میچ تھا یا مذاق؟
(M.Ibrahim Khan, Karachi)
فٹ بال ورلڈ کپ کا پہلا سیمی
فائنل فی الواقع فٹ بال کا میچ تھا یا مذاق؟ یہ بات اب تک فٹ بال کے شائقین
سے ہضم نہیں ہو پا رہی کہ برازیل کی ٹیم اِس طرح بھی ہار سکتی ہے۔ مگر یہ
کھیل ہے اور کھیل میں کچھ بھی ہوسکتا ہے۔
کھیل کی تکنیکی باریکیوں پر نظر رکھنے والوں کا کہنا ہے کہ برازیل کی ٹیم
نے جرمنی کے خلاف جو کھیل پیش کیا وہ کھیل کہاں تھا، بے حواسی کا مظاہرہ
تھا۔ اور مظاہرہ بھی ایسا بھرپور کہ تبصرہ کرنے والے الفاظ تلاش کرتے رہ
گئے۔ کسی کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ برازیلین فٹ بالرز کو کس طور
’’خراجِ عقیدت‘‘ پیش کیا جائے!
1958 میں برازیل نے فرانس کو سیمی فائنل میں پانچ گول سے ہرایا تھا۔ اب سات
گول کھاکر انہوں نے اپنا ہی ریکارڈ تڑوایا ہے۔ چھ منٹ میں چار گول! بات
قابلِ یقین ہے نہ سمجھ میں آنے والی! برازیلین ٹیم یا اُس کے پرستاروں کی
بات تو جانے ہی دیجیے، خود جرمن کھلاڑیوں کو بھی یقین نہیں آ رہا تھا کہ
اُن کے ہاتھوں یہ کیسا چمتکار سرزد ہو رہا ہے!
اسٹیڈیم میں موجود تماشائی پہلے گول پر بھی چونکے تھے۔ مگر اِس کے بعد ع
…… چراغوں میں روشنی نہ رہی!
جب پے در پے گول ہوئے تو تماشائیوں کو ایسا لگا جیسے شہابیوں کی برسات ہو
رہی ہے۔ دوسرے گول نے برازیل کی کمر توڑ دی۔ اور پھر پوری ٹیم نے جس انداز
سے ہتھیار ڈالے اُسے دیکھ کر میر تقی میرؔ کا شعر بے ساختہ یاد آیا
وے زور ور جواں جنہیں کہیے پہاڑ تھے
آئی جو موجِ حادثہ، تِنکے سے بہہ گئے
کہنے کو میچ جرمنی اور برازیل کی ٹیموں کے درمیان تھا مگر در حقیقت جرمن
ٹیم برازیل سے کھیل رہی تھی یا یوں کہیے کہ کِھلواڑ کر رہی تھی! پاکستان
میں فٹ بال کا کچھ خاص کریز نہیں۔ ورلڈ کپ ہوتا ہے تو لوگ دیکھ لیتے ہیں۔
مگر اِتنا شعور تو فٹ بال کے پاکستانی شائقین میں بھی پایا جاتا ہے کہ کھیل
اور کِھلواڑ کا فرق سمجھ سکیں۔
یہ برازیل کو آخر ہوا کیا؟ سب کچھ یوں پلک جھپکتے میں کیونکر خاک میں مِل
گیا؟ میچ کے دوران عزیزم عارف انصاری کا ایس ایم ایس آیا۔ ’’یورپ کی ٹیمیں
سسٹم کے تحت کھیلتی ہیں اور ٹیم ورک پر یقین رکھتی ہیں۔ غیر یورپی ٹیموں
میں انفرادی کھیل پر توجہ دی جاتی ہے۔ ہر شخص چاہتا ہے کہ لوگ اُسے ہیرو
قرار دے کر کاندھوں پر اُٹھالیں!‘‘ بات سولہ آنے یہی ہے۔
برازیلین ٹیم کا پورا انحصار نیمار اور کپتان تھیاگو سِلوا پر تھا۔ نیمار
اَن فِٹ ہوکر باہر ہوا۔ کپتان پر پابندی عائد ہونے کے باعث کھیل نہیں سکتے
تھے۔ لیجیے، کام تمام ہوا۔ کھیل ختم، پیسہ ہضم۔ پوری ٹیم نے ہاتھ پاؤں
ڈھیلے چھوڑ دیئے۔ عزیزم عارف انصاری کو غصہ اِس بات پر نہیں تھا کہ برازیل
کی ٹیم ہار رہی تھی۔ ہار یا جیت کھیل کا حصہ ہو۔ مگر ع
مقابلہ تو دِلِ ناتواں نے خوب کیا
والی کوئی بات دکھائی نہیں دے رہی تھی۔ اُنہیں اعتراض ہارنے کے انداز پر
تھا۔ کیا شرمناک انداز تھا۔ فٹ بال ورلڈ کپ کے سیمی فائنل میں کوئی ٹیم
ابتدائی پچیس تیس منٹ میں پانچ گول کھائے؟ اور اُن میں سے بھی چار گول صرف
پانچ منٹ میں ہوں تو باقی کیا رہ جاتا ہے؟ برازیلین ٹیم نے اپنے نام کی
لُٹیا ہی ڈبودی۔
دیکھنے والوں نے دیکھا کہ جرمن کھلاڑیوں نے دوسرے گول کے بعد گول کو
سیلیبریٹ بھی کرنا چھوڑ دیا! آپ نے بھی سُنا ہوگا ع
قدر کھو دیتا ہے ہر روز کا آنا جانا
طویل و صبر آزما انتظار کے بعد اور سخت جاں فشانی کے نتیجے میں گول اسکور
