فاطمہ کا پیغام ، بے حس حکمرانوں کے نام

ماتا جی میں آپ کو اسلام علیکم نہیں کہہ سکتا کہ آپ پر مسلما ن ہونے کاشک کیا جائے گا اور ہوسکتا ہے کہ کوئی جنو نی آپ کی جان لینے آجائے۔میں آپ کو پر نام وغیرہ بھی نہیں کرسکتا چونکہ اس میں میرے عقیدے کا مسئلہ ہے۔میں ایک غریب صحافی ہوں،بلکہ سچ یہ ہے کہ صحافت کا ایک ادنیٰ طالب علم ہوں۔میری تجوری میں سوائے عقیدے کے اور کوئی دولت نہیں اور میں اس دولت سے محض آپ کی چاپلوسی کی خاطر محروم نہیں ہونا چاہتا۔آپ ایک عمررسیدہ ہندو مذہب کی پیروکارہیں اور میرے دین اور عقیدے کے مطابق بچوں،بیماروں،بوڑھوں،قیدیوں،عورتوں،مسافروں اور معزوروں کااحترام اور معاونت ضروری ہے۔میرا دین اور عقیدہ یہ بھی سکھلاتا ہے کہ مسجدوں،مندروں،گردواروں،پگوڈوں اور کلیساؤں کا بھی احترام کیاجائے اور کسی بھی مسلک اور عقیدے کی عبادت گاہ کونقصان نہ پہنچایا جائے۔

میں نے آپ کے بڑھاپے کو مد نظر رکھتے ہوئے آپ کو ماتا جی کہا حالانکہ آپ صر ف ایک ایسے شخص کی ماں ہیں جو اسلام دشمن،مسلمان دشمن،اورانسان دشمن ہے اور اپنے ملک میں کسی دوسرے مذہب کے ماننے والوں کا قتل اور ان کی عبادت گاہوں کو مسمار کرنا جائیزاور درست قرار دیتا ہے۔میں آپ کو کیسے مخاطب کروں؟میرے پاس مناسب الفاظ نہیں۔میں نے جب ’’ماتا جی لکھا‘‘تو حکیم الامت حضرت علامہ اقبالؒ اچانک میرے سامنے آگئے۔میں احتراماً کھڑا ہوگیا اور وہ کچھ بولے بغیر واپس چلے گئے۔میں سوچ میں پڑ گیا اور قلم ایک طرف رکھ کر ادھر ادھردیکھنے لگا کہ ایسا کیوں ہوا۔ابھی اسی سوچ میں تھا کہ ہمارے پڑوسی جناب قاری فاروق احمد تشریف لائے اور ایک پرانا اخبار میری طرف بڑھاتے ہوئے بولے کہ کبھی وقت ملے تو پڑھ لینا۔اخبار دیکھا تو یہ دو سال پرانا اقبال نمبر تھا جسمیں صفحہ اول پر محترمہ عائشہ مسعود ملک نے لکھا تھاکہ گاندھی کو باپو لکھنے پر علامہؒ نے برا منایا اور لکھنے والے کو حکم دیا کہ آئندہ گاندھی کو باپو نہ لکھا جائے۔گاندھی کسی مسلمان کا باپ نہیں ہوسکتا۔علامہؒ کی زیارت کا جواب تو مل گیا مگر میرے پاس پھر بھی ایسے الفاظ نہیں کہ آپ سے مخاطب ہوسکوں۔علامہؒ سے معذرت کا طلبگار ہوں اور آپ سے مخاطب ہوں۔آپ کسی مسلمان،سکھ،عیسائی،یہودی اور بدھ مت کے ماننے والی کی ماں نہیں چونکہ آپ کے پوت کے عقیدے کے مطابق سوائے ہندوؤں کے باقی سب مذاہب کے ماننے والے واجب القتل ہیں آپ کا بیٹا،اسکی سیاسی جماعت،عقیدہ اور مسلکی گروہ اس بات کا قائل ہے کہ ہندوؤں کے علاوہ دیگر مسالک کے لوگ بھارت چھوڑ دیں یا پھر ہندو مذہب اختیار کر لیں۔بصورت دیگر انھیں چن چن کر قتل کیاجائے اور انھیں ان ہی کے گھروں ،عبادت گاؤں،محلوں،بستیوں اور شہروں میں جلا دیا جائے تاکہ بھارت دھرتی پوتر ہوجائے۔

