غزوہ فتح مکہ!
(Mir Afsar Aman, Karachi)
صاحبو!ابلاغ ایک ایسا ہتھیار ہے
جس کا غلط استعمال قوموں کو ان کے ماضی سے ناآشنا کر دیتا ہے۔اسی لیے شیطان
اسے ہمیشہ کا رگر ہتھیا رکے طور پر استعمال کرتا رہا ہے۔ پوری کیمونسٹ
تاریخ میں باہر کی دنیا کو وہی جھوٹی خبر دی گئی تھی جو اس کے موافق تھی
حتیٰ کہ ہم مسلمانوں کو ترکی سے لیکر چین تک کے اپنے مسلمان علاقوں کی خبر
تک نہ پہنچنے دی گئی تھی کہ وہ کس حالت میں رہ رہے ہیں۔ ماضی قریب کی دنیا
میں ایک وقت شیطان نے کیمونسٹوں میں حلول کیا تھا اور انہوں نے ابلاغ کو
اپنی جابرانہ پالیسیوں کے حق میں بہت اچھی طرح استعمال کیا اور پرو پیگنڈے
کے زور پر آدھی سے زائد دنیا پر ۷۰ سال سے زائد تک اپنا جابرانہ تسلط قائم
کر کے دبائے رکھا تھا۔اﷲ بھلا کرے فاقہ کش افغانوں کا، کہ انہوں نے اس طلسم
کو توڑا اور دیکھتے ہی دیکھتے ترکی سے چین تک سات اسلامی ریاستیں آزاد
ہوئیں اور مشرقی یورپ کی کیمونسٹ ریاستوں نے بھی آزادی کا اعلان کر دیا اور
دنیا کی سب سے بڑی مشین چپک کر لینن گرانڈ تک محصور ہو گئی۔یہ کام پہلے بھی
یہودیوں کے دماغ نے کیا تھا اور اب بھی ابلاغ کی نکیل یہودیوں کے ہاتھ میں
ہی ہے۔ وہ بڑی مہارت سے اسے استعمال کر رہے ہیں۔ ابلاغ کے ذریعے، سب سے
پہلے اپنے کٹر دشمن عیسائیوں کو رام کیا۔ وہ عیسائی جنہوں نے یہودیوں کو
جرمنی میں مولی گاجر کی طرح کا ٹا تھا جو تاریخ میں ہولو کاسٹ کے نام سے
مشہور ہے۔ یہودیوں نے اپنے مطلب کے لیے اس ظلم کو ابلاغ کے ذریعے دبا دیا
اور نوبت یہاں تک پہنچی ہے کہ یورپ کے ملکوں میں آئینی طور پر اس کے خلاف
بولنے پر پابندی ہے اور قابل فعل جرم ہے۔یہ کام اس لیے کیا گیا کہ مسلمانوں
کو مشترکہ دشمن بنانا تھااور فلسطین پر قبضہ کرنا تھا۔ اس سازش میں یہودی
کامیاب ہو گئے تھے۔ ابلاغ سے دوسرا کا م فحاشی کو عام کرنے کا لیا گیا۔ اس
کے لیے ویلنٹائین ڈے کوعام کیا گیا۔ ویلنٹائن کیا ہے ایک فحاشی کی داستان
ہے۔ ایک پادری اور نن کی عشق کی داستان ہے۔ فلموں، اشیاء فروخت کرنے میں
اور کھیل کے میدانوں میں شائقین کی تفریح کے لئے عورت کو نیم عریاں کر کے
پیش کیا جارہا ہے۔ تیسرا کام دنیا میں ڈیز منانے کا ہے۔ اس سب کاموں کا
مقصد دنیا کو کھیل تماشے میں مصروف کر کے اس کی تاریخ سے نا آشنا کرنا ہے۔
کیا مسلمان ملک اور عام مسلمان اس کا شکار نہیں ہو رہے ہیں؟ کیا مسلمانوں
نے اپنے تاریخی دنوں کو بھلا نہیں دیا؟ اسلامی یاد گار دنوں میں ایک دن
