرٹی آئی ایکٹ، پبلک سروس گارنٹی ایکٹ،659 نئے انتظامی
یونٹوں کاقیام جیسے فیصلے لیے گئے۔ ماسوائے نئے انتظامی یونٹوں کاقیام باقی
تمام اقدامات وقت پرلیے گئے کیونکہ انتظامی یونٹوں کافیصلہ عین پارلیمانی
انتخابات سے قبل لیاگیا۔حالانکہ عمرعبداللہ کی جانب سے لیاگیایہ فیصلہ عوام
کےلئے نہایت ہی خوش آئندتھالیکن انتخابات سے قبل اس کااعلان کیے جانے کے
سبب عوام نے اسے مخلوط سرکارکی موقعہ پرستی پرمبنی سیاست سے تعبیرکیاہے۔
ریاست جموں وکشمیرکے تعلیم یافتہ نوجوان گذشتہ دوسالوں سے چلاچلاکرسرکارسے
مانگ کررہے تھے کہ نئی ریکروٹمنٹ پالیسی نوجوانوں کے مستقبل کیساتھ
کھلواڑہے مگرعمرعبداللہ صاحب تھے کہ سنتے ہی نہ تھے ۔ عمرعبداللہ صاحب کی
قیادت میں گذشتہ پانچ سال سے قائم حکومت کااگرجائزہ لیاجائے توواضح
ہوجاتاہے کہ اس دورمیں ملازمین طبقہ احتجاج کی راہ پرہی رہا، اس کے علاوہ
رفیوجیوں کے مسائل بھی حل نہ کیے گئے اورانہیں بھی تپتی دھوپ میں احتجاج
کرنے پڑے،لاٹھیاں کھانی پڑیں، جیل وارڈنوں کی فہرست گذشتہ سات سال سے جاری
نہیں کی جارہی ہے ۔ٹیکنوکریٹس کے مسائل حل نہ ہوئے۔ قابل ذکربات ہے کہ
عمرعبداللہ نے تواے سی میں بیٹھ کریاہوائی دورے کرکے ٹھاٹھ سے حکومت کی
مگرملازمین ،منتخب جیل وارڈن اُمیدواروں، خانہ بدوش گوجربکروالوں ،ایس پی
اوز،رفیوجیوں اوردیگربے سہارالوگوں کوتواے سی کی ہواتودورپنکھے کی ہوابھی
ٹھیک طرح سے میسرنہ ہوئی۔اب جبکہ پارلیمانی انتخابات میں نیشنل کانفرنس
اورکانگریس (حلیف جماعتوں) کے اُمیدواروں کی شکست ہونے پہ عمرعبداللہ
کواپنی کرسی ہاتھ سے جاتی ہوئی نظرآنے لگی توانہوں نے آئندہ اسمبلی
انتخابات میںفائدہ اُٹھانے کی نیت سے کابینہ میٹنگ کوبلاکرریکروٹمنٹ پالیسی
کوکالعدم کردیا۔یہ وہی عمرعبداللہ ہے جویہ کہتاپھرتھاکہ نئی ریکروٹمنٹ
پالیسی ہماری مجبوری ہے،ریاستی معیشت کے فروغ کےلئے نئی ریکروٹمنٹ پالیسی
اہمیت کی حامل ہے،نئی ریکروٹمنٹ پالیسی کوکسی بھی صورت واپس نہیں
لیاجاسکتاہے، ۔اس کے علاوہ عمرعبداللہ نے سیاسی مفادحاصل کرنے کی خاطرپری
پیڈسموں کی موبائل سروس پہ عائدپابندی کوایک ہی آن میں واپس لے
لیا۔عمرعبداللہ صاحب توپہلے یہ کہتے تھے کہ ایس ایم ایس سروس
کوبندرکھنانہایت ضروری ہے، ملک وریاست کی سیکورٹی کاانتہائی حساس ونازک
مسئلہ ہے اس لیے ایس ایم ایس سروس بحال نہیں کرسکتے،پری پیڈسموں کی ایس ایم
ایس سروس ملک کے امن کےلئے خطرہ ہے۔اس سے متعلق فیصلہ لینے کی مجازصرف
مرکزہے۔ہم کچھ نہیں کرسکتے ۔عمرعبداللہ توپارلیمانی الیکشن سے قبل یہ کہتے
تھے کہ ملازمین کی ریٹائرمنٹ کی عمرمیں توسیع کسی بھی صورت ممکن نہیں،وسائل
نہایت ہی کم ہیں۔نوجوانوں کیساتھ ظلم ہوگاوغیرہ وغیرہ۔اب میں عمرعبداللہ
صاحب سے سوال پوچھناچاہتاہوں کہ ایس ایم ایس سروس سے بین ہٹاتے ہوئے آپ نے
ایک باربھی نہیں سوچاکہ میرے پہلے والے موقف پراُنگلی اُٹھے گی ، کیااب ایس
ایم ایس سروس کی بحالی ملک کے امن وسلامتی کےلئے خطرہ نہیں رہی ۔ نئی
ریکروٹمنٹ پالیسی کوکالعدم کرتے ہوئے آپ نے ریاست کی معیشت کودھیان میں