میرا آپ سے مخاطب ہونے کا مقصد اپنے وزیر اعظم ،ان کی کابینہ،نام نہاد اپوزیشن اور پاکستانی سیاست کے شکست خوردہ پٹے ہوئے مفلوج ذہنوں کے مالک بھارت نواز مہروں سے شدید احتجاج کرنا ہے جنھوں نے آپ کے ظالم،خونخوار اور انسان دشمن بیٹے کی تاج پوشی کا جشن منایا۔مجھے امن کی آشا اور سیفما کے مداریوں اور راء کے وظیفہ خواروں کو وطن دشمن،دین دشمن،انسان دشمن اور مسلمان دشمن کہنا ہے اور اپنے ہم وطنوں کو خبردار کرنا ہے کہ وہ اپنے حال و مستقبل سے بے خبر راشٹریہ سیوک سنگھیوں کے ایجنٹوں کے ہاتھوں کا کھلونا نہ بنیں۔مجھے اپنے ہم وطنوں کو بتانا ہے کہ امن کی آشا ان کا امن چھیننے اور انھیں تباہی کے گھڑے میں دھکیلنے کا بہانہ ہے۔وہ اس فریب سے نکلیں یا پھر مودی رعایا بننے کیلئے تیار ہوجائیں۔آپ کا پتر کتنا خوش نصیب ہے کہ وہ اشوک اور اکبر کے تخت پر جلوہ افروز ہوا تو اردگرد کے ملکوں نے بغیر کسی جنگ کے نریندر مودی کو بھارت کا بادشاہ تسلیم کر لیا۔اوراسکی باجگزاری قبول کر لی۔سری لنکا،نیپال،بھوٹان چھوٹے ملک ہیں اور آپ کے ہم مذہب ہیں۔بنگلہ دیش کی حسینہ سیکولرازم کی دعویدار تو ہے مگر تھوڑی سی باغیرت بھی ہے۔وہ نہ خود آئی اور نہ ہی اپنا صدربھیجا۔لگتا ہے کہ حسینہ کے خون میں خوری ہے۔ و ہ ٹیگور کے نغمے تو گاتی ہے مگر اقبالؒ اور نذر اسلام کو بھی نہیں بھولی۔

میں یہ سطور لکھ رہا تھا تو ذہن کابل،قندھار اور غزنی کی طرف چلا گیا۔بابر کو کابل میں،احمد شاہ ابدالی کو قندہارمیں اور محمود کو غزنی میں گریہ کناں دیکھا اور شہاب الدین غوری کو جی ٹی روڈ کے کنارے بے آسرابیٹھا دیکھا جو کبھی غور اور کبھی پانی پت کی طرف دیکھتا ہے وہ پشاور سے آنے والوں سے پوچھتا ہے کہ یہ کرزائی اورعبداﷲ عبداﷲ کون ہیں۔کیا یوسفزئی اور قزلباش ختم ہوگئے ہیں؟گلبدین حکمت یار اور عبدالرب رسول سیاف کہاں ہیں۔کیا افغانستان کے کہسار اورافغان ختم ہوگئے ہیں۔ایک بوڑھا افغان کوچی مغموم و مجبور سلطان شہاب الدین غوری کے پاس بیٹھ کر سمجھاتا ہے کہ با با ایسی باتیں نہ کرو۔پاکستانی طالبان تمہارے مقبرے پر بم لگا دینگے یا پھر کوئی خود کش ازبک تمہارے چھیتڑے اڑا دے گا۔عبداﷲ عبداﷲ تاجک ہے اور کٹر بھارت نواز ہے۔کرزئی قندہاری ہے اور بھارت کا کاروبار دوست ہے یہ وہ زمانہ نہیں جب تمہیں ایک درویش نے خط لکھ کر ہندوستان پر حملہ کرنے کا حکم دیا اور تم مسلمانوں کو پرتھوی راج چوہان کے مظالم سے بچانے دینی غیرت کے جذبے سے سرشار جاٹوں اور مرہٹوں کا غرور خاک میں ملانے ہندوستان پر چڑھ دوڑے۔

