کیا واقعی زرداری اور الطاف کی راہیں جدا جدا ہوگئی ہیں؟
(Muhammad Azam Azim Azam, Karachi)
دبئی میں پی پی پی
اور ایم کیو ایم کے کامیاب مذاکرات
پی پی پی اور ایم کیو ایم کے مذاکرات کے بعد ملک میں آنے والی سیاسی کالی
آندھی کا زور ٹوٹ گیا
تم ساتھ ہو جب اپنے دنیا کو بتادیں گے
گزشتہ دنوں دبئی میں پاکستان پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کے رہنماؤں کے
درمیان ہونے والی ملاقات اور کامیاب مذاکرات سے ملک کے موجودہ سیاسی حالات
میں تبدیلی کے دور رَس نتائج اخذ ہونے کی امیدیں پیدا ہوگئی ہیں اور اِس
کامیاب مذاکرات سے ملکی سیاست میں آنے والی کالی آندھی کا زور ٹوٹ چکا ہے۔
اور اِس کے ساتھ ہی اَب حکومت سمیت پوری پاکستانی قوم کو بھی یہ ڈھارس بند
چکی ہے کہ اَب کوئی حکومت کا بال بیکا نہیں کرسکتا۔ اور اَب پاکستان پیپلز
پارٹی اور ایم کیو ایم کی راہیں جداجدا نہیں ہیں ۔اور اِس کے ساتھ ہی صدر
زداری کے سیاسی مخالفین سمیت ملک میں مڈٹرم الیکشن کا خواب دیکھنے والے
سیاسی بیماروں کو بھی یہ یقین ہوجانا چاہئے کہ یہ حکومت اَب اپنی مدت پوری
کرلے گی۔ اور اِس کے علاوہ یہ بھی کہ دبئی کے مذاکرات نے یہ واضح کردیا ہے
کہ آپس کے اختلافات کو ختم کرنے کے لئے مذاکرات کا عمل ہی کسی بھی ملک میں
جمہور اور جمہوری عمل کو جاری رہنے کے لئے ضروری ہوتا ہے کہ اختلاف افہام و
تفہیم سے ختم کئے جائیں۔ اور جہوری عمل کو جاری رکھا جائے اور اِس میں بھی
کوئی شک نہیں کہ حکومت اور ایم کیوایم نے اپنے اپنے اختلافات کو ایک جمہوری
عمل کے ذریعے ختم کر کے یہ ثابت کردیا ہے کہ یہ دونوں جماعتیں ہر صورت میں
ملک میں جمہوریت کو قائم رکھنے کے لئے سنجیدہ ہیں اور یہ ہر صورت میں ہر وہ
مثبت اور تعمیری کام کرنے کو تیار ہیں کہ جس سے ملک اور قوم کے لئے بہتری
کی راہیں کھولیں۔
اگرچہ یہ بھی حقیقت ہے کہ گزشتہ کچھ دنوں تک یہ تصور کیا جارہا تھا کہ
حکومت اور صدر زرداری این آر او اور کیری لوگر بل سمیت اور بہت سے دیگر
اندرونی اور بیرونی سیاسی اور اقتصادی معاملات میں تنہا رہ گئے ہیں اور
ایسے میں انہیں یہ خود بھی سوچنا چاہئے کہ آخر وہ کیا وجوہات ہیں کہ اِن سے
اِن کے اتحادی بھی کسی خزاں رسیدہ درخت کے پتوں کے مانند ایک ایک کر کے جدا
ہو رہے ہیں اور ایسے میں ایک وقت یہ آیا تھا کہ جب حکومت میں شامل ایک بڑی
اور طاقتور جماعت ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین نے اسکردو میں انتخابی
جلسہ عام سے اپنے ٹیلیفونک خطاب میں این آر او جیسے بے اصول اور کالے قانون
کے خلاف اپنا اصولی مؤقف اپناتے ہوئے یہ واضح کردیا ہے کہ ایم کیو ایم نے
