شہنشائیت سے جمہوریت: چار صدیوں کا دائری سفر

خود اپنے دل کے اندر اک جہاں موجود پاتا ہوں
اُسی کی سلطنت اچھّی، اُسی پر اختیار اچھّا
مری روزی نہ کی قُرق اُس نے میری سرکشی پر بھی
خداوندانِ لندن سے مرا پروردگار اچھّا
(مولانا ظفر علی خان، 1873-1956)

برس تھا 1614 ء ، اور برطانوی تاجر مشرقی مصالحہ جات کی پرکشش تجارتی درآمدات کے لیے ولندیزیوں اورپرتگالیوں سے مسابقت کررہے تھے، اور دوسری جانب ان کی فرانس سے بھی ان علاقوں پر تسلط کی جنگ جاری تھی۔ اسی دوران دیگر یورپی ممالک سے اپنی مسابقت بڑھانے کے لیے ایسٹ انڈیا کمپنی نے اپنا ایک سفیر ہند بھیجنے کا فیصلہ کیا، تاکہ وہ اس وقت کے مغل شہنشاہ نور الدین سلیم جہانگیر ابن جلال الدین اکبر کے دربار میں رسائی حاصل کرکے ہندوستانی سرزمین پر اپنے تجارتی دفاتر قائم اور سرگرمیاں شروع کرسکے۔ چند برس پہلے سن 1600 ءمیں ملکہ الزبیتھ اوّل نے ایسٹ انڈیا کمپنی کے قیام کا شاہی فرمان جاری کیا تھا۔ جلد ہی یہ ادارہ ایک بڑی سماجی، معاشی، اور فوجی اہمیت بھی اختیار کرتا گیا۔

مغل شہنشاہیت کے دور میں ہندوستانیوں کی جانب سے ہمیں کسی بحری قوت اور دریافتی جدوجہد کے سفروں کی کہانیاں نہیں ملتیں۔ اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ان تمام ہندوستانی حکمرانوں کے دور میں ایسے سمندر پار تاجر مہمانوں کی آمد ایک دہشت آمیزانوکھے اور دل چسپ موقع کی حیثیت رکھتی ہوگی۔ چنانچہ ایسے حکمران اور ان کے مشیران اور وزراء وسیع و عریض تجارتی اور سفارتی دفاتر کے قیام اور تعمیر میں مضمر خرابیوں کا ادراک نہ کرپائے، یا رومانوی مصروفیات، شراب و کباب و شباب، اور تحفہ تحائف کے نشہ نے ان کی مستقبل بینی اور تجزیاتی صلاحیّتوں کو سلب کرلیا۔ چنانچہ 1614ءمیں مغل بادشاہ جہانگیر کی جانب سے برطانوی مندوب سر تھامس رووے ، ایسٹ انڈیا کمپنی ، کو اجازتی فرمان جاری کرنا ہی وہ سنگ بنیاد ثابت ہوا، جس کے باعث یہ تمام وسیع و عریض علاقہ نہ صرف ایک میدانِ جنگ و جدل بنا رہا، بلکہ آخر کار انیسویں صدی میں مغل سلطنت کے خاتمہ اور مسلمانوں کی ایک طویل عرصہ تک تباہی وبربادی اور سماجی حیثیت کے تنزّل پر منتج ہوا۔ اگر آج برصغیر ( جسے حکیم سعید رحمتہ اللہ علیہ ”برکبیر“ قرار دیتے تھے) میں مسلمانوں کی ایک کثیر تعداد ہندو اکثریت کے زیرِ تسلّط ہے، تو وہ بھی ان ہی اعمال کا نتیجہ ہے۔

