لوڈ شیڈنگ نے رمضان گزارنا دوبھر کر دیا

ملک بھر میں بدترین لوڈشیڈنگ کا سلسلہ جاری ہے، جس میں دن بدن تیزی آرہی ہے۔ شہروں میں لوڈشیڈنگ کا دورانیہ 13 سے 15 گھنٹے اور دیہی علاقوں میں 17 سے 19 گھنٹے تک پہنچ گیا ہے۔ سحر و افطار کے دوران بجلی بند نہ ہونے کے دعوے بھی دھرے کے دھرے رہ گئے ہیں، حالانکہ حکومت نے اعلان کیا تھا کہ گرمی کی شدت کے پیش نظر رمضان المبارک میں دن میں بھی صرف 5 سے 7 گھنٹے لوڈشیڈنگ ہوگی اور سحر و افطار کے دوران بجلی بالکل بند نہیں ہوگی۔ ایک اطلاع کے مطابق بجلی کا شارٹ فال سات ہزار میگاواٹ ہوچکا ہے۔ اس سے گھریلو صارفین تو بری طرح متاثر ہوئے ہی ہیں، اس کے ساتھ پانی کی قلت بھی پیدا ہو رہی ہے، تجارتی اور زرعی ضروریات بھی پوری نہیں ہو رہیں، جس کے نتیجے میں دیہاڑی کی بنیاد پر روزی کمانے والے لاکھوں مزدور بے روزگار ہوگئے ہیں، وولٹیج کی کمی بیشی ایک الگ مسئلہ ہے، جس سے بجلی کی موٹریں اور گھروں میں استعمال ہونے والے دوسرے برقی آلات جل کر ناکارہ ہوجاتے ہیں۔ طویل اور غیراعلانیہ لوڈشیڈنگ کے خلاف راولپنڈی، اسلام آباد سمیت ملک کے مختلف شہروں میں وقفے وقفے سے مظاہروں کا سلسلہ جاری ہے۔ گرمی سے ستائے لوگ لوڈ شیڈنگ کے خلاف احتجاج کے دوران توڑ پھوڑ کرنے سے بھی گریز نہیں کر رہے۔ ایسے حالات میں وفاقی وزیر پانی و بجلی خواجہ محمد آصف نے طویل لوڈشیڈنگ پر قوم سے معافی مانگتے ہوئے عوام سے اپیل کی ہے کہ وہ بارش کے لیے دعا کریں۔ پاکستان میں سارے کام اللہ کی مدد سے ہی چل رہے ہیں، ایک دو روز میں باران رحمت برسنے سے باقی روزے اور عید اچھی گزرجائے گی، توانائی بحران کے خاتمے کے لیے قوم کو ٹائم فریم نہیں دے سکتے، ڈسٹری بیوشن نظام کی بہتری، لائن لاسز اور چوری کی روک تھام کے لیے قوم ہمارا ساتھ دے۔ ا ±نہوں نے کہا کہ ملک میں آئندہ سال ایل این جی کے آنے سے بجلی کے نظام میں بہتری آئے گی اور لوڈشیڈنگ میں کمی ہو گی۔ ہمارا سسٹم 15ہزار میگاواٹ سے زیادہ لوڈ برداشت نہیں کرسکتا۔ پورے سسٹم کو ٹھیک کرنے میں 3 سے 4 سال لگ سکتے ہیں۔ متعدد منصوبے زیرغور ہیں، جن میں سے چھ سے سات ہزار میگاواٹ بجلی ہمارے سسٹم میں آ جائے گی۔ لائن لاسز پر بھی کنٹرول کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ واضح رہے کہ وزیر بجلی و پانی خواجہ آصف کے لوڈ شیڈنگ پر قوم سے معافی مانگنے سے ایک روز قبل ہی وزیراعظم محمد نواز شریف نے رمضان المبارک میں طویل لوڈ شیڈنگ پر سخت برہمی کا اظہار کیا تھا اور وزارت پانی وبجلی سے رپورٹ طلب کرتے ہوئے وزارت پانی وبجلی کو ہدایت کی تھی کہ رمضان المبار ک میں لوڈ شیڈنگ کادورانیہ کم کیا جائے، جبکہ وزیر اعظم نے ہنگامی بنیادوں پر سسٹم کی اپ گریڈیشن کا بھی حکم دیا تھا۔

