حکمران جماعت کا پھرسابق صدر زرداری سے مشاورت کیلئے رابطے بڑھانے کا فیصلہ

پاکستان عوامی تحریک کے زیر اہتمام سانحہ ماڈل ٹاؤن کے یک نکاتی ایجنڈے پر بلائی گئی آل پارٹیز کانفرنس کے پانچ نکاتی مشترکہ اعلامیہ میں وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف کو سانحہ کا ذمہ دار قرار د ے کر مستعفی ہونے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ اگر شہباز شریف خود مستعفی نہ ہوں تو صدر مملکت بحیثیت سربراہ ریاست ان کو خود عہدہ سے ہٹانے میں کردار ادا کریں، استعفیٰ طلب کریں ،نہ دیں تو برطرف کر دیں۔ آزادانہ غیر جانبدارانہ تحقیقات کیلئے سپریم کورٹ کے تین غیر متنازعہ غیرجانبدارانہ اور اچھی شہریت کے حامل ججز جن پر متاثرین کو مکمل اعتماد ہو پر مشتمل با اختیار جوڈیشل کمیشن تشکیل دیا جائے جبکہ واقعے کی تحقیقات کیلئے وفاقی تحقیقاتی اداروں کے اچھی شہرت کے حامل اعلی افسران پر مشتمل انکوائری کمیٹی تشکیل دی جائے، آئی جی ڈی آئی جی آپریشنز ہوم سیکرٹری پنجاب ڈی سی او سی سی پی او ایس ایس پیز ایس پی ماڈل ٹاؤن اور متعلقہ ڈی ایس پیز اور ایس ایچ اوز کو فوری طور پر برطرف کر کے قتل عام دہشتگردی اور اقدام قتل کے جرم میں گرفتار کیا جائے۔ اعلامیہ میں سانحہ لاہور کی شدید ترین الفاظ میں مذمت کی گئی ہے اور وزیراعلی شہباز شریف سمیت جملہ صوبائی وزرا اور واقعہ میں ملوث حکومتی مشینری کے ارکان کے استعفوں کا مطالبہ کیا گیا ہے اورکہا گیا ہے کہ شہباز شریف اور ملوث وزرا ک خود کو قانون کے حوالے کر دیں۔ پرامن نہتے شہریوں پر ظلم اور بربریت ایک ایسا عمل ہے جو اسلامی آئینی قانونی جمہوری اور بین الاقوامی اقدار کی دھجیاں اڑانے کے مترادف ہے۔ وفاقی اورصوبائی حکومتوں اور پولیس انتظامیہ کو متنبہ کیا جاتا ہے کہ اس طرح کے کسی واقعے کو قطعی برداشت نہیں کیا جا سکتا اور اسکے ذمہ داران کو اقتدار میں رہنے کا کوئی حق نہیں۔

لاہور میں اے پی سی کے موقع وزیر اعظم میاں نواز شریف اپنے بھائی میاں شہباز شریف سے ملنے رائے ونڈ لاہور گئے جہاں ان کی آمد کے موقع پر انتہائی سخت حفاظتی انتظامات کئے گئے تھے۔ مسلم لیگ ن کی حکومت نے پارلیمنٹ میں موجود پیپلز پارٹی سمیت دیگر جماعتوں کے رہنماؤں سے ملاقاتوں کا فیصلہ کیا ہے۔ یہ فیصلہ بعض جماعتوں کی قیادت کی طرف سے اختیار کئے جانیوالے طرزعمل پر ان جماعتوں کو اعتماد میں لینے کیلئے کیا گیا ہے۔ ان ملاقاتوں میں ملک میں جمہوریت کو مضبوط بنانے کیلئے مشترکہ موقف اختیار کرنے کی بات کی جائے گی۔ وزیراعظم نواز شریف اس سلسلہ میں جلد اپوزیشن لیڈر سید خورشید شاہ سے ملاقات کریں گے۔ جس کے بعد پیپلز پارٹی کی اعلی قیادت سے بھی ملاقات کی جائے گی۔ پیپلز پارٹی سے ملاقاتوں کا یہ سلسلہ میثاق جمہوریت کی تجدید کیلئے بھی ہے۔ یہ فیصلہ رائے ونڈ میں وزیراعظم میاں نواز شریف اور وزیراعلی شہبازشریف کی ملاقات میں کیا گیا۔ اس موقع پر عوامی تحریک کی اے پی سی کے اعلامیے، تحریک انصاف کے مجوزہ لانگ مارچ، ملک میں امن و امان کی مجموعی اور سیاسی صورتحال کے علاوہ توانائی کے جاری ترقیاتی منصوبوں، رمضان بازاروں اور یوٹیلٹی سٹورز پر عوام کو دی جانیوالی اشیا کی ترسیل اور انکی مانیٹرنگ پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ وزیراعلی پنجاب شہباز شریف نے وزیراعظم کو سانحہ لاہور کی تحقیقات میں اب تک ہونے والی پیشرفت کے حوالے سے اعتماد میں لیا۔ وزیراعظم نوازشریف نے وزیراعلی پنجاب کو ہدایت کی کہ سانحہ کے اصل ملزمان کو کیفرکردار تک پہنچانے کے لئے کوئی دقیقہ فروگزاشت نہ کیا جائے کیونکہ اس افسوسناک واقعہ کی وجہ سے مسلم لیگ ن اور اس کی صوبائی حکومت کی نیک نامی داؤ پر لگ گئی ہے۔ وزیراعظم نے وزیراعلی کو خاص طور پر رمضان المبارک میں اشیائے خورد و نوش کی بروقت اور سستے داموں روزہ داروں کو فراہمی کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ صوبائی حکومت مہنگائی اور ذخیرہ اندوزی کرنیوالے عناصر کا سختی سے محاسبہ کرے۔ وزیراعظم نوازشریف نے کہا کہ بے گھر پاکستانیوں کی مدد پر سیاست کرنیوالوں کے چہرے عوام کے سامنے بے نقاب ہو چکے ہیں۔

وزیراعظم محمد نوازشریف اور سابق صدر آصف زرداری میں چند روز میں کراچی میں ملاقات کا امکان ہے۔ اس ملاقات میں شمالی وزیرستان آپریشن، آئی ڈی پیز کے معاملے، حکومت مخالف احتجاجی تحریک، 14اگست کے پی ٹی آئی کے لانگ مارچ اور دیگر امور پر بات ہو گی۔ مسلم لیگ ن کی اعلی قیادت عوامی تحریک کی اے پی سی میں شرکت نہ کرنے والی جماعتوں کی قیادت سے بھی رابطہ کرے گی اور سونامی مارچ ناکام بنانے کے لئے انکی حمایت حاصل کی جائے گی۔ رمضان میں مسلم لیگ ن اور مارچ مخالف جماعتوں میں رابطوں میں تیزی آئے گی۔ ملاقات میں فیصلہ کیا گیا وزیراعظم نوازشریف اور وزیراعلی شہباز شریف سیاسی جماعتوں کے قائدین سے ملاقاتیں کرینگے۔

ملاقات کے دوران وزیراعظم نوازشریف نے کہا کہ ملک میں جمہوریت کو عدم استحکام کا شکار کرنیوالوں اور لانگ مارچ کی باتیں کرنیوالوں کا ایجنڈا ملک کی ترقی وخوشحالی کی دشمنی پر مبنی ہے ہم انہیں کسی بھی صورت کامیاب نہیں ہونے دینگے، جمہوریت سمیت ہر ادارے کو مضبوط بنایا جائیگا۔ شمالی وزیرستان میں دہشت گردوں کے خلاف فوجی آپریشن میں عوام کو اتحاد اور یکجہتی کی جتنی ضرورت آج ہے ماضی میں کبھی نہیں رہی بدقسمتی سے کچھ لوگ اپنی سیاسی دکانداری چمکانے کیلئے ملک میں افرا تفری انتشار اور فساد کی سیاست کر رہے ہیں۔ عوام نے ہمیں پانچ سال کیلئے حکومت کرنے کا مینڈیٹ دیا ہے، مخالف سیاسی جماعتوں کو چاہئے کہ وہ حکومت کو گرانے پر زور لگانے کی بجائے آئندہ انتخابات کا انتظار کریں عوام جسے منتخب کرینگے وہ فیصلہ عوام کا ہو گا۔