اب زمانہ بدل گیا ہے۔نہ وہ افغان رہے ہیں اور نہ ایرانی،تم جہاں بیٹھے ہو یہ پاکستان ہے اور یہاں بھارت کے عشق میں مبتلا میاں محمد نواز شریف حکمران ہے۔تمہارا دور توگیا جب قوم کے بہترین دماغ اور منصوبہ ساز پالیسیاں بناتے تھے اور حکمران کو مشورے دیتے تھے۔حکمران مانے یا نہ مانے وہ اپنے دل کی بات کہہ جاتے تھے چونکہ وہ بھاری تنخوائیں اور پروٹوکول نہیں لیتے تھے۔اب احمد خراسانی اور حبیب اﷲ بلغی جیسے بوریا نشین بادشاہوں کے مشیر نہیں ہوتے کرزائی اور عبداﷲ عبداﷲ بھارت اور امریکہ کے کمیشن ایجنٹ ہیں انہی کے اشاروں پر چلتے ہیں۔یہ لوگ برائے نام حکمران ہیں۔اصل سکہ امریکہ کا چلتا ہے اور وہی ان کٹھ پتلیوں کو نچاتا ہے۔

پاکستان کے حکمران کسی خفیہ معائدے کی پیداوار ہیں۔انھیں بیرونی آقاؤں سے جو حکم ملتا ہے اس پر عمل کرتے ہیں اور عوام کا خون نچوڑتے ہیں۔یہاں کہنے کو تو جمہوریت ہے مگر اسمبلیوں میں سرمایہ دار،جاگیر دار،وڈیرے اور کارخانہ دار بیٹھے ہیں۔وہ اپنی رعایا سے جبری ووٹ لیکر آتے ہیں اور ظالمانہ ہتھکنڈوں کے ذریعے حکمرانی کرتے ہیں۔اب افغانستان کا صدر بھارت کا تنخواہ دار اور باجگزار ہے۔آجکل تاجر،سرمایہ دار اور ساہوکار پالیسیاں بناتے اور حکومت چلاتے ہیں بھارت نے افغانستان میں سرمایہ لگا رکھا ہے اور پاکستان کا حکمران خاندان تاجر،کارخانہ دار اور سرمایہ دار ہے۔

آغا بس کرو اور چلے جاؤ۔میں نے دیکھا کہ ایک زخم خوردہ شخص جی ٹی روڈ کے کنارے اٹھ کر سوہاوہ ریلوے سٹیشن کے عقب میں واقع چٹانوں کی طرف چلا گیا اور بوڑھا کوچی اپنی بھیڑوں کو ہانکتا نیلی بابا کے دربار کی طرف چل دیا۔کسی نے پوچھا خان کو کدہر جارہے ہو۔بولا اوپر پہاڑی کی چوٹی پر شیر شاہ سوری کی بارہ دری،حفاظتی چوکی اور تالاب ہے وہاں چارہ ہے پناہ گاہ ہے اور روہتاس کا قلعہ بھی نظر آتا ہے کبھی کبھی فرید الدین بھی آتا ہے۔فرید الدین کون ہے؟بوڑھے افغان کوچی نے کہا۔جسے تم شیر شاہ سوری کہتے ہو۔وہ بھی دکھی ہے مگر بے بس ہے تمہارا قائد اعظم ؒ اور اقبالؒ بھی دکھی ہیں۔وہ دیکھ تو رہے ہیں مگر کچھ کر نہیں سکتے۔