این آر او سمیت ہر قومی ایشو پر اصولی موقف اپنایا ہے اور ایم کیو ایم
آئندہ بھی ایسے کسی قانون کا ساتھ نہیں دیگی جو ایم کیو ایم کے منشور اور
عوام کی خواہشات اور اُمنگوں کے خلاف ہوگا انہوں نے اِس کا بھی برملا اظہار
کر کے حکومت اور صدر زرداری کو مشکل میں ڈال دیا تھا کہ اگر اصولی مؤقف
اختیار کرنے اور حق و سچ کا ساتھ دینے کی خاطر ہمیں حکومت سے علیحدہ ہونا
پڑا تو ایم کیو ایم حکومت سے علیحدگی کو ترجیح دے گی لیکن حق پرستی کا دامن
ہرگز نہیں چھوڑے گی۔ اِن کے اِس خطاب کے بعد تو ملک کے مقدر سیاسی حلقوں کو
یہ بھی یقین ہو چلا ہے کہ اَب حکومت پوری طرح سے اکیلے رہ گئی۔ اور ایسے
میں اِسے اپنی مدت بھی پوری کرنا مشکل ہوجائے گا۔ اور اَب تو صدر زرداری کو
واقعی صحیح معنوں میں متحدہ قومی موومنٹ کے قائد الطاف حسین کے اُن مشوروں
پر فوری طور پر عمل کرنا چاہئے جو گزشتہ دنوں انہوں نے ایک نجی ٹی وی کو
اپنے دیئے گئے اپنے انٹرویو میں دیئے تھے کہ صدر زرداری جلد اختیارات
پارلیمنٹ کو واپس اور مخلص دوست تلاش کریں اور پارٹی کے لئے قربانیاں دینے
والے رہنماؤں کو واپس بلائیں۔ اور صدر زرداری ملکی مسائل پر توجہ دیں۔ اِس
کے علاوہ انہوں نے یہ بھی کہہ دیا تھا کہ وہ حکومت کو اداروں سے تصادم کا
مشورہ نہیں دیں گے اور آخری حد تک پیپلزپارٹی کے ساتھ چلیں گے۔
مگر یہاں اَب حکومت اور ہر پاکستانی کو محب الوطنی کے کسوٹی پر یہ بات پرکھ
لینی چاہئے کہ ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین اور ان کی تحریک ہی ملک کی
وہ واحد جماعت ہے جس نے ہمیشہ حق اور سچ کا پرچم بلند رکھا اور آج بھی اِن
کی جماعت اپنے اصول حقیقت پسندی اور عملیت پسندی پر قائم رہتے ہوئے ملک اور
قوم کے بہتر مستقبل کے خاطر این آر او جیسے کسی بھی بے اصول اور کالے قانون
کی حمایت نہیں کرے گی۔ اور اِس کے ساتھ ہی حکومت اور ایم کیو ایم کے درمیان
دبئی میں ہونے والے کامیاب مذاکرات کے بعد آج پاکستانی قوم کو شدت سے یہ
احساس ہوگیا ہے کہ ایم کیو ایم ہی وہ واحد جماعت ہے جو پاکستان اور
پاکستانی قوم کو مشکل لمحات سے نکالنے میں معاون اور مددگار ثابت ہوسکتی ہے۔
اور اِس کے ساتھ ہی میں آج کے اپنے اِس کالم کو متحرمہ بے نظیر بھٹو شہید
کے اِس قول کے ساتھ آگے بڑھانے کی جسارت کر رہا ہوں کہ”سیاست کی بڑی سنجیدہ
اور دور رَس ذمہ داریاں ہوتی ہیں۔ سیاست قوم کے وجود میں اِس کے احیا کی
بنیاد ہوتی ہے“ایک طرح سے اگر دیکھا جائے تو دنیا میں جہاں کہیں بھی سیاست
کی جاتی ہے اِن کا یہ قول سیاست کی روح قرار پاتا ہے جس میں انہوں اپنے صرف
چند لفظوں میں سیاست کو قوم کی احیا سے تعبیر کر کے سیاست کی تعریف اِس طرح
