غزہ پٹی پر اسرائیلی وحشیانہ بمباری اور مصری صدر سیسی کی بے حسی
(Khursheed Alam Dawood Qasmi, New Delhi)
باسمہ تعالی
7/جولائی 2014 کی شام سے "غزہ پٹی" پر شروع ہونے والی اسرائیلی وحشیانہ اور
دہشت گردانہ بمباری دن بہ دن بڑھتی جارہی اور ہر روز درجنوں کے حساب سے
انسانی جان موت کے منہ میں جا رہی ہے، وہیں ہر روز سیکڑوں کی تعداد میں لوگ
زخمی ہو رہے ہیں۔ ان زخمی لوگوں سے "غزہ پٹی" کا ہسپتال بھرا پڑا ہے۔ "المرکز
الفلسطیني للاعلام" (مرکز اطلاعات فلسطین-The Palestinian Information
Center) کی رپورٹ کے مطابق، ان زخمی لوگوں کے علاج و معالجہ کے لیے بروز:
سنیچر، 12/ جولائی 2014 کو "یورپی میڈیکل ڈیلیگیشن" مصر سے "رفح" کے راستے
"غزہ پٹی" میں داخل ہونا چاہ رہا تھا؛ تاکہ وہاں کے زخمی لوگوں کو بر وقت
طبی امداد پہونچائی جائے سکے؛ لیکن اس وفد کو مصری انتظامیہ نے "غزہ پٹی"
میں داخل ہونے کی اجازت نہیں دی۔ یورپ میں واقع "فلسطینی میڈیکل ایسوسی
ایشن" نے اسرائیلی بمباری سے زخمی ہورہے لوگوں کی فوری طبی امداد کے لیے
چار ماہر ڈاکٹروں پر مشتمل، اس وفد کو "غزہ پٹی" کے لیے روانہ کیا تھا۔ اس
وفد کو غزہ پٹی میں داخل ہونے کے لیے "رفح" کے راستے ہی جانا تھا؛ لیکن
سیسی کی حکومت نے رفح کروسنگ کو بلوک کرکے اس وفد داخل ہونے سے روک دیا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ مصر میں بغاوت کا علم بلند کرکے اقتدار پر قابض ہونے والا
موجودہ خونی مصری صدر عبد الفتاح السیسي نے جب ڈاکٹر محمد مرسی کو اقتدار
سے برطرف کرکے اغوا کیا، اس وقت اسرائیلی وزیر اعظم بنجامن نیتن یاہو پہلا
شخص تھا، جس نے سیسی کو مبارکباد دی تھی اور دوستی کا ہاتھ آگے بڑھایا تھا۔
پھر اسی وقت سے سیسی نے اسرائیل کے حوالے سے نرم رویہ کا اپنانا شروع کردیا۔
اس سے بڑھ کر، سیسی نے اسی موقع سے رفح کروسنگ بوڈر کو بلوک کروادیا تھا
اور "حماس" (حرکۃ المقاومۃ الاسلامیۃ) جیسی اسلام کے لیے مرمٹنے والی تنظیم
کو "دہشت گرد" قرار دے کر اپنی یہودی ذہنیت کا ثبوت دنیا والوں کے سامنے
پیش کردیا۔ ابھی اس سرحد کو چند دنوں کے لیے کھولا گیا تھا؛ لیکن پھر اسے
بند کرکے سیسی انتظامیہ اسرائیلی بمباری میں برابر کے شریک ہو رہی ہے۔ اسی
پر بس نہیں ہے؛ بلکہ اس سے بڑھ کر چونکا دینے والی خبر "مصری وزارت اوقاف"
کی طرف سے آئی ہے۔ وہ یہ ہے کہ مسجد میں امامت و خطابت کے لیے جن لوگوں کی
نئی تقرری ہورہی انھیں تربیتی کیمپ میں جس اہم موضوع پر تربیت دی جارہی ہے
وہ یہ ہے کہ اسرائیل کے خلاف جنگ و جدل اور جھاد کی باتوں سے گریز کیا جائے۔
وزارت اوقاف نے ان اماموں اور خطیبوں سے مطالبہ کیا ہے کہ اسرائیل کے حوالے
سے امن و امان پر زور دیں؛ کیوں کہ وہ مصر کا پڑوسی ملک ہے اور اسلام میں