ماتا جی میں آپ کے بیٹے نریندر مودی کی بات کر رہا تھا ۔نیپال،سری لنکا اور بھوٹان آپ کی ہم مذہب ریاستیں ہیں اور اکثر بھارت کے زیر عتاب رہتی ہیں بھارت نے سری لنکا پر کئی عشروں تک دہشت گردی کا عذاب نازل کئے رکھا جس کی پریکٹس آجکل پاکستان پر ہورہی ہے۔بھوٹان اور نیپال ایسے خطے میں ہیں جہاں انھیں بھارت کے راستے ہی دیگر دنیا سے ملاپ رکھنا ہوتا ہے۔افغانستان عملاً بھارت اور امریکہ کی کالونی ہے اور افغانستان کے صدر کی حکومت صرف کابل شہر تک محدود ہے جلال آباد پر مہمند،شنواری اور دستو خیل قبائل کی عملداری ہے اور کابل کے حکمران قبائلی عمائدین سے اختلاف نہیں کرسکتا ۔یہی حالت قندہار،مزار شریف اور ہرات کی ہے جبکہ دیہاتی افغانستان پر طالبان کی حکومت ہے بنگلہ دیش بھی ایک باجگزار ملک ہے۔ جہاں بھارتی دھندناتے پھرتے ہیں۔ بنگالی تاجر بھارتی گھٹیا مال خریدتا ہے اوراس کے عوض کلکتہ اور مدراس کا ہندو سیٹھ بھاری رقوم اینٹھ لیتا ہے مگر میری سمجھ سے باہر ہے کہ جاتی عمرہ کے سیٹھوں کی کیا مجبوری ہے کہ وہ اکھٹنڈ بھارت کے ادھورے نقشے کو مکمل کرنے کے جشن منا رہے ہیں کیا ان کے پولٹری فارموں کی مردہ مرغیاں ہمارے لئے کافی نہیں کہ اب وہ پوجا کے بوڑھے بیل اور نیم مردہ گائیں اور گدھے بھی ہمارے م مقتدروں میں انڈیلنا چاہتے ہیں۔خوشبودار چھتری والا میٹھا کیلا دس بیس روپے درجن کے حساب سے بھارت جارہا ہے اور بھارت سے درآمد شدہ توری نما کیلا تین سو روپے درجن خریدنے پر ہمیں مجبور کیا جارہا ہے ہمارے ہاں ایک نجم سیٹھی بھی ہے جو اپنے پروگراموں میں اکثر کہتا ہے کہ بھارت سے سستی چیزیں آنے پرکچھ پاکستانیوں کے پیٹ میں مروڑپڑرہے ہیں سیٹھی کا ہر اشارہ فوج کی طرف ہوتا ہے مگر مروڑ والی بات سچ ہے ظاہر ہے کہ گندی،غیر معیاری اور مکروہ اشیاء کھانے سے مروڑ تو پڑیں گے۔

ہماری مجبوریاں اب محکومیوں میں بدل رہی ہیں آپ کے سپوت نے آتے ہی اپنے ایجنٹوں کے ذریعے کراچی کو آگ میں جھونک دیا ہے ہمارے ایک کالم نگار نے اسے مودی کی سلامی لکھا ہے۔ آپ سے مخاطب ہونے کی فوری وجہ سیٹھ نواز شریف کی طرف سے پیش کی جانے والی ساڑھی ہے جو پاکستان کے سرکاری مونو گرام والے گرین ڈبے میں آپ کو پیش کی گئی۔سفید ساڑھی کی اتنی اہمیت نہ ہوتی اگر یہ اتفاق لمٹیڈکے کسی خوبصورت ڈبے میں رکھ کر پیش کی جاتی۔گرین رنگ اور پاکستان کا مونو گرام ہمارا قومی غیرت کا نشان ہے۔اپنے ملک کے دو سینئر اینکروں سے معذرت چاہوں گا انھیں قومی غیرت سے چڑھ ہے ۔ جو شخص قومی غیرت کا لفظ بولے یہ صاحبان اسے غیرت بریگیڈ کا طعنہ دیتے ہیں مگر میں کیسے برداشت کرسکتا ہوں کہ میری قوم کی پہچان گرین کلر اور اسپر بنا قومی پہنچان کا نشان آپ کی گود میں رکھ دیا جائے جس گود میں نریندر مودی جیسا خونخوارانسان پل کر جوان ہوا ہے میں جانتا ہوں کہ یہ ساڑھی اور گرین ڈبہ محض دکھاوے کیلئے آپ کی گود میں رکھا گیا اور پھر اسے کسی چوارہے پر پھینک دیا گیا ہوگا یہی نہیں راشٹریہ سیوک سنگھیوں نے آپ کو بھی گنگا جل سے نہلا کر پوتر کیا ہوگا چونکہ آپ کے دھرم اور مودی کی پارٹی کے عقیدے کے مطابق مسلمان نا پاک ہیں۔یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ آپ کے دھرم میں جو چیز نا پاک ہے وہ بھارت کے بادشاہ کی ماں کی گود میں رکھ دی جائے آپ کا ظالم اور سفاک بیٹا اسی لئے تو بادشاہ بنا کہ وہ مسلمانوں کو مٹانے،آزاد کشمیر پر قبضہ کرنے اور پاکستان کو باجگزار ملک بنانے کا ارادہ رکھتا ہے۔
آپ کی گود میں ہرے رنگ کا ڈبہ دیکھ کر کچھ سوچنے لگا تو کشمیر کی وہ ہزاروں مائیں اوربیٹیاں میرے سامنے آگئیں اور پوچھنے لگیں کہ جس شخص اور جس کی حکومت نے ہمارے سہاگ اجاڑے،ہمیں بے آبرو کیا،ہمارے جسم نوچے،ہمارے جگر گوشوں کو ہمارے سامنے قتل کیا ،ہمارے بھائی اور بیٹے اجتماعی قبروں میں سلا دیئے،ہمارے برہنہ جسموں پر سنگینیں چلائیں،ہمیں برہنہ کرکے بازاروں اور گلیوں میں پھرایا اور ہمیں اجتماعی آبروریزی اور درندگی کا نشانہ بنایا اس کی ماں کو ہمارے جسم سے اتارا ہوا سفید کفن اس نریندر مودی کی ماں کو پاکستان کے سرکاری رنگ کے ڈبے میں رکھ کر کس نے پیش کیا؟اس سے پہلے میں کچھ کہتا،حیدر آباد کی ہزاروں معصوم بچیاں سامنے آگئیں اور پوچھنے لگیں کہ جس شخص نے ہمارے والدین کو چن چن کر قتل کروایا اور ہمیں شیطانی ہوس کا نشانہ بنوایا۔ہمارے گھر جلائے اور ہمیں سکولوں،کالجوں اور یونیورسٹیوں سے اٹھا کر آر ایس ایس کے کیمپوں میں بھجوایا،ہماری عصمت کو تار تار کیا اور ہمیں ہندوؤں کے بچے جننے پرمجبور کیا،ہمارے برہنہ جسموں پر آرایس ایس کانشان داغا اور ہمار ے جسموں سے لباس اتار کر اپنی پگھڑیاں بنائیں اس درندے کی ماں کو ہمارے جسم سے اتاری ہوئی چادر پاکستان کے قومی نشان والے ڈبے میں رکھ کر کس نے پیش کی؟میں کچھ کہنے والا تھا کہ انسانی گوشت کے ایک ڈھیر سے آواز آئی۔ہم سب پاکستانی ہیں ہمیں خود کش حملوں اور بموں کے ذریعے شہید کیا گیا ہم میں فوجی جوان اور آفیسر بھی ہیں یہاں جنرل مشتاق بیگ جنرل بلال اور جنرل نیازی بھی ہیں۔ہم میں مزدور بھی ہیں اور راہ چلتے مسافر بھی ہیں۔