کیوں نہیں رکھا۔ملازمین کی عمربڑھانے کی حامی بھرتے ہوئے یہ نہیں سوچاکہ اس
سے نوجوانوں کونقصان ہوگا۔اب آپ ملازمین کے تمام مسائل کوحل کرنے پرراضی
ہونے سے آپ کے پہلے والے موقف کاکیاہوگا۔ریاستی وزیراعلیٰ عمرعبداللہ ایک
نہایت ہی اچھے انسان ہیں مگرموجودہ دورکی سیاست میں رنگنے سے عمرعبداللہ
بھی بیوقوف سیاستدانوں کے زمرے میں شامل ہوگئے ہیں کیونکہ پارلیمانی
انتخابات میں حکمران اتحاد(نیشنل کانفرنس اورکانگریس) کے اُمیدواروں کوملی
کراری ہارسے دلبرداشتہ ہوکرجوفیصلے لیے ہیں بھلے ہی عوام کےلئے فائدہ
ہیں،ریاست کے نوجوانوں میں خوشی کی لہرپائی جاتی ہے مگرکیاہی اچھاہوتااگرآپ
نے یہ فیصلے پارلیمانی انتخابات سے قبل لیے ہوتے ۔عمرعبداللہ صاحب نے آرٹی
آئی ایکٹ(حق قانون اطلاعات ) ،پبلک سروس گارنٹی ایکٹ، نئے انتظامی یونٹوں
کے قیام جیسے تاریخ سازاقدامات عوامی مفادات کی خاطراُٹھائے مگرآپ کے
سیاستدانوں نے توانہیں بھی پارلیمانی انتخابات کی مہم میں اُجاگرصحیح ڈھنگ
سے نہ کیا۔ دونوں پارٹیوں کے لیڈران بھی مودی لہرمیں بہتے ہوئے نظرآئے
اورنتیجہ آپ کے سامنے ہے۔وزیراعلیٰ صاحب آپ نے دانشمندی کامظاہرہ ضرورکیاہے
مگروقت گذرجانے کے بعد۔حالانکہ اپنی طرف سے آپ نے پھرغیرمناسب وقت پرسیاسی
کھیل کھیل کرعوام کے سامنے آپ کوظاہرکردیاہے کیونکہ آپ نے پارلیمانی
انتخابات کے بعدلیے گئے فیصلوں سے عوام سمجھ چکی ہے کہ ان اقدامات کی دہائی
دے کرآپ عوام سے آئندہ اسمبلی انتخابات میں عوام سے ووٹ مانگیں۔عمرصاحب ایک
سچے انسان ہیں ،غیرمناسب وقت پرفیصلہ لینابے وقوفی سیاسی اعتبارسے ضرورہے
مگراس سے آپ کاسچاپن بھی ظاہرہوتاہے کیونکہ آپ بخودبھی جانتے ہوں کہ آپ کے
نئے فیصلوں سے عوام کیانتیجہ اخذکرے گی۔عوام تویہ بھی سمجھ رہی ہے کہ اگرآپ
نئی ریکروٹمنٹ پالیسی کوکالعدم نہ کرتے تومفتی محمدسعیدجس کاخوف آپ کی
جماعت کوہے وہ اپنی حکومت کے قائم ہوتے ہی اس پالیسی کودفع کرکے اس
کاساراکریڈٹ لے لیتا۔آپ نے اچھاکیااس پالیسی کوختم کرنے کاکریڈٹ اپنے پاس
رکھا۔عمرعبداللہ صاحب آپ پسماندہ طبقوں کی فلاح وبہبودکی بات کرتے ہیں ۔آپ
کوچاہیئے کہ آپ خانہ بدوش گوجربکروالوں کےلئے کالونیوں کی تعمیرکرائیں، آپ
اس خانہ بدوشی کی ریت کاخاتمہ کرکے ہرخانہ بدوش کنبے کوبسائیں اورگول گجرال
میں جے ڈی اے کی جانب سے اُٹھائے گئے خانہ بدوشوں کےلئے انتظام کریں ۔آپ
کوچاہیئے کہ مفتی محمدسعیدکے دورحکومت میں خانہ بدوش گوجربکروالوں کے جس
کیٹگری سرٹیفکیٹ (شیڈولڈٹرائب سرٹیفکیٹ ) کے ایس آراو126 کوتبدیل کرکے 294
کیاگیاہے اس کوبھی کالعدم کیاجاتاہے اورپھرسے 126 ایس آراوکے تحت
گوجربکروال طبقہ کی بہبودکےلئے عملی طورپراقدام اُٹھاتے مگرایسانہ
کیا۔عمرعبداللہ سرکارکوچاہیئے کہ وہ عوامی اہمیت کے حامل زیادہ سے زیادہ
مسائل حل کریں تاکہ آئندہ اسمبلی انتخابات میں کسی طریقہ سے عوام نیشنل
کانفرنس اورکانگریس جماعتوں کی طرف مائل ہوسکے ورنہ پی ڈی پی میدان مارلے
گی اورنیشنل کانفرنس اورکانگریس دونوں جماعتیں پھرسے ہاتھ ملتی رہ جائیں
گی۔ |