تاریخ کے یہ وہ اسباق ہیں جو حکمرانی کرنے والے طبقات کو یاد رکھنے چاہئیں، کہ کس طرح بعض بے ضرر نظر آنے والے اقدامات دور رس اثرات رکھتے ہیں، اور انہیں قابو میں رکھنے کے لیے کن اقدامات اور احتیاطی تدابیر کی ضرورت ہے، ورنہ ہماری قوم تاریخ کے ایک دائری سفر میں ہی سرگرداں رہے گی، اور کسی بھی نئی منزل کو نہ پاسکے گی۔ چنانچہ، اس پس منظر میں موجودہ بھارت کو دوست قرار دینے والے ، اور ریوڑیوں جیسی امداد پر بغلیں بجا بجا کر خوشیاں منانے والا پاکستانی امراءکا طبقہ صریح نادانیاں کرتا نظر آتا ہے۔ پاکستان کا بچہ بچہ اس امر کا ادراک کرچکا ہے کہ پنج سالہ امریکی امداد کا حالیہ قانون، جسے اوباما بم کہنا درست ہوگا، اور جسے اس کے تجویز کنندگان ارکان امریکی مقننہ بائیڈن، کیری، اور لوگر صاحبان کے نام سے بھی جانا جاتا ہے، عام پاکستانیوں کے لیے ایک ناقابل فہم اور ناقابل قبول امریکی قانون ہے۔ اس میں مندرج شرائط کی شقیں توہین آمیز، تضحیکی، غیر عملی، الزامی، اور ایک ڈھکا چھپا امریکی ایجنڈا بھی رکھتی ہیں۔ یہاں یہ واضح کرنا ضروری ہے کہ جدید دور میں کسی بھی قوم کو اپنی معاشی اور تکنیکی ترقی کے لیے طویل عرصہ کے منصوبے بنانے ہوتے ہیں، جن کی مدت پانچ برس سے سو برس تک کی ہوسکتی ہے۔ یہ ایک باقاعدہ منیجمنٹ سائنس ہے، جسے مستقبلیات کا نام دیا جاتا ہے۔ امریکہ میں اس بارے میں ایک بین الاقوامی سوسائٹی قائم ہے، جس کا نام ورلڈ فیوچر سوسائٹی ہے۔ اس کے بانی کی ایک مشہور کتاب مستقبلیات ے نام سے ہے۔ سن 2004ءمیں راقم الحروف نے اس کتاب کا ایک نسخہ اس وقت کے وزیر اعظم ، جناب شوکت عزیز، کو پیش کیا تھا۔ پاکستان میں مستقبلیات کے موضوع کو اردو ادب کے عظیم دانش ور اور ایک زندہ جاوید مثالی پاکستانی جناب جمیل الدین عالی نے متعارف کرایا تھا۔ مستقبلیات کے تجزیے کس طرح کیے جاتے ہیں، اور ان کی کیا اہمیت ہے، ہم کوشش کریں گے کہ مستقبل قریب میں آپ کو اس بارے میں کچھ تفصیل سے آگاہ کریں۔

حالیہ امریکی امداد کے قانون کے بارے میں میڈیا میں خاصی بحث ہوچکی ہے، اور اسے تفصیل سے دہرانا شاید کسی حد تک غیر ضروری ہے۔ تاہم، آپ نے یہ نوٹ کیا ہو گا، کہ پاکستان میں امریکی سفیرہ این پیٹرسن پاکستانیوں کی کھلے عام تنقید سے خاصی پریشان ہوئیں، اور انہوں نے ایک غیر معمولی انٹرویو ایکسپریس نیوز ٹی وی چینل کے کامران شاہد کو دیا۔ اس میں انہوں نے اس قانون کا دفاع کرتے ہوئے اس میں موجود فوج سے متعلق شقوں پر ندامت بھی ظاہر کی، اور وہ فوراً امریکہ بھی روانہ ہوگئیں۔ تاہم امریکی مقننہ کے طریقہ کار کے مطابق وہ موجودہ صورتِ حال میں اسے تبدیل نہیں کراسکتی تھیں۔ تاہم انہوں نے پاکستانیوں کے آنسو پونچھنے کے لیے وضاحتی ٹشو پیپر رومال کا ضرور انتظام کرادیا۔ جسے استعمال کے بعد ردّی کی ٹوکری میں پھینک دیا جائے گا۔ امریکی ارکان پارلیمنٹ وغیرہ اس قانون کی منظوری کے لیے بہت فعال اور متحرک نظر آئے۔ یہ ایک غیر معمولی امر ہے۔ یہ محسوس ہوتا ہے کہ اس مالی امداد سے امریکہ کو خود اپنا کچھ ایسا خرچ پاکستان میں کرنا ہے جس کے لیے اس قانون کی فوری منظوری ان کے لیے اشد ضروری تھی۔ دوسری جانب پاکستانی طبقہءامراء بھی اس سے کچھ ذاتی فوائد حاصل کرسکتا ہے، ورنہ بصورتِ دیگر وہ ان ریوڑیوں کے ملنے پر مٹھائیاں کیوں کھاتے ، اور اس پر دستخط ہونے پر ایوان ِ صدر میں دھمال کیوں ڈالتے۔