ہم میں شعیہ ،سنی،وہابی،ہندو،سکھ اور عیسائی بھی ہیں ہمیں اسلئے ماراگیا چونکہ ہم پاکستانی تھے۔ہمیں مارنے والوں کی تربیت گائیں افغانستان میں ہیں جہاں بھارتی خفیہ ایجنسیاں کونسل خانوں کی آڑمیں دہشت گردی کے کیمپ چلا رہی ہیں۔ہمارے جسموں کو بارود کی گرم ہوا نے ریزہ ریزہ کر دیا،ہمارے لباس جل کر فضا میں تحلیل ہوگئے مگر اٹھارہ کروڑ پاکستانیوں نے ہم سے وفا نہ کی ہماری قوم ایسی جمہوریت لائی جو بھارت کی غلامی قبول کر چکی ہے ہمارے دانشور اورصحافی بھارتیوں کے عشق میں مبتلا ہیں اورامن کی آشا کا راگ الاپ رہے ہیں۔

چند روز پہلے میں نے ایک آواز سنی۔دہلی دربار کے چوبدار نے بآواز بلند کہا پاکستان کا وزیر اعظم حاضر ہو۔پھر ایک شخص کالے سوٹ اور خون آلود ہندوعورت کے ساتھ چلتا ہوا آیا ہندوانی اتنی لمبی اور با رعب تھی کہ ساتھ چلنے والا شخص ٹھنگنا لگتا تھا۔لڑکی نے خون آلود انسانوں کے قاتل بھارت کے بادشاہ کے حضور پیش کیا۔خون آلود سرخ ٹائی والا بادشاہ کے سامنے نظریں نیچی کیئے با ادب بیٹھا رہا اور بادشاہ کی طرف سے ہدایت نامہ سن کر اسی لڑکی کے سائے میں اپنے کوٹ کے بٹن تھامے شرمندہ شرمندہ بھارتی اداکاروں،کارخانہ داروں اور ناکارہ سیاستدانوں سے ملنے چلا گیا۔انسانی گوشت کے اس ڈھیر سے ایک اور آواز آئی۔میں ایک مزدور کی بیٹی ہوں ماں کیلئے دوا لینے جارہی تھی کہاایک بم پھٹا اور میرا جسم گوشت کے ٹکڑوں اور ریزوں میں بدل گیا آج میرے کئی جسم ہیں کچھ مٹی میں دفنائے گئے کچھ کوئیٹہ کے ہسپتال کے اردگرد بکھر گئے،کچھ چیلیں اور کوے اٹھا کر کوہ چلتن،کوہ مردار اور ٹکاٹو کی چوٹیوں پر لے گئے۔مجھے کسی کتے ،چیل اور کوے نے نہیں کھایا چونکہ وہ میرے ہم وطن ہیں کتوں نے میرے جسم کے لوتھڑے اٹھا کر قبرستانوں میں دفن کئے اور چیل کوؤں نے فرقہ واریت اور دہشت گردی کے شکار شہر سے مجھے اٹھایا اور پہاڑیوں کے ان پتھروں پر رکھا جو برف سے ڈھکے ہوئے اور پاک تھے۔مجھے اس لئے مارا گیا چونکہ میں مسلمان تھی اور جس نے مارا وہ بھی مسلمان تھا۔اس نے مجھے مار کر جہاد کیا اور اپنا مذہبی فریضہ ادا کیا جس نے اسے مارنے کی تربیت دی وہ ایک بھارتی تھا جسے امریکہ اور اسرائیل نے اس مقدس کام کیلئے پیسہ دیا۔