وزیر اعظم نواز شریف، جب سے طاہرالقادری متحرک ہوئے ہیں خاصے پریشان ہیں اور اب بات وزیر اعلیٰ پنجاب کے استعفیٰ سے بھی کہیں آگے جارہی ہے ۔ایم کیو ایم کی ڈاکٹر طاہر القادری کی اے پی سی میں شرکت کوئی چھوٹی بات نہیں تھی تاہم جماعت اسلامی نے اس موقع پر کنی کتراتے ہو ئے اپنی جماعت کے ایک عہدیدار نذیر جنجوعہ کو بھیج دیا اور امیر جماعت شریک نہیں ہوئے،وزیر اطلاعات سمیت حکمران لیگ کے وزراء اور دانشور نماء رہنماؤں نے اس حوالے سے خاصی رکیک زبان استعمال کی اور اے پی سی کی خوب بھد اڑائی ۔کئی مخولیوں کی طرح کے ایک جیسے بیانات مسلسل اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ دلیل کی قوت ختم ہونے پر عامیانہ پن کو فروغ دیا جارہا ہے ۔

اعلامیے میں کہا گیا کہ 17جون کو لاہور میں ڈاکٹر طاہر القادری کی رہائشگاہ اور منہاج القرآن سیکرٹریٹ پر ہونے والا پولیس کا حملہ ریاستی دہشتگردی قتل و غارت گری اور حکومتی بربریت اور تشدد کی بد ترین مثال ہے۔ پرامن شہریوں پر براہ رست گولیاں چلائی گئیں اور پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ خواتین کو بھی براہ راست گولیوں کا نشانہ بنا کر شہید کر دیا گیا اور قرآن مجید کی بے حرمتی کی گئی۔ کارکنوں پر قائم بے بنیاد مقدمات ختم کئے جائیں۔ اعلامیہ میں منہاج القرآن کی طرف سے تھانہ فیصل ٹاؤن میں دی گئی درخواست پر فوری ایف آئی آر درج کرنے کا کا مطالبہ بھی کیا گیا ہے۔ درخواست کو دس روز سے زائد کا عرصہ گزر چکا ہے لیکن ایف آئی آر درج نہیں کی گئی۔ تیسرے مطالبے میں کہا گیا کہ ریاستی دہشتگردی اور قتل عام کے مناظر ملکی چینلز پر براہ راست دکھائے جاتے رہے۔ وزیراعلی پنجاب اس قتل و دہشتگردی کے اصل ذمہ دار ہیں ان کے مسند اقتدار پر رہتے ہوئے کسی قسم کی غیر جانبدار تفتیش اور شہادتوں کا کوئی امکان اور نہ ہی عدل و انصاف کے تقاضوں کی بجاآوری ممکن ہے۔ مشترکہ اعلامیے کے چوتھے مطالبہ میں کہا گیا ہے کہ سانحہ لاہور میں ملوث جملہ پولیس افسران اور انتظامی عہدیداران بشمول آئی جی ڈی آئی جی آپریشنز ہوم سیکرٹری پنجاب ڈی سی او سی سی پی او ایس ایس پیز ایس پی ماڈل ٹاؤن اور متعلقہ ڈی ایس پیز اور ایس ایچ اوز کو فوری طور پر برطرف کر کے قتل عام دہشتگردی اور اقدام قتل کے جرم میں گرفتار کیا جائے۔ پانچویں مطالبہ میں کہا گیا کہ سپریم کورٹ کے کمشن کو یہ اختیار دیا جائے کہ وہ وزیراعظم نامزد وفاقی وزراء وزیراعلی پنجاب سمیت کسی بھی حکومتی اور انتظامی شخصیت یا اہلکار کو طلب کر سکے۔ مزید براں جوڈیشل کمشن سانحہ ماڈل ٹاؤن کی تحقیقات کے لئے تحقیقاتی اداروں کے اچھی شہرت کے حامل اعلی افسران جن پر متاثرین کو مکمل اعتماد ہو پر مشتمل انکوائری کمیٹی بھی تشکیل دی جائے۔ شرکا نے رانا ثنا اﷲ کے استعفے کو مرغے کی قربانی قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اس سانحہ کی ایف آئی آر درج ہوئی تو اسکے ذمہ دار تختہ دار پر چڑھتے ہوئے صاف دکھائی دے رہے ہیں، پاک فوج شمالی وزیرستان میں دہشتگردوں کے خلاف ضرب عضب آپریشن میں مصروف ہے جبکہ حکمرانوں نے اسے ناکام بنانے کیلئے ماڈل ٹاؤن میں ضرب غضب شروع کر دیا، جنرل ڈائر کے جانشین قاتل اعلی استعفی دے کر شامل تفتیش ہوں، ریاستی دہشتگردی کا نیا کلچر متعارف کرایا گیا جو لمحہ فکریہ ہے اور اگر اس کو نہ روکا گیا تو کل ہر جماعت اس کا نشانہ بنے گی۔طاہر القادری نے کا کہنا تھا کہ سانحہ لاہور کی تاریخ میں کوئی مثال نہیں ملتی۔ منہاج القرآن سیکرٹریٹ کے باہر رکاوٹیں ہم نے نہیں لگائی تھیں۔ اگر صرف رکاوٹیں ہٹانا مقصود ہوتا تو پنجاب کی انتظامیہ کے لوگ مذاکرات کرتے لیکن رات کے اندھیرے میں ہزاروں اہلکاروں کی آمد ہوائی فائرنگ لاٹھی چارج آنسو گیس کی شیلنگ کے بعد سیدھی گولیاں چلانا کیا رکاوٹیں ہٹانے کیلئے تھا؟۔ رانا ثنا اﷲ نے الزام لگایا کہ منہاج القرآن میں ناجائز اسلحہ کے ذخائر تھے لیکن پھر خود ہی ان الزامات سے دستبردار ہو گئے اسکے بعد یہ الزام لگایا گیا کہ منہاج القرآن سیکرٹریٹ سے فائرنگ کی گئی اور اس مطالبے سے بھی خود ہی دستبردار ہو گئے۔ وزیراعلی ٰنے پریس کانفرنس میں ریاستی دہشتگردی کے جرم کو قبول کیا لیکن گیارہ روز گزرنے کے باوجود ہماری ایف آئی آر درج نہیں کی گئی۔ شجاعت حسین نے کہا کہ ہماری پاکستانی افواج دہشت گردوں کیخلاف آپریشن میں مصروف تھیں تو دوسری طرف ریاستی دہشت گردوں نے 17 جون کو ماڈل ٹاؤن لاہور میں ضرب غضب شروع کر دیا، اگر اسے نہ روکا گیا تو حکمرانوں کے غیظ و غضب سے کوئی نہیں بچ سکتا، جس انداز سے سیاست میں عدم برداشت کی انتہا کی گئی اس کو اسی وقت اسی جگہ نہ روکا گیا تو کوئی بھی حکمران اپنے خلاف اٹھنے والی آواز کو ہمیشہ کیلئے بند کر دے گا۔اس سانحہ عظیم پر ق لیگ کا موقف ہے کہ ایک رکنی کمیشن ہو یا 100 رکنی، جلیانوالہ باغ کے جنرل ڈائر کے جانشین قاتل اعلی پنجاب شہباز شریف کو اپنے عہدے سے استعفی دے کر تفتیش میں شامل ہونا چاہئے تاکہ قانون و انصاف کے تقاضے پورے کئے جائیں۔ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ تحریک انصاف کی قیادت نے اس بربریت پر پہلے روز ہی صوبے کے چیف ایگزیکٹو کے استعفے اور اسکے ذمہ داران کو انصاف کے کٹہرے میں لانے کا مطالبہ کر دیا تھا۔ جب متاثرہ فریق نے ہی جوڈیشل کمیشن پر عدم تحفظ کا اظہار کردیا ہے تو اس کی کیا حیثیت رہ جاتی ہے۔ متحدہ قومی موومنٹ کے خالد مقبول صدیقی نے کہا کہ 17جون کو سرکاری سرپرستی میں سرکاری دہشتگردی کے ذریعے پاکستان کی تاریخ میں ایک سیاہ باب رقم کیا گیا جسکی جتنی بھی مذمت کی جائے وہ کم ہے۔ صاحبزادہ حامد رضا نے کہا کہ شہدا کا خون ہمارے ضمیر پر ہمیشہ دستک دیتا رہے گا۔ یہاں ایک صاحب کو قربانی کا بکرا بنایا گیا لیکن جو اصل ذمہ دار آج بھی عہدے پر براجمان ہیں۔ شہدا کا خون رائیگاں نہیں جانے دیں گے۔ حکمرانوں کی رانا ثنا کی قربانی دے کر معاملہ دبانے کی کوشش کامیاب نہیں ہو گی۔ سپریم کورٹ آ ف پاکستان کو اس واقعے پر ازخود نوٹس لینا چاہیے تھا لیکن ایسا نہیں ہوا اب ہمیں مشترکہ طور پر فیصلہ کر کے عملی طور پر سڑکوں پر آنا پڑے گا۔ شیخ رشید احمد نے کہا کہ گھی سیدھی انگلی سے نہیں نکلے گا، حکمرانوں کی سوچ ہی گلو بٹ اور ضیا الدین بٹ سے شروع ہوتی ہے۔ ملک میں ایک خاندان کی حکومت ہے شکر ہے رویت ہلال کمیٹی میں ان کا کوئی فرد شامل نہیں ورنہ چاند کا فیصلہ بھی رائے ونڈ میں ہوتا۔ راجہ ناصر عباس نے کہا کہ شہباز شریف پریس کانفرنس کر کے آدھا سچ نہ کہتے بلکہ وہ بتاتے یہ سب کچھ ریاستی سرپرستی میں ہوا ہے اور وہ اسکے ذمہ دار ہیں ۔ انہوں نے کہاکہ اس سانحے پر وزیر اعلی پنجاب اور انتظامیہ کو استعفی دے دینا چاہئے تھا۔ ہمیں ظلم کا راستہ روکنے کے لئے گھروں سے باہر نکلنا ہوگا۔ اگر طاہر القادری احتجاج کریں گے ہم انکے ساتھ ہونگے۔ جماعت اسلامی کے نذیر احمد جنجوعہ نے کہا کہ طاہر القادری نے شہادتوں کو سیاسی مقاصد کیلئے استعمال نہیں کیا۔ انہوں نے کہا کہ عوامی تحریک نے جن افراد کے نام دئیے ہیں انکے خلاف ایف آئی آر درج ہونی چاہئے۔ احمد رضا قصوری نے کہا کہ عوامی تحریک اپنی ایف آئی آر درج کرائے۔ میری ایف آئی آر پر چار سال بعد ملک کا وزیراعظم تختہ دار پر لٹک گیا اور مجھے صاف نظر آرہا ہے کہ اس سانحے کے ذمہ دار بھی تختہ دار پر چڑھیں گے۔ میاں محمود الرشید نے کہا کہ اگر وزیراعلی کو اس سانحے کا علم نہیں تھا تو انہیں اخلاقی طور پر اپنے عہدے سے مستعفی ہو جانا چاہئے تھا۔ طاہر القادری نے کہا کہ سپریم کورٹ کو واقعہ پر ازخود نوٹس لینا چاہئے۔ پرویز الہی نے کہا کہ اب تک منہاج القرآن کی جانب سے ایف آئی آر درج نہیں کی جا رہی اس لیے جوائنٹ انوسٹی گیشن کی بات ابھی کیسے کی جا سکتی ہے؟ شہباز شریف کے استعفی کے بغیر منصفانہ تفتیش ممکن نہیں، ان کی بطور وزیراعلی موجودگی میں ان کے خلاف کون گواہی دیگا۔
Hanif Lodhi
About the Author: Hanif Lodhi Read More Articles by Hanif Lodhi: 51 Articles with 57733 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.