پاکستانی عوام کے لیے حیران کن امر یہ ہے کہ آخر پاکستانی ایوانِ نمائندگان، امراءو رﺅسا، اور بیورو کریسی نے صرف ڈیڑھ ارب ڈالر سالانہ مبہم، ناقابل اعتبار، اور بے قابو امداد پر کیوں بھروسہ کیا، اور اس کے متبادل کیوں نہ تلاش کیے! مالی امور پر نظر رکھنے والے یہ بھی جانتے ہیں کہ اس امداد کے پانچ سالہ دور میں ہر برس ڈیڑھ ارب ڈالر کی حقیقی قدر شرح افراط زر کے حساب سے گھٹتی جائے گی، اور شاید پانچویں برس میں یہ قدر 20 فی صد بھی نہ رہ جائے۔ دوسری جانب اس مدد کے انتظامی اخراجات بھی اس میں سے منہا کیے جائیں گے، چنانچہ پاکستانیوں کو چٹنی بھربھی اصل مدد نہ ملے گی۔

جیسا کہ آپ سب جانتے ہیں کہ اس قانون میں بے شمار ایسی شقیں موجود ہیں جن کی بنیاد پر یہ مالی مدد کسی وقت بھی بند کی جاسکتی ہے۔ دوسری جانب اس مدد کی نگرانی اور درست استعمال کے بہانہِ امریکی اثر ونفوذ ایسٹ انڈیا کمپنی سے بھی بڑھ جائے گا۔ اس بہانہِ پاکستان کے نہایت ہی حسّاس علاقوں میں بڑی بڑی جائیدادیں خریدی اور وسیع کی جارہی ہیں۔ دوسری جانب ان جائیدادوں کی حفاظت اور دفاع کے لیے بھی کچھ ایسے اقدامات کیے جارہے ہیں جو نہ صرف پاکستانیوں بلکہ پاکستان کے مخلص دوستوں، جیسے چین، کو بھی کھٹک رہے ہیں۔ پاکستان کے اعلیٰ ترین حکام کے حالیہ دورہءامریکہ میں صوبہ سرحد کے کلیدی سیاستدانوں کی خصوصی مہمان نوازی بھی ان ہی اقدامات میں سہولتیں حاصل کرنے کی کوشش نظر آتی ہے۔ واضح رہے کہ پشاور کا پنج ستاری ہوٹیل امریکہ خرید رہا ہے۔ اس سے پاکستانی سالمیت پر جو مُضر اثرات پڑیں گے وہ تو اپنی جگہ ہیں، مگر اس سے پاکستانی ہوٹیل اور سیاحتی صنعت کو بھی ایک دھچکا پہنچے گا۔ اس قسم کے ہوٹیل تعمیر کرنا معمولی کام نہیں، اور اس کے متبادل عمارت اور سہولیات کو بنانے میں کم و بیش پانچ سال تو لگ ہی جائیں گے۔ دوسری جانب اسلام آباد میں یکے بعد دیگرے ایسے متعدد واقعات پیش آچکے ہیں جہاں مسلح غیر ملکیوں نے پاکستانیوں کی آزادی اور وقار کو شارع عام پر ہی چیلنج کیا ہے، اور پاکستانیوں کو ہراساں کیا ہے۔ جب کہ عمومی طور پر پاکستانی میڈیا اس ضمن میں خوف زدہ اور خاموش ہے، اور ایسے واقعات کو کھل کر منظرِ عام پر نہیں لارہا ہے۔ ہمیں تو یہ خطرہ محسوس ہوتا ہے کہ امریکہ اسلام آباد میں پاکستانی 111 بریگیڈ کی کسی بھی ممکنہ کارروائی کی فوری مزاحمت کرنے کی استعداد کا انتظام کرنے میں مصروف ہے، جب کہ کسی بھی ایسی طاقت کو پاکستانی طاقتوں کے دیگر مراکز کے خلاف بھی استعمال کیا جاسکتا ہے۔