مجھے پتہ ہے کہ وہ قندہار کے بھارتی کونسل خانے میں دہشت گردی کا کیمپ چلا رہا ہے پاکستان کے صدر،وزیر اعظم اور سبھی سیاستدانوں کو بھی پتہ ہے مگر بھارت کے بادشاہ کے سامنے کسی کو بولنے کی ہمت نہیں اے دوست کیا تو بتا سکتا ہے کہ امن کی آشا کیا ہے؟یہ کیا جہاد ہے جو ایک نہتی غریب مزدور کی فاقہ زدہ بیٹی کے جسم کا قیمہ بنا کر فضا میں بکھیر دیتا ہے۔کیا مولانا فضل الرحمٰن،ملا عمر،ملا فضل اﷲ،میجر عامر،مولانا سمیع الحق،پروفیسر ابراہیم کے پاس اسکا جواب ہے کوئی ڈاکٹر منور حسن،مولانا فضل الرحمٰن اور سلیم صافی سے پوچھ کر بتا سکتا ہے کہ میں شہید ہوں یا مجھے مارنے والا شہید ہے ہم اس سے پہلے کہ میں کچھ کہتا وہ پھر بولی۔میں نے اپنے جسم کے ٹکڑے توتلاش کر لئے مگر پیوندلگی سفید چادر کاکچھ پتہ نہ تھا۔کل میں نے دیکھا کہ میری سفید چادر کوہرے ڈبے میں بند کیا گیا جسپر پاکستان کی مرکزی حکومت کا سنہری نشان بھی تھا۔میں نے ایسے ہی رنگ کے تابوت بھی دیکھے جنھیں سبز ہلالی پرچموں میں لپیٹ کر ٹکڑے ٹکڑے ہوئے فوجی جوانوں کو رکھا گیا پھر یہ تابوت ان کے گھروں کو بھجوائے گئے۔میں اپنی چادر اور ڈبہ پہچان گئی۔میں سوچ رہی تھی کہ یہ ڈبہ اور چادر ڈاکٹر عبدالمالک یا پھر محمد خان اچکزئی کو دیا جائے گا اور وہ یہ ڈبہ اور چادر کوئیٹہ کی ایک سنسان گلی میں واقع بوسیدہ مکان میں پڑی میری بیمارماں کو دینگے۔کوئی کہے گا زینب بی بی یہ تیری شہید فاطمہ کی چادر ہے جو اڑ کر اسلام آباد چلی گی تھی۔یہ فاطمہ کی آخری نشانی اور تیری امانت ہے۔ پھر میں نے سوچا کہ ایسا نہیں ہوگا۔میرا باپ بھی اچکزئی پٹھان ہے اور میری ماں بلوچ ہے وہ غریب ہیں تو کیا ہوا ان کے قبیلے تو عظیم ہیں محمد خان اچکزئی ایک بڑے اور بہادر باپ کا بیٹا ہے وہ جانتا ہے کہ بیٹی کی چادر کی کیا عظمت ہے ڈاکٹر مالک بھی غیور بلوچ ہے وہ تو ہے ہی قوم پرست اسے پتہ ہے کہ قوم کی بیٹیوں کی عظمت و حرمت کیا ہے۔ وہ میری چادر کوئیٹہ میں واقع اس قبر پر لیجائینگے جہاں میرا سر اور جسم کے چند ٹکڑے دفن ہیں۔ بلوچستان پولیس کا دستہ میری ادھاری کچھی قبر پر سلامی دیگا اور ڈاکٹر مالک میری پیوند لگی سفید چادکور قومی اعزاز کیساتھ میری قبر پر چڑھائے گا۔

اے دوست،ایسا نہیں ہوا۔میں نے دیکھا کہ پاکستانی حکومت کے سرکاری مونو گرام والے گرین ڈبے پر بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کی ماں کیلئے لکھا گیا۔نریند مودی کانام دیکھ کر یوں لگا جیسے ایک اور دھماکا ہوا اور اسبارمیری روح کو بکھیر گیا میری چادر اس شخص کی ماں کیلئے بھیج دی گئی جس کے کونسل خانے میں وہ بم تیار ہوا جس نے میرے جسم کے سو ٹکڑے کر دیئے میرے استاد نے کہا تھا کہ قوم کا لیڈر قوم کا باپ ہوتا ہے۔