دوسری جانب ماہرین کا کہنا ہے کہ بجلی کا ٹرانسمیشن سسٹم بہت بوسیدہ اور پرانا ہو چکا ہے، جب تک اسے تبدیل نہیں کیا جائے گا، لوڈشیڈنگ پر قابو نہیں پایا جا سکتا۔ بعض ذرایع کے مطابق پیک آور میں بجلی کی ڈیمانڈ 22 ہزار میگاواٹ تک جا پہنچتی ہے، جب کہ اس دوران سپلائی 14 سے 15 ہزار میگاواٹ ہو رہی ہوتی ہے، جب کہ ٹرانسمیشن لائن کمزور ہونے کے باعث 13 ہزار میگاواٹ سے زیادہ سپلائی نہیں ہو پاتی، اطلاعات کے مطابق وزارت پانی و بجلی اور ڈسٹری بیوشن کمپنیوں کی جانب سے بجلی کا لوڈ شیڈنگ شیڈول صرف کاغذوں تک ہی رہ گیا۔ بجلی کی بڑھتی ہوئی طلب کا بوجھ اٹھانے میں بجلی کا ترسیلی نظام مکمل طور پر ناکام ہو چکا ہے۔ حکام کے مطابق سنٹرل پاور کنٹرول سنٹر اور مقامی ڈسٹری بیوشن کمپنی کی جانب سے بار بار بجلی کی بندش کی جا رہی ہے، تاکہ سسٹم کو بڑے بریک ڈاؤن سے بچایا جا سکے۔ وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات پرویز رشید یہ بیان دے چکے ہیں کہ ہماری ٹرانسمیشن لائنز اور سسٹم 13 ہزار میگاواٹ سے زیادہ کا لوڈ برداشت نہیں کر سکتا اور اگر ہم زیادہ بجلی بنا بھی لیں تو اسے آگے سپلائی نہیں کیا جا سکتا، حکومت اس سلسلے میں ٹرانسمیشن لائنز کمپنی بنا رہی ہے۔ وفاقی وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق نے بھی اس کی تصدیق کرتے ہوئے کہا تھا کہ بجلی کی پیداوار میں اضافے کے بعد بھی ناقص ٹرانسمیشن سسٹم کی وجہ سے مطلوبہ بجلی صارفین تک نہیں پہنچائی جا سکتی، معیاری ٹرانسمیشن لائنز بچھانے کے لیے اربوں ڈالر درکار ہیں۔ اس امر میں کوئی شبہ نہیں کہ توانائی کے پیداواری منصوبے چند ہفتوں یا چند مہینوں میں مکمل نہیں ہو سکتے، بلکہ اس کے لیے ایک طویل عرصہ درکار ہوتا ہے۔ حکومت کا کہنا ہے کہ بھاشا ڈیم کی تکمیل میں کم از کم دس سال کا عرصہ درکار ہے۔ حکومت بجلی کے بحران پر قابو پانے کے لیے متعدد منصوبوں پر تیزی سے کام کر رہی ہے، نندی پور پراجیکٹ کا افتتاح ہو چکا ہے، سولر سسٹم سے بھی بجلی پیدا کرنے کے منصوبوں پر کام ہو رہا ہے، مگر انھیں پایہ تکمیل تک پہنچنے میں ایک مدت لگے گی۔ ایک طرف بجلی کے منصوبوں کے ذریعے بجلی کی پیداوار میں اضافے کا مسئلہ درپیش ہے تو دوسری جانب ٹرانسمیشن لائنز اور سسٹم کی تبدیلی کے لیے بھی حکومت کو اربوں ڈالر درکار ہیں۔ بجلی کی چوری اور لائن لاسز کا مسئلہ بھی اپنی جگہ بدرجہ اتم موجود ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ توانائی کے پیداواری منصوبوں کے ساتھ ساتھ ٹرانسمیشن لائنز بچھانے کا کام بھی کرے۔

مبصرین کا کہنا ہے کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ حکومت بجلی کی پیداوار بڑھانے کے لیے بیک وقت کئی منصوبوں پر کام کر رہی ہے اور یہ بھی درست ہے کہ حکومت کو اس مسئلے کی سنگینی کا پوری طرح احساس ہے، اسی لیے اس نے اقتدار سنبھالتے ہی سب سے پہلے اس پر توجہ دی، لیکن ابھی تک ملک میں لوڈ شیڈنگ کا مسئلہ حل نہیں ہوا۔ لوڈشیڈنگ کم ہونے کی بجائے بڑھ رہی ہے۔ وقفے وقفے سے کبھی اعلانیہ اور کبھی غیر اعلانیہ طویل لوڈشیڈنگ کی جا رہی ہے۔ عام طور پر بجلی کا شارٹ فال زیادہ ہوجائے تو حکومتیں اس کے استعمال کا شیڈول بنالیتی ہیں۔ لازمی خدمات کے شعبوں کے سوا صنعتوں، کاروباری مراکز اور مارکیٹوں کے اوقات کار محدود کردیتی ہیں، تاکہ گھریلو صارفین اور ضروری پیداواری شعبوں کو بجلی بلا تعطل ملتی رہے، لیکن حکومت نے ایسا کچھ نہیں کیا، پچھلی حکومت پر الزام تھا کہ اس نے توانائی خصوصاً بجلی کا بحران حل کرنے میں بدعملی اور بدنظمی کا مظاہرہ کیا، جس سے عوام کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑا اور ملکی معیشت پر بھی زوال آیا۔ موجودہ حکومت کو سابقہ حکومت کے تجربات اور ناکامیوں سے سبق سیکھنا چاہیے تھا، لیکن موجودہ حکومت پہلے ملک بھر سے لوڈ شیڈنگ کو ختم کرنے کے دعوے کرتی رہی، لیکن اب معافی مانگتے ہوئے بارش کی دعا کی اپیل کر رہی ہے، جب پہلے ہی معلوم تھا کہ حکومت لوڈ شیڈنگ پر قابو نہیں پاسکتی تو عوام کو بہکانے کی کیا ضرورت تھی۔ عوام نے اپنے مسائل حل کرنے کے حوالے سے جو توقعات حکومت سے وابستہ کر رکھی تھیں، وہ ہنوز تشنہ تکمیل ہیں۔ اگرچہ حکومت توانائی کے بحران پر قابو پانے کے لیے کوشاں ہے، لیکن جب تک توانائی کے بحران پر قابو نہیں پایا جاتا، اس وقت تک عوام کو اندھیروں کے سپرد نہیں کیا جا سکتا۔ حکومت کو ایسے اقدامات ضرور کرنا پڑیں گے، جن سے بجلی کی لوڈشیڈنگ کے خاتمے میں مدد ملے۔ خاص طور پر رمضان المبارک میں سحر اور افطار کے اوقات میں لوڈشیڈنگ ختم کرنا ہوگی اور یہ کام قوم سے بارش کی دعا کی اپیل کرنے سے نہیں ہوگا، بلکہ اس کے لیے عملی اقدامات کرنے ہوں گے۔
عابد محمود عزام
About the Author: عابد محمود عزام Read More Articles by عابد محمود عزام: 869 Articles with 701618 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.