پڑوسیوں کے حقوق کی رعایت پر بہت زور دیا گیا ہے۔ "وزارت اوقاف" نے دوسری
دلیل یہ پیش کی ہے کہ اسرائیل کے ساتھ مصر کا امن و سلامتی کا معاہدہ ہے؛
لہذا مصریوں کو نقص عہد سے بچنا چاہیے؛ کیوں کہ اسلام میں "نقض عہد" کی
کوئی گنجائش نہیں ہے۔ میرے ناقص خیال میں "مصری وزارت اوقاف" نے جو دلیل
پیش کی وہ پورے طور پر مضحکہ خیز ہے؛ بل کہ "وزارت اوقاف" کا یہ قدم اسلام
کے نام پر ظالم و جابر مملکت اسرائیل کی کھلی حمایت کا اعلان کا ہے۔ مصری
وزارت اوقاف کے اس رویہ سے معلوم ہوتا ہے کہ ڈاکٹر محمد مرسی کا تختہ پلٹنے
کے بعد، اسرائیل کو سیسی کی صورت میں ایک دوسرا حسنی مبارک فراہم ہوگیا ہے،
جو اسرائیلی مفاد کے لیے اپنے دین و ایمان کا سودا بھی کرسکتا ہے۔ جب کہ
ڈاکٹر محمد مرسی مصر کا صدر منتخب ہوتے ہی فلسطینیوں کی آسانی اور راحت کے
لیے فلسطین سے ملنے والی مصری سرحد کو کھولنے کا حکم جاری کردیا اور ان کو
آمد و رفت کی کھلی آزادی دیکر اپنی قوت ایمانی اور اسلامی اخوت کا مظاہرہ
کیا۔ گرچہ آج وہ بغیر کسی جرم کے جیل میں قید ہیں؛ لیکن ان کی قوت ایمانی
اور اسلامی اخوت میں ذرہ برابر بھی فرق نہیں آیا ہے۔ "المرکز الفلسطیني
للاعلام" کی ایک رپورٹ کے مطابق 13/جولائی 2014 کو جب ڈاکٹر محمد مرسی اور
ان کے رفقاء کو ایک مقدمہ کی سماعت کے لیے عدالت میں لایا گیا؛ تو ڈاکٹر
محمد مرسی اور اس کے ساتھیوں نے عدالت میں پہنچتے ہی اپنے ہاتھ اٹھا کر چار
انگلیوں سے "رابعہ" کا نشان بناکر "لبّیک یا غزہ لبّیک یا غزہ" کا نعرہ لگا
کر اہالیان غزہ سے اپنی ہمدردی اور محبت کا اظہار کیا۔ ڈاکٹر محمد مرسی اور
رفقاء کے نعرے سے کمرہ عدالت (Court Room) گونج اٹھا اور جج حواس باختہ
ہوکر، مقدمہ کی کاروائی ملتوی کردیا۔ یہ ڈاکٹر محمد مرسی کی شجاعت و بہادری
اور اسلامی اخوت ہے؛ جب کہ بزدل عبد الفتاح السیسی اسرائیل کی ہاں میں ہاں
کرکے مظلوم فلسطینیوں کے قتل میں اپنے آقا حسنی مبارک کی طرح برابرکا شریک
ہو رہا ہے۔ واضح رہے کہ ظالم و جابر اور ناجائز مملکت اسرائیل نے 7/جولائی
2014 کی شام سے غزہ پٹی پر بمباری شروع کی جو تا ہنوز جاری ہے۔ اس حملے میں
اب تک اسرائیل نے 1500 جگہوں پر بمباری کی ہے۔ اس تحریر کے قلم بند کیے
جاتے وقت یعنی 16/جولائی 2014 تک، میڈیا کی رپورٹ کے مطابق 204 افراد موت
کی نیند سوچکے ہیں، جن میں 80 فی صد معصوم شہری ہیں؛ جب کہ 1100 سے زیادہ
شہری زخمی ہوچکے ہیں۔ مگر اس ظلم و بربریت کے باوجود بھی عالم اسلام اور
اقوام متحدہ ہمیشہ کی طرح چپ سادھے تماشائی بنے ہوئے ہے۔ ہماری دعا ہے کہ
اللہ تعالی غزہ پٹی والوں کی مدد و نصرت فرمائے! ٭ مضمون نگار ،مولانا
خورشید عالم داؤد قاسمی، دارالعلوم، دیوبند کے فاضل اور مون ریز ٹرسٹ اسکول
، زامبیا، افریقہ کے استاذ ہیں۔ ان سے [email protected] پر رابطہ
کیا جاسکتا ہے۔ |
|