ابھی کالم کو تحریر کرتے وقت تک
غزہ میں اسرائیلی جارحیت جاری ہے شہداء کی تعداد 205 سے تجاوز کر گئی ہے
اور کئی سو زخمی اس کے علاوہ ہیں اسرائیل کی اس سفاکانہ اور بربریت سے
بھرپور کاروائی میں ہر عمر کے افراد کو بلا تفریق و رحم درندگی کا نشانہ
بنایا جا رہا ہے شہید ہونے والوں میں نصف سے زائد تعداد معصوم بچوں اور
عورتوں کی ہے۔ پچھلے چھ سالوں میں یہ تیسری بڑی کاروائی ہے۔ اس سے قبل 2012
میں بھی اس طرح کی خون کی ہولی کھیلی گئی تھی جس میں دیڑھ سو سے زائد معصوم
فلسطینی اپنی جان سے ہاتھ دو بیٹھے اور کئی سو اپنے مال املاک و اعضاء سے
محروم کردیئے گئے تھے۔ ابھی اس حملے کے زخم بھرنے نہیں پاۓ تھے کہ فلسطین
کے محکوم و مظلوم عوام پر ایک مرتبہ پھر سے جنگ مسلط کر دی گئی جسکے نتائج
بڑے سنگین برآمد ہونگے اور ہو رہے ہیں صرف اور صرف بیچارے فلسطینیوں کے لئے۔
؎ جنگ مجھ پر ہو مسلط کہ کروں جنگ میں خود
موت ہر حال میں جیتی گی مجھے ہارنا ہے
(شاعر: احمد فقیہہ )
اسرائیل اس حملے کا جواز یہ بتاتا ہے کہ فلسطین کے دہشت گردوں نے اسرائیل
کے تین نوجوان لڑکوں کو اغواہ کرکے قتل کیا ہے۔ جسکے جواب میں ہم اس طرح کی
بیہمانہ کاروائی کرنے کے مجاز ہیں۔ دوسری طرف حماس نے اس قسم کی کاروائی کی
براہراست کوئی ذمہ داری قبول نہیں کی۔ پھر بھی اسرائیل ہر صورت حماس ہی کو
دوشی مانتا ہے۔ یہ الزام ابھی کسی اسرائیلی یا فلسطینی عدالت میں ثابت بھی
نہیں ہوا تھا کہ اسرائیل نے غزہ پر دھاوا بول دیا اور فضائی حملوں سے نہتے
وبےکس فلسطینیوں پر ظلم کے پہاڑ توڑنے شروع کر دیئے۔ اور یوں ایک سوچی
سمجھی سکیم کے تابع گاہے بگاہے مسلم کش کاروائیوں کے ایجنڈے پر عمل درآمد
شروع ہوگیا۔
اسرائیل کا یہ جارحانہ و انسانیت سوز اقدام بالکل ہی انسانی اور جنگی
قوانین کی کھلم کھلا خلاف ورزی ہے۔ کرے کوئی اور بھرے کوئی؟ جس طرح پنجابی
کا ایک محاورہ ہے کہ " ڈِگا کھوتے توں تے غصہ کمیار تے" اسی طرح ایک محاورہ
ہے "جس کی لاٹھی اُس کی بھینس"۔ فلسطینیوں کی حیات کا دارومدار بھی ایک
لاٹھی والے کےغصہ پر ہے کہ وہ لاٹھی والا کب ٹھنڈا ہوتا ہے اور یہ بیچارے
ذرا سکون کا سانس لیتے ہیں اور اپنے دکھوں کا مداوا ڈھونڈتے ہیں۔ اور اکثر
ایسا بھی ہوتا ہے کہ پچھلے زخم ابھی خشک نہیں ہوتے کہ جناب لاٹھی والے صاحب
کی لاٹھی میں ایک بار پھر جنبش سی در آتی ہے اور اس وقت تک شانت نہیں ہوتی
جب تک کہ بھینس کا پنڈا زخموں سے چور چور نہ ہو جاۓ۔
پچھلے دس دن سےخاک اور خون کا یہ گنہونا کھیل جاری و ساری ہے کوئی روکنے
ٹوکنے والا نہیں اب تک غزہ کے ایک ہزار سے زائد گھروں کو نشانہ بنایا جا
چکا ہے۔ تمام مہلک ایجادات کو برتا جا رہا ہے اور معصوم لوگوں کا بے دریغ
قتل عام جاری ہے کسی کا بس نہیں چل رہا اور کسی کی بس ہو چکی ہے۔ سپر پاور
امریکہ اوپر اوپر سے تو دکھاوے کے طور پر جنگ بندی اور صلح کی باتیں کر رہا
ہے جبکہ اندر کھاتے مرن جین سانجھا ہے ، دو بُت ایک جان والی بات ہے۔
عرب دنیا خوابِ خرگوش کے مزے لے رہی ہے وکی لیکس کے مطابق سعودی عرب اور
اسرائیل کے مابین بڑے گہرے تجارتی مراسم ہیں اور بہت سے تجارتی معاہدوں کو
سیغہ راز رکھا گیا ہے۔ یہی سبب ہے کہ اپنے مسلم بھائیوں کی دلجوئی اور
دادرسی نہیں کی جاتی۔
ایسے ہی لوگوں بارے نامور شعر وصی شاہ نے کیا خوب فرمایا ہے؛
جو کسی جبر پہ ہونٹوں کو سیا کرتے ہیں
ظلم کرتے ہیں وہ ظالم کی حمایت کر کے
مرحوم حضرتِ غالب بھی خوب فرما گئے
؎ کعبے کس منہ سےجاؤ گے غالب
شرم تم کو مگر نہیں آتی
اقوامِ متحدہ جس نے 1947 میں فلسطیں کی سرزمین پر یہودیوں کو اپنے ناپاک