’’غزوہ فتح مکہ‘‘ کا دن بھی ہے ۔ مغرب کے ایک بڑے محقق نے لکھا تھا کہ ’’
بدر سے پہلے اسلام محض ایک مذہب اور ریاست تھا ،مگر بدر کے بعد وہ مذہب ِ
ریاست بلکہ خود ریاست بن گیا‘‘ یعنی ریاست کا مذہب بن گیا تھایا یوں بھی
کہا جا سکتا ہے اسلامی جمہوریہ بن گیا تھا جس میں سب کے حقوق برابر تھے ۔
شرک کاخاتمہ کر دیا گیا تھا۔جس میں گورے کو کالے پر اور عرب کو عجم پر،
سرداروں کوعوام پر، حاکم کو محکوم پر کو ئی فضلیت حاصل نہیں تھی۔ فضیلت تھی
تو اس کی تھی، جو زیادہ متقی و پرہیزگار تھا۔ جو ریاست کے قانون کا پابند
تھا۔ عوام کو حقوق و فرائض کی تعلیم دی گئی تھی۔ عوام ریاست کے وفادار تھے۔
ریاست عوام کے حقوق کی نگہبان تھی۔ عورتوں کے حقوق رسولؐ اﷲ نے خود متعین
کر دیئے تھے۔ غزوہ فتح مکہ پر ایک تاریخی بیان دیتے ہوئے ایک اسلامی مفکر
امام ا بنِ قیم نے کہا تھا’’ یہ دن فتح اعظم ہے جس کے ذریعہ اﷲ نے اپنے دین
کو، اپنے رسول ؐکو،اپنے لشکر کو اور اپنے امانت دار گروہ کو عزّت بخشی اور
اپنے شہر کو اور اپنے گھر کو، جسے دنیا والوں کے لیے ذریعہ ہدایت بنایا ہے،
کفار ومشرکین کے ہاتھوں سے چھٹکارا دلایا۔ اس فتح سے آسمان والوں میں خوشی
کی لہر دوڑگئی اور اس کی عزّت کی طنابین جوزاء کے شانوں پر تن گئیں،اور اس
کی وجہ سے لوگ اﷲ کے دین میں فوج در فوج داخل ہوئے اور روئے زمین کا چہرہ
اور چمک دمک سے جگمگا اُٹھا‘‘(الرّحیق ا لمختوم) مسلمانوں کو یہودی
کنٹرولڈابلاغ سے کنارہ کش ہو کر اپنے تاریخی دنوں کو یاد رکھناچاہیے ان کو
منانے کا اہتمام کرنا چاہیے اور اپنے ہی شجر سے وابستہ رہ کر بہار کی امید
کرنی چاہیے۔ وہ قومیں ختم ہو جاتیں ہیں جو اپنے اسلاف کے کارناموں کو بھول
جاتی ہیں اور کھیل تماشوں میں غرق ہو جاتی ہیں۔غزوہ فتح مکہ کی کہانی کچھ
اس طرح ہے کہ صلح حدیبیہ میں رسولؐ اﷲ جو معاہدہ طے ہوا تھا اس میں جو
قبیلہ رسولؐ اﷲ کے ساتھ شامل ہوا اور جو قریش کے ساتھ شامل ہوئے تھے ان کی
ایک دوسرے کے خلاف کاروائی کو رسولؐاﷲ یا قریش کے خلاف کاروائی تصور کی
جائے گی۔ قریش نے اس معاہدے کی خلاف وردی کرتے ہوئے رسولؐ اﷲ کے ساتھی
قبیلہ سے لڑائی کی تھی جس کی شکایت لے کر اس قبیلے کے لوگ رسولؐ اﷲ کے پاس
مدینہ میں گئے تھے۔ قریش کو بھی جب اپنی غلطی کا احساس ہواتو ابو سفیان کو
معاہدے کی توثیق کے لیے مدینہ رسولؐ اﷲ کے پاس بھیجا مگر وہ ناکام ہو کر
لوٹا۔طبرانی بیان کرتے ہیں کہ معاہدے کی خلاف ورزی کے بعد رسولؐاﷲ نے تیاری