شاید میں نے غلط سنا تھا یا پھر استاد غلطی پر تھے۔کالے سوٹ اور سرخ خون آلود ٹائی والا شخص کیسا لیڈر ہے اور کس کا باپ ہے؟سرخ خود آلود ٹائی اس کی اپنی امیر کبیربیٹی نے پسند کی اور میری چادر بیچنے کا مسودہ کسی بڑے منہ والے سیفما زدہ صحافی اور جعلی میر چاکر نے دیا۔کوئی طارق فاطمی اور سرتاج عزیز بھی اس مشورے میں شامل ہوا۔ خرم دستگیر بھارت میں پاکستانی سفیر نے بھی خوشی کا اظہار کیا اور سندھ کے وڈیرے خورشید شاہ،آصف علی زرداری،عمران خا ن نیازی اور امیتا بھچن کے دوست چوہدری شجاعت نے بھی کوئی اعتراض نہ کیا۔وقفے کے بعد پھر آواز آئی۔کیا کوئی طالبان،کوئی خان،کوئی چوہدری،کوئی ملک،کوئی میاں،کوئی مولوی،کوئی اینکر،کوئی صحافی یا قوم پرست لیڈر میری چادر واپس لاسکتا ہے؟

میں خاموش رہا کہ فاطمہ کا پیغام کسے دوں۔میاں برادران امن کی آشا کے گیت گا رہے ہیں اور پاکستانی میڈیا بندے ماترم کی دھن بجا رہے ہیں۔سفارتکار،صنعت کار اور تاجر بھارت دوستی سے مال کمارہے ہیں اور سیاستدان انقلاب لارہے ہیں دینی سیاسی جماعتوں کے لیڈر جمہوریت بچا رہے ہیں اور قوم پرست لیڈر اپنی اپنی قوم اور برادری کا الگ الگ ملک بنا رہے ہیں۔پھر سوچا کیوں نہ نریندر مودی کی ضعیف العمر ماں سے ہی درخواست کروں کہ وہ گرین ڈبہ او ر چادر آپ کے دھرم کے مطابق نا پاک ہے اور میرے لئے قومی غیرت کا نشان ہے ۔ یہ چادر آپ کے پاس رہی تو آپ کا دھرم بھرشٹ ہو جائے گا اور واپس آگئی تو فاطمہ کی روح کو سکون ملے گا۔کشمیر سے کراچی اور پشاور سے گوادر تک جتنی مائیں،بہنیں اور بیٹیاں بھارتی درندوں،بھارتی کونسل خانوں میں تیار ہونے والے بموں اور تربیت پانے والے خود کش بمباروں کے ہاتھوں شہید ہوئیں ان سب کی آواز فاطمہ کی آواز ہے۔آپ جس فاطمہ کے گھر اس کی چادر بھجوائیں گی وہ فاطمہ کو ہی ملے گی جس فاطمہ کی قبر پر پیوند لگی سفید چادر چڑھائینگے یہ وہی فاطمہ ہوگی جو جنت میں خاتون جنت فاطمہ بنت رسولﷺ کے قدموں میں بیٹھی اپنی داستان سنا رہی ہے کہ اسکے ایک طالب بھائی نے نفاذ شریعت کی خاطر مودی کے کونسل خانے سے تربیت لیکر کس طرح اسے گوشت کے لوتھڑوں میں بدل دیا۔وہ ضرور پوچھ رہی ہوگی کہ اے اماں کیا تیرے ابا کی شریعت میں کئیں لکھا ہے کہ راہ چلتی فاطمہ کے جسم کے ٹکڑے کرناجائیز ہے؟
asrar ahmed raja
About the Author: asrar ahmed raja Read More Articles by asrar ahmed raja: 95 Articles with 100537 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.