کوئی خوشی بھی ہمارا مقدر نہیں کیا؟
(Malik Abdul Rehman Jami, Abbotabad)
طلحہ رحمن جامیؔ خاص بچہ ہے۔قوتِ
گویائی اور سماعت سے محروم لیکن بچپن ہی سے اسے سوال کرنے کا شوق ہے۔وہ
میرا سفر وحضر کا ساتھی ہے میرا لختِ جگر۔اس کے پاس معلومات کا خزانہ
ہے۔ساؤتھ افریقہ کے نیلسن منڈیلا سے لے واکا واکا والی کاکی تک وہ ہر شے کی
خبر رکھتا ہے۔اسے یہ بھی پتہ ہے کہ قائد اس ملک کو کیسا دیکھنا چاہتے تھے
اور علامہ اقبال اس قوم کو کیا سبق دے گئے ہیں۔اسے امریکیوں کی ہم سے محبت
کی بھی خبر ہے اور بھارتی لالوں کی نفرت سے بھی وہ واقف ہے۔وہ پنج وقتہ
نمازی ہے اور اﷲ اور اس کے رسولﷺ کی محبت سے بھی اس کا سینہ روشن ہے۔ اسے
خبر ہے کہ طالبان کون ہیں اور اسے یہ بھی خبر ہوتی ہے کہ پاک فوج کیا کر
رہی ہے۔اسے سیاست دانوں کے بارے میں بھی اتنی معلومات ہیں کہ بعض اوقات
مجھے خود حیرت ہوتی ہے۔ ہم سب سنتے ہیں وہ سنتا نہیں سمجھتا ہے اور پھر اس
پہ یقیں رکھتا ہے بلکہ یقینِ محکم۔اس کے اکثر سوالوں کے میرے پاس جواب نہیں
ہوتے۔
ہم ایک دفعہ اسلام آباد گئے تو واپسی پہ پوچھنے لگا کہ یہ ہمارا دارالخلافہ
ہے؟ میں نے اثبات میں سر ہلایا تو اگلا سوال تیار تھا۔یہاں دوسرے ملکوں کے
لوگ بھی رہتے ہیں۔میں نے پھر ہاں میں سر ہلایا تو چپ ہو گیا۔ ہم ایک سی این
جی پمپ کے پاس سے گذرنے لگے جہاں گاڑیوں کی تقریباََ دو میل لمبی لائن لگی
تھی۔اس نے مجھے رکنے کا اشارہ کیا۔میں نے اسے بتایا کہ اتنی لمبی لائن میں
لگ کے کل تک ہماری باری نہیں آسکتی۔کہنے لگا تم رکو تو سہی۔میں رک
گیا۔پوچھنے لگا کہ جب دوسرے ملکوں کے لوگ یہ مناظر دیکھتے ہوں گے تو وہ
ہمارے بارے میں کیا سوچتے ہوں گے۔ پھر اس نے ناک پہ دوسری انگلی رکھ کے
چاقو یا چھری کی طرح گھمائی اور پوچھنے لگا کیا اس سے غیر ملکیوں کے سامنے
ہماری ناک نہیں کٹ جاتی ہو گی۔میں نے اسے بتایا کہ ہمارے ملک میں سی این جی
کم ہے جب کہ اس کی طلب زیادہ ہے تو اگلا سوال تھا کہ جب یہ لوگ یہ پمپ
لگانے کی اجازت دے رہے تھے تو کیا ان کا دماغ خالی تھا۔اب اس سوال کا اسے
میں کیا جواب دیتا۔
وہ دو دن بعد اٹھارہ سال کا ہو جائے گا۔اس کا شناختی کارڈ بنوانا ہے۔ایبٹ
آباد ہمارا آبائی علاقہ ہے لیکن ہم پچھلے ساٹھ سال سے واہ کینٹ میں رہ رہے
ہیں۔مجھے کہنے لگا کہ میرا کرسی والا شناختی کارڈ بنے گا ۔معذور لوگوں کے
شناختی کارڈ پہ ویل چئیر کی تصویر بنی ہوتی ہے۔میں نے ہاں میں سر ہلایا تو
کہنے لگا کہ میں اپنا شناختی کارڈ ایبٹ آباد سے بنواؤں گا۔میں نے وجہ پوچھی
تو کہنے لگا کہ وہاں معذور لوگوں کا کارڈ ایک دن میں بن جاتا ہے۔پنڈی میں
مجھے معذور ثابت کرنے کے لئے تین ماہ لگ جائیں گے۔میں نے اس سے سوال کیا کہ
اسے یہ بات کس نے بتائی ہے تو وہ کہنے لگا کہ میں فیس بک پہ نہ صرف پاکستان
بلکہ ساری دنیا کے سماعت سے محروم لوگوں سے بات چیت کرتا ہوں ۔وہیں سے مجھے
یہ بات پتہ چلی ہے۔میں نے راولپنڈی میں اپنے کچھ دوستوں سے پروسیجر معلوم
کیا تو انہوں نے تصدیق کی کہ پراسس واقعی کافی لمبا ہے۔آپ محکمہ صحت والوں
کو درخواست دیتے ہیں۔وہ متعلقہ دفتر کو بھجوائی جاتی ہے۔ای ڈی او ہیلتھ تین
مہینے میں اکٹھی ہونے والی درخواستوں پہ فیصلہ دیتے ہیں ۔پھر وہ درخواست
متعلقہ فرد کو دی جاتی ہے۔ پھر وہ اسے لے نادرہ دفتر میں جمع کرواتا
ہے۔اکثر معذور افراد اتنی مشقت کے قابل ہی نہیں ہوتے۔ معذور افراد کی طرف