بیان کردی ہے کہ سیاست کے وسیع اور عریض سمندر کو ایک کوزے میں بند کر دیا
ہے۔ اور ایک طرح سے متحرمہ بے نظیر بھٹو شہید کے اِس قول نے تو کمال ہی
کردیا ہے کہ اِس میں انہوں نے سیاست کے میدان کے شہسواروں کو یہ باور کردیا
ہے کہ سیاست قوم کی احیا کی پاسداری کی بنیاد ہے اور اگر کسی نے قومی سیاست
کی یہ ذمہ داری اپنے کاندھوں پر اٹھانے کی ٹھان ہی لی ہے تو اُس پر یہ بھی
ذمہ داری عائد ہوجاتی ہے کہ وہ اپنے سیاسی فرائض کی ادائیگی کو طرح سے
انجام دے کے قوم کی احیا پر بھی کوئی آنچ نہ آنے پائے اور یہ ذمہ داری بھی
ادا ہوجائے۔
اور اِسی طرح کونیل کا بھی ایک قول ہے کہ” جو بات اخلاقی طور پر غلط ہو
اِسے سیاسی طور پر درست قرار نہیں دیا جاسکتا“ اور کونیل کا یہ قول آج
ہمارے ملک کی اندرونی سیاست کی پوری سے عکاسی کرتا نظر آرہا ہے جس میں این
آر او جیسے کالے قانون کو جو اخلاقی طور پر غلط ہے اُسے موجودہ حکمران اپنی
حکومت میں شامل صرف چند لوگوں( جن میں وزرا اور مشیر شامل ہیں اِن ) کو ہی
فائدہ پہنچانے اور انہیں ہی بچانے کے لئے اِس غیر اصولی اور غیر قانونی این
آر او کو قانونی بنانے کے لئے مرغے کی ایک ٹانگ جیسی ضد پر اڑ کر اپنی انا
کا مسئلہ بنائے ہوئے تھے۔ اور اپنا سب کچھ داؤ پر لگانے پر تلے بیٹھے تھے۔
مگر اَب یہاں یہ امر حوصلہ افزا ہے کہ حکومت نے ملکی سیاسی حالات کے تناظر
میں اَب ہوش کے ناخن لے لئے ہیں اور این آر او کو پارلیمنٹ میں پیش نہ کرنے
کا فیصلہ کر کے یہ واضح کردیا ہے کہ وہ بھی ملک اور قوم کے خاطر ہر قسم کی
قربانی دینے کو تیاری ہے۔
اگرچہ دنیا کے ہر باشعور اور مہذب معاشرے میں کہا جاتا ہے کہ اگر کسی قوم
کو پرکھنا ہے تو اُس قوم کے سیاست دانوں کے کردار کو پرکھو اور آج گزشتہ
62سالوں سے نہ صرف پاکستانی قوم ہی اپنے ملک کے سیاست دانوں کے کرداروں کو
پرکھ کر کندن بن چکی ہے بلکہ پوری دنیا بھی ہمارے سیاست دانوں کے قول و فعل
کے بل کھاتے اور للچاتے تیوروں اور اِن کے گفتار کی بازی گری کو بھی اچھی
طرح سے سمجھنے کے بعد اِس نتیجے پر پہنچ چکی ہے کہ اِس نے اَب اِن پر اپنا
اندھا اعتماد کرنا بھی چھوڑ دیا ہے۔ مگر اَب دنیا کو یہ بات ماننی پڑے گی
کہ ایم کیوایم ہی پاکستان اور پاکستانی عوام کے لئے ایک مسیحا بنے گی۔ اِس
لئے بھی کہ یہ جماعت اور اِس کی قیادت ایک اصول پسند اور اپنے قول و فعل
اور کردار کے حوالے سے بے داغ اور نڈر ہے۔ اور آج یقیناً صدر زرداری ایم
کیو ایم سے دبئی میں ہونے والے کامیاب مذاکرات کے بعد اِس خوشی کے موقع پر
یہ گاتے پھر رہے ہوں گے کہ
”تم ساتھ ہو جب اپنے دنیا کو بتادیں گے
ہم موت کو جینے کا انداز سیکھا دیں گے“ |
|