شرو ع کر دی تھی۔۱۰ رمضان کو رسولؐاﷲ نے مدینہ کا رخ کیا۔آپ ؐ کے ساتھ
۰۰۰،۱۰ صحابہ ؓ تھے۔ جب اسلامی لشکر جحفہ کے مقام پرپہنچا تو حضرت عباسؓ
رسولؐاﷲ سے ملے اور ایمان لے آئے۔پھر ابوسفیان بھی رسولؐاﷲ سے ملنے آئے تو
آپؐ نے منہ پھیر لیا۔ اس پر حضرت علیؓ نے ابوسفیان سے کہا کہ جاؤ اور
رسولؐاﷲ سے مل کر وہی بات کہو جو حضرت یوسف ؑکے بھائیوں نے حضرت یوسفؑ سے
کہی تھی۔ اس پرجواب میں رسولؐ اﷲ نے وہی کہا جو حضرت یوسفؑ نے اپنے بھائیوں
سے کہا تھا۔ اس پر ابو سفیان نے چند اشعار میں رسولؐ اﷲ کی تعریف کی ۔ جب
معاملہ دوستی میں بدل گیا توحضرت عباس ؓنے رسولؐاﷲ سے کہا کہ ابو سفیان
اعزاز پسند ہے اسے کوئی اعزاز دے دیجیے۔آپؐ نے فرمایا ٹھیک ہے۔ جو ابو
سفیان کے گھر میں گھس جائے اسے امان اور جو اپنا دروازہ اندر سے بند کر لے
اسے امان، جو مسجد حرام میں داخل ہو جائے اسے بھی امان ہے۔اسی صبح،۱۷ رمضان
۸ ھ کو رسولؐاﷲ مرا لظہران سے مکہ کے لیے روانہ ہوئے ۔ ۱۹ روز مکہ میں
قیام کیا۔ مراظہران میں قیام کے دوران رسولؐاﷲ نے صحابہ ؓ کو ہر قبیلہ رات
کو علیحدہ علیحدہ آگ روشن کرنے کا کہا تاکہ مکہ والے اس سے خوف زدہ ہو
جائیں۔ اس کے بعد اسلامی لشکر مکہ میں کئی سمتوں سے میں داخل ہوئے۔ابو
سفیان نے اپنی قوم کو کہا کہ رسولؐاﷲ بہت بڑا لشکر لے کر آئے ہیں آپ ان کے
لشکر کا مقابلہ نہیں کر سکتے۔ اس کے بعد اسلامی لشکر اچانک قریش کے سر پر
آن پہنچا۔ پھر ابوسفیان نے وہی اعلان کیا جس پر رسولؐاﷲ نے اس سے وعدہ کیا
تھا۔ رسولؐ کے ہاتھ میں ایک کمان تھی۔ بیت اﷲ کے گرد اور اس کی چھت پر تین
سو ساٹھ بُت تھے آپؐ اسی کمان سے ان بتوں کو ٹھوکر مارتے جاتے تھے اور کہتے
تھے’’حق آ گیا اور باطل چلا گیا۔ باطل جانے والی چیز ہے‘‘(۱۷:۱۸)’’ حق آ
گیا اور باطل کی چلت پھرت ختم ہو گئی‘‘(۳۴:۴۹) قریش کو مخاطب کر کے کہا ۔
میں تمہارے ساتھ کیا سلوک کرنے والا ہوں۔انہوں نے کہا آپؐ کریم بھائی ہیں ۔
اور کریم بھائی کے صاحبزادے ہیں۔ آپ نے کہا میں تم سے وہی بات کہہ رہا ہوں
جو حضرت یوسف ؑ نے اپنے بھائیوں سے کہی تھی ’’ کہ آج تم پر کوئی سرزنش نہیں۔
جاؤ تم سب آزاد ہو‘‘
قارئین! یہ تھا رسولؐ اﷲ کا برتاؤ قریش کے ساتھ! کیا آج مسلمان اس سنت پر
عمل کر کے ایک دوسرے کو معاف نہیں کر سکتے؟ کیا آج مسلمانوں میں ایسی
رواداری کی ضرورت نہیں؟ اﷲ ہمیں اپنے پیارے رسولؐ کی سنت پر عمل کرنے کی
توفیق عطا فرمائے آمین۔ |
|