ہو تو برتری لینے والی ٹیم اور اُس کے شائقین گول کا پورا مزا لیتے ہیں۔ چھ
منٹ میں چار گول اسکور ہوجائیں تو کون ہے جو اُچھلے گا، ناچے گا؟
شریف امروہوی صاحب کو فٹ بال سے کچھ خاص شغف نہیں۔ چند خاص میچ دیکھ لیا
کرتے ہیں۔ جرمنی اور برازیل کا سیمی فائنل دیکھ کر وہ بہت بے مزا ہوئے۔ جب
برازیل نے پہلے ہی محاذ پر ہتھیار ڈال دیئے تو اُنہوں نے کہا۔ ’’یہ کیا
مذاق ہے؟ سیمی فائنل کی سطح پر کوئی اِس طور کھیلتا ہے؟ آناً فاناً پانچ
گول؟ کیا کراچی کے کسی اُجڑے ہوئے میدان میں ’بچہ ٹیموں‘ کے درمیان پریکٹس
سیشن ہو رہا تھا؟‘‘
شریف امروہوی نے دو منٹ میں چار گول …… معاف کیجیے گا، سوال داغ دیئے۔ ہم
اِن سوالوں کے آگے ویسے ہی بے بس دکھائی دیئے جیسے جرمن اٹیکرز کے سامنے
برازیلین ڈیفینڈرز لاچار دکھائی دیئے تھے! عرض کیا کہ کبھی کبھی یوں بھی
ہوتا ہے کہ جو کچھ سوچا ہوتا ہے اُس کے برعکس ہو جاتا ہے۔
شریف امروہوی بولے۔ ’’جب بھی کوئی ٹیم کچھ خاص تیاری کئے بغیر، محض اعتماد
کے سہارے میدان میں اُترتی ہے تو اُس کا ایسا ہی حشر ہوتا ہے۔ اعتماد بہت
کچھ ہے مگر سب کچھ نہیں ہے۔ اگر تکنیک میں تھوڑی بہت خامی ہو تو اعتماد سے
دور ہوجاتی ہے، لیکن اگر تکنیک پائی ہی نہ جاتی ہو اور کوئی تیاری سِرے سے
کی ہی نہ گئی ہو تو محض اعتماد کے ذریعے بازی جیتی نہیں جاسکتی۔‘‘
اگر کسی فٹ بال میچ کے ابتدائی تیس منٹ میں پانچ گول ہوجائیں تو کوئی احمق
ہی ہوگا جو پورا میچ دیکھے گا۔ مگر صاحب، بہت سوں نے تو پورا میچ محض اِس
لیے دیکھا کہ وہ جاننا چاہتے تھے ذِلّت کے اِس سفر کی منزل کیا ہوسکتی ہے!
بہت سوں کو یہ خوف تھا کہ تیس منٹ میں پانچ گول کھانے والی ٹیم کہیں بالآخر
بارہ پندرہ گول سے نہ ہار بیٹھے! خیر گزری کہ معاملہ 7-1 ختم ہوا۔
ایک شریف امروہوی صاحب، عارف انصاری یا ہم پر کیا موقوف ہے، جس نے بھی فٹ
بال ورلڈ کپ کا سیمی فائنل دیکھا وہ مایوسی کا شکار ہوا۔ ایسا کہاں ہوتا ہے
کہ دو کھلاڑی ٹیم میں نہ ہوں تو ٹیم کا بَھٹّہ ہی بیٹھ جائے؟ پِٹی ہوئی فلم
کا بھی ایک آدھ گانا تو ہِٹ ہو ہی جاتا ہے۔ برازیلین ٹیم نے اِتنا تیر ضرور
مارا کہ انڈا پھوڑ دیا۔ آخری لمحات میں وہ ایک گول اسکور کرکے اُس نے صفر
سے ہونے والی شکست ٹال دی!
سیمی فائنل میں برازیل کا حشر نشر یہ پیغام چھوڑ گیا ہے کہ حسین یادیں محض
نفسیاتی آسرا ہوتی ہیں۔ یہ حقیقت کی دنیا میں کام آنے والی چیز نہیں۔
’’پدرم سلطان بود‘‘ (میرا باپ سلطان تھا) کا راگ الاپنے والوں کو زیادہ
توجہ اِس بات پر دینی چاہیے کہ وہ خود کیا ہیں۔ برازیل کی ٹیم نے کسی زمانے
میں جو تیر مارے تھے اُن کی بنیاد پر کب تک فٹ بال کھیلی جاسکتی ہے؟ عالمی
سطح کے مقابلوں کی تیاری بھی عالمی سطح ہی کی ہونی چاہیے۔ کیا میزبان ٹیم
نے ورلڈ کپ کو بھی مذاق سمجھ لیا تھا کہ ذرا سی بھاگ دوڑ کریں گے اور جیت
لیں گے؟ دفاعی چیمین اسپین کا دوسرے مرحلے میں نہ پہنچ پانا اِس امر کا
غَمّاز ہے کہ محض بڑھک مارنے اور دعوے کرنے سے کچھ نہیں ہوتا۔ کوئی بھی ٹیم
میدان سے باہر خواہ کچھ کہتی پھرے، جب وہ میدان میں اُترتی ہے تو دودھ کا
دودھ اور پانی کا پانی ہو جاتا ہے۔ کھیل ہو یا کوئی اور شعبہ، کامیابی اگر
ملتی ہے تو محنت، فنی مہارت اور بر وقت اقدام کی بدولت۔ محسنؔ بھوپالی
مرحوم نے کہا تھا
اب ہوائیں ہی کریں گی روشنی کا فیصلہ
جس دِیے میں جان ہوگی وہ دِیا رہ جائے گا |
|