ہمارے معاشرے کا رویہ ویسے ہی بے رحمانہ ہے۔اس لئے اکثریت یہ بھاری پتھر
چومے بغیر ہی رکھ دیتی ہے اور یوں حکومت کے ریکارڈ سے ایک معذور کم ہو جاتا
ہے۔
جیسا کہ میں نے پہلے عرض کیا اسے اپنے وطن سے بہت پیار بھی ہے اور اسے اس
کی بہت فکر بھی رہتی ہے۔اس کے اکثر سوال پاکستان کی سالمیت اور اس کے
استحکام کے بارے میں ہوتے ہیں۔فیفا ورلڈ کپ کے مقابلے اس نے بڑے شوق سے
دیکھے۔اس کے بارے اس کا سوال تھا کہ ہم ان مقابلوں میں کیوں نہیں جاتے۔ میں
نے کہا ہماری ٹیم نہیں ہے۔کہنے لگا کیوں نہیں ہے۔اب میں اسے کیا بتاتا کہ
ہمارے تو قومی کھیل ہاکی کی بھی اب کوئی ٹیم نہیں ہے۔ ہم نے ہر وہ چیز تباہ
کر دی ہے جس کے ساتھ قومی آتا ہے۔اسے لیکن میں یہ نہ بتا پایا کہ وہ سنتا
نہیں سمجھتا ہے ۔اور سمجھ کے یقین کرتا ہے۔میں نے اسے بتایا کہ ہم کرکٹ جو
کھیلتے ہیں۔کہنے لگا کہ آئر لینڈ والے تو دوسری ٹیموں کے ساتھ اپنے ملک میں
کھیلتے ہیں جبکہ ہم دوسری ٹیموں کے ساتھ یو اے ای میں کیوں کھیلتے ہیں۔پھر
خود ہی کہنے لگا کہ ادھر کوئی ٹیم آتی جو نہیں ۔کوئی آئے تو ملک دشمن اس پہ
حملہ جو کر دیتے ہیں۔پھر خود ہی کہنے لگا کہ یہ سب بھارت کا کیا دھرا ہے۔وہ
ہم سے جیت نہیں سکتا اس لئے وہ ہمارے ملک میں اس کھیل کو برداشت ہی نہیں کر
سکتا۔
جرمنی اور برازیل کے سیمی فائنل میں میری ہمدردیاں برازیل کے ساتھ تھیں
جبکہ وہ جرمنی کی حمایت کر رہا تھا۔ برازیل کی عبرتناک شکست پہ اس نے پورے
دو دن تک میرا توا لگایا۔ہم یہ میچ بھی پورا نہیں دیکھ سکے کہ ہمارے حلقے
میں اس وقت لوڈ شیڈنگ تھی۔فائنل کے لئے اس نے بڑی تیاری کر رکھی تھی۔سیون
اپ،چپس وغیرہ۔۔۔۔میچ ہم دونوں نے اکٹھے دیکھا۔بات جب پنلٹی ککس تک چلی گئی
تو ہماری لائٹ پھر چلی گئی۔طلحہ بہت بد مزہ ہوا۔ اس کے چہرے پہ عجیب قسم کی
مایوسی اور بے بسی تھی۔مجھے سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ میں اسے کیسے تسلی دوں۔
کچھ عرصہ پہلے جب ایک یو کے میں رہائش پذیر ایک دوست نے فیملی سمیت انگلینڈ
شفٹ ہونے کا مشورہ دیا اور اپنی پوری مدد کا یقین دلایا تو گھر میں میں اور
طلحہ ہی تھے جنہوں نے اس پروپوزل کو ویٹو کیا۔گھر میں میرے ویٹو کی حیثیت
تو بس یونہی ہے لیکن طلحہ کا ویٹو امریکہ کے ویٹو جیسا ہے۔اس نے کہا
پاکستان ہمارا ملک ہے۔یہاں ہماری عزت ہے۔ہم دوسروں کے ملک میں جا کے کیوں
رہیں۔
طلحہ اچانک میری طرف مڑا اور پوچھنے لگا کہ میرے جس دوست نے ہمیں یو کے
بلانے کی آفر کی تھی کیا وہ ابھی بھی ہے۔میں نے پوچھا کیوں؟ کہنے لگا یہاں
خوش ہونے والی کوئی بات ہی نہیں۔ہر شخص جیبیں بھر رہا ہے۔نہ بجلی ہے نہ
گیس،کام کوئی ہے نہیں۔لوگ سارا دن فارغ بیٹھے رہتے ہیں۔بھوک ہے لوگوں کے
پاس پہننے کو کپڑے نہیں۔اسی وجہ سے ایک دوسرے سے لڑتے ہیں۔ بادشاہ ،وہ
حکمرانوں کو تاج والا کہتا ہے خود تو عوام کے لئے خوشی کا کوئی موقع مہیا
نہیں کرتے۔اگر پاکستانی دنیا میں کہیں خوشی کا کوئی موقع تلاش کر لیتے ہیں
تو بادشاہوں کو وہ بھی ایک آنکھ نہیں بھاتا۔وہ بجلی بند کر دیتے ہیں۔کیا
فرق پڑتا اگر یہ میچ کے دو گھنٹے لوڈ شیڈنگ نہ کرتے۔میں اسے کیا بتاتا کہ
جہاں عین سحری اور افطار کے وقت لوڈ شیڈنگ کی جاتی ہو وہاں میچ کی کسے
پرواہ اور میچ بھی فٹبال کا۔کیا واقعی پاکستانیوں کا کسی ادھاری خوشی پہ
بھی کوئی حق نہیں؟ |
|