کیری / لوگر بل کے نام سے معروف اس امریکی قانون نے پاکستان کے کلیدی اداروں کے درمیان دراڑیں ڈالنے کا عمل شروع کردیا ہے۔ اس میں شامل فوج اور پاکستانی ایٹمی پروگرام کے بارے میں شرائط، اور دہشت گردی کے مُبیّنہ مراکز کے ناموں کاذکر خاص طور پر ایسے قابل مُذمّت امور میں شامل ہے۔ امریکی قانون سازوں نے بڑی نخوت اور غرورو تکبّر سے کہا ہے کہ امریکی کانگریس کسی کو بھی جواب دہ نہیں، اور وہ اس قانون میں پاکستانی مرضی سے کوئی تبدیلیاں نہیں کریں گے۔ چنانچہ اب پاکستانی ایوانِ نمائندگان پر بھی یہ قومی فرض عائد ہوگیا ہے کہ وہ ایک فوری پاکستانی قانون بنائے جس میں اس قسم کے تضحیک آمیزغیر ملکی قوانین کو قبول نہ کرنے کی شقیں ہوں، اور اس معمولی اور مبہم بے قابو امداد کو رد کردیا جائے، اور خاص طور پر کسی بھی ایسی مالی مدد کو قبول نہ کیا جائے جو پاکستانی اداروں کے ذریعہ نہ دی جارہی ہو، اور جس میں غیرملکی دخل اندازی ہو۔ ہم یہ پھر یاد دلاتے چلیں کہ پاکستانی صوبہ پرستی، لسانیت، اور قوم پرستی کے طوفانوں میں ابھی تک حقیقی پاکستانی یک جہتی کی اصل زنجیر فوجی ادارہ ہی ہے۔ اگرچہ مثالی طور پر اس ادارہ کو سیاسی حکومت کی ہدایات بلا چوں و چرا مان لینی چاہیے، تاہم ابھی تک ایک مثالی اور اہل اور دور اندیش جمہوری حکومت کام کرتی نظر نہیں آرہی ہے۔ اسی وجہ سے جب پاکستانی فوج کی جانب سے اہم تجاویز نہیں مانی گئیں، اور ایوانِ نمائندگان بھی غفلت کی نیند میں رہا، تو انہیں اپنے خیالات کا کھل کر عوام کے سامنے اظہار کرنا پڑا۔ اور ہم دیکھتے ہیں کہ دنیا کی دیگر افواج بھی عوامی بیانات دیتی رہتی ہیں، بلکہ ان کے اہم اہل کار ٹی وی پر آکر اپنے خیالات کا اظہار بھی کرتے رہتے ہیں۔ اسی قسم کا ایک اور اہم واقعہ مارچ 2009ءمیں پیش آچکا ہے، جب کہ پاکستانی فوج کو عدلیہ کی بحالی میں اپنا وہ کردار ادا کرنا پڑا جس پر حکومت ہچر مچر کررہی تھی، اور ایک عوامی سیلاب دارالحکومت کو ڈبونے کے لیے بڑھ رہا تھا۔ پاکستان کی مغربی سرحدوں پر نیٹو اور امریکی افواج غیر دوستانہ اقدامات کررہی ہیں، مثلاً چمن کے نزدیک بلا انتباہ دھماکہ خیز مشقیں، اور ایک ایسے وقت میں افغانی سرحدی چوکیوں کو خالی کردینا جب کہ پاکستانی افواج جنوبی وزیرستان میں کارروائی میں مصروف ہیں، اور اس سرحد پر آمد ورفت کو روکنا ضروری ہے۔ مشرقی سرحدوں پر بھارت اپنی فضائیہ کو کسی بھی حیران کن کارروائی کے لیے تیار کررہا ہے، اور سمندری سرحدوں پر پاکستانی ماہی گیری کی صنعت کو تباہ کرنے میں مصروف ہے۔ پاکستانی آبی وسائل پر کنٹرول، اور کشمیر پر عدم پیش رفت اپنی جگہ پر سنجیدہ مسائل ہیں۔ عقل و دانش ان حالات میں یہ تقاضہ کرتی ہے کہ پاکستان امریکہ کو اپنا دوست سمجھنا ترک کردے، اور اس سے اپنے تعلّقات صرف اور صرف تجارتی بنیادوں پر ہی رکھے۔

ایمل کانسی اور رمزی یوسف جیسے ملزمان کو جب پاکستانیوں نے امریکہ کے حوالے کیا تھا، تو ایک امریکی نمائندہ نے واشگاف الفاظ میں اس وقت یہ کہا تھا کہ پاکستانی تو پیسے کے لیے اپنی ماﺅں کو بھی بیچنے پر تیّار ہوجاتے ہیں (نعوذ باللہ)۔ اب اس جمہوری دور میں پاکستانی وقار کا سودا کرنے والے غیرملکی قوانین اور بیانات کو رد کرنا ضروری اور قانونی طور پر آسان ہے۔ چنانچہ نہ صرف اس معمولی مالی مدد کو رد کردیا جائے، بلکہ اس کے متبادل اقدامات اور ذرائع کو دریافت کیا جائے۔ ملکی وسائل پر انحصار، اور خود انحصاری، اور خود اعتمادی حاصل کرنے کا وقت آگیا ہے، جس کے لیے ہمیں با بائے قوم قائد اعظم محمد علی جنا ح کی عطا کردہ بنیادی قومی اقدار، اتحاد، یقین محکم، اور تنظیم کو ازسرنو حیاتِ تازہ سے ہمکنار کرنا ہوگا۔