پنجے گاڑھنے میں کلیدی کردار ادا کیا اس سے بھی کوئی آس لگانا محض خام
خیالی سے عبارت ہے۔ کچھ نہیں ہو گا کوئی پابندی شبندی نہیں لگے گی۔ اسرائیل
اپنا کام بنا کسی توقف کے جاری و ساری رکھے گا جب تک اپنے مطلوبہ اہداف
حاصل نا کر لے۔
او آئی سی میں بھی اتنا دم خم و سکت نہیں باقی کہ مسلم دنیا کے پسے ہوئے
اور محکوم و محروم تبقات کی خاطر خواہ نمائندگی کا حق ادا کر سکے۔ درحقیقت
پورے عالم اسلام میں کوئی بھی ایسا نڈر و بیباک اور شفاف کردار کا مالک
رہنما موجود نہیں جو کہ کسی طور مسلم اُمہ کے بکھرے ہوۓ شیرازے کو یکبارگی
یکجہ کر سکے۔
مغربی میڈیا بھی حسبِ سابق انسانیت چھوڑ کر مغربی مفادات کا محافظ و ترجمان
بنا ہوا ہے جبکہ ہمارا میڈیا کروڑوں روپے سے سجے سیٹ لگا کر صرف اپنے روزوں
کی افطاری کی فقر کے پروگرام دکھا رہا ہے۔ اس طرف کوئی توجہ ہی نہیں جدھر
دوسرے مسلمان بھائیوں کی سحری و افطاری بم و بارود کھاکے ہوتی ہے۔
اس موقعہ پر تحریکِ طالبان پاکستان و افغانستان کی معنی خیز و پراسرار چپ
نے اس راز پر سے پردہ اُٹھا دیا کہ آۓ یہ لوگ واقعے ہی مسلمانوں کے سچے
خیرخواہ نہیں ہیں یہ مساجد ، مندروں، گرجہ گھروں ، بازاروں اور معصوم
گلزاروں پر حملہ کرنے والے شیطان کے یار ہیں۔
اسی طرح عراق میں نو آموز و نام نہاد خلافت کے متوالے بھی اسرائیل کے
فلسطین پر مظالم سے بالکل بے پرواہ ہیں۔ انکے ایجنڈے میں تو فقظ یہ ہے گرتی
ہوئی دیوار کو ایک دھکا اور دیا جاۓ۔ ابھی عراق امریکی انخلا کے بعد ٹھیک
سے کھڑا بھی نہیں ہو پایا تھا کہ عرب کے فنڈڈ پٹھو عراق میں مسلک و فرقے کی
بنیاد پر الگ ریاست بنانے آگے ہیں۔
خیر اب اس تمام صورتِ حال کو پیشِ نظر رکھتے ہوۓ پاکستان کو کیا کرنا
چاہیئے؟؟؟
پاکستان کے وزیراعظم نے بھرپور الفاظ میں اسرئیلی جارہیت کی مذمت کی ہے۔
دیگر تمام چھوٹی بڑی سیاسی جماعتوں کے قائدین نے بھی اسرائیل کے اس اقدام
بارے سخت الفاظ کا چناؤ کیا ہے۔ عبس یوں خالی مذمتوں سے بات نہیں بننی، کچھ
ہٹ کے کرنے کی ضرورت ہے۔ اور ایک ذمہ دار ایٹمی طاقت ہوتے ہوۓ اور دنیا کی
سب سے بہادر فوج کے ساتھ پاکستان کر بھی سکتاہے۔ پاکستان میں بھرپور صلاحیت
ہے۔ پاکستان کو چاہئیے کہ اپنے دوستوں کو اسرائیل کے مظالم کے خلاف ایک
نقطے پر یکجہ کرے۔ جو کہ ہر صورت ایک ممکن امر ہے چین، ترکی اورعرب ریاستوں
بلخصوص سعودی عرب کے ساتھ مل کر دباؤ بڑھانا ہوگا۔ اس کے ساتھ اگر او آئی
سی کا ایک اجلاس بھی ہوجاۓ کہ جس میں نیٹو کی طرز پہ مسلم دنیا کی بھی ایسی
ایک مشترکہ فوج بنانے کا اعلان کیا جاۓ جو کہ دنیا بھر کے محکوم و محروم
مسلمانوں کے حقوق کی جائز جنگ بھر پور طریقے سے لڑے گی۔
ایسا ہوجاۓ تو کیا ہی عمدہ بات ہو۔ بس جان دار سفارتکاری کی ضرورت ہے۔ ورنہ
یہاں گھر بیٹھے اکیلے نعرے لگانے اور ہمدردی کے راگ الاپنے سے مغربی دنیا
بلخصوص امریکہ و اسرائیل کے کان پر جوؤں تک نہیں رینگنی۔
آخر میں دعا ہے کہ اللہ تعالٰی رمضان المبارک کے مہینہ میں اپنے پیارے
محبوب صلی للہ علیہ وسلم کے صدقے اُمتِ مسلمہ میں اتحاد جگا دے۔ اورایک
باکردار و باصلاہیت قیادت عطاء فرما جو کہ ہر محاظ پر تیری مدد کے طفیل
پوری دنیا میں تیرے محبوب صلی للہ علیہ وسلم کی امت کو درپیش چیلنجز سے
باخوبی نبرد آزما ہو سکے۔ اور اللہ پاک فلسطین کے معصوم و بے سہارا
مسلمانوں کو آسرا عطا کر اور اسرائیل کے ناپاک عزائم کو خاک میں ملا دے۔
اور یااللہ پوری مسلم دنیا بلخصوص پاکستان کو ہر قسم کے اندرونی و بیرونی
خلفشار سے محفوظ فرما۔ آمین |