پیارے قارئین ، پس چہ باید کرد؟ اس صورت میں مندرجہ ذیل اقدامات سے کیری/لوگر قانون جیسی امداد سے چھٹکارا پایا جاسکتا ہے:

1 فوری طور پروفاقی زرعی انکم ٹیکس عائد کیا جائے، اور زرعی پیداوار کی مقامی قیمتوں پر اس کا اثر نہ ہونے دیا جائے۔ واضح رہے کہ اس ٹیکس کی عدم موجودگی سے معاشرہ میں کالا دھن خوب پھل پھول رہا ہے۔ مزید زرعی اصلاحات کی جائیں، مثلاً زیرِ کاشت رقبہ، فصلیں، اور فی ایکڑ رقبہ کی پیداوار کو معیاری سطح پر لایا جائے

2 جائیدادوں کی خرید و فروخت پر اور شیئر بازار پر کیپیٹل گین ٹیکس لگایا جائے

3 عمومی ٹیکس چوروں کو پکڑا جائے ، اور قید کی سزا بھی عائد کی جائے تاکہ چوروں کی حوصلہ شکنی ہوسکے

4 غیرممالک میں مقیم پاکبانوں سے خصوصی مہم کے ذریعہ پیسے پاکستان منگوائے جائیں، اور خاص حد تک رقوم بھیجنے والوں کو اس ضمن میں سرٹیفیکیٹ جاری کیے جائیں، جن سے ان کی حوصلہ افزائی ہو

5 تمام پاکستانی سیاستدان اپنا بیرون ملک پیسہ پاکستان منتقل کریں، یا بصورت دیگر وہ سیاست ترک کردیں

6 تمام پاکستانی صنعتکار اپنا بیرون ملک پیسہ پاکستان منتقل کریں۔ ایسی کئی پیشکشوں کا اعلان ہوچکا ہے، ان کی عزت افزائی اور حوصلہ افزائی کی جائے

7 غیر ضروری پر تعیش اشیاءکی درآمد فوری طور پر بند کی جائے، مثلاً میک اپ کا سامان

8 برج فنانسنگ کے لیے فی الحال آئی ایم ایف وغیرہ سے کم سے کم مدد لے لی جائے

9 صرف پڑھے لکھے، اور قابل وزراءکا تعین کیا جائے، اور شفاف اور گڈ گورننس کے منیجمنٹ اصولوں پر عمل کیا جائے، ہر مالی معاملہ پر اخراجات اور فوائد کی سمری بنائی جائے اور عوام کے سامنے پیش کی جائے

10عدل و انصاف کو عام اور یقینی بنایا جائے، اور اس عمل میں سرعت لائی جائے

11پاکستانی برآمدی تجارت کے حجم کو بڑھایا جائے، اور غیرروایتی اشیاء، مثلاً پھل وغیرہ کی کاشت میں اضافہ، اور برآمدات کی کوششیں کی جائیں

12حکومتی اخراجات اور پھیلاﺅ میں کمی کی جائے، اور سالانہ بجٹ میں کسی بھی ناقابل اعتبار اور ناقابل بھروسہ غیرملکی مدد کو شامل نہ کیا جائے، غذائی اشیاءسے منافع خوری کے رجحان پر قابو پایا جائے

پیارے قارئین یہاں ہم نے تمام ممکنہ متبادل اور اختیارات کا ذکر نہیں کیا ہے۔ اس ضمن میں آپ بھی اپنا کردار ادا کریں، اور اپنی تجاویز پیش کریں۔ یہ نشست طویل ہورہی ہے، اور اب آپ اس موضوع کی اہمیت کے باوجود بور ہوتے نظر آرہے ہیں، چنانچہ بقول شخصے، یار زندہ صحبت باقی۔ انشااللہ پھر جلد ہی ملاقات ہوگی۔ تاہم جاتے جاتے، مفکر اسلام، حکیم الامت علامہ اقبال کا یہ شعر دہرانے کا موقع ہے

خودی کو کر بُلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے
خُدا بندے سے خود پوچھے، بتا تیری رضا کیا ہے
(علامہ اقبال رحمتہ اللہ علیہ1877-1938)
Muhammad Bin Qasim
About the Author: Muhammad Bin Qasim Read More Articles by Muhammad Bin Qasim: 2 Articles with 7057 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.