قلب بریاں چشم گریاں کہ جذبے آج بھی مجروح
18 جولائی2013
محمد شفیع میر
تاریخ کا قلم آج بھی تھر تھر کانپ اٹھتا ہے جب یہ۱۸ جولائی ۲۰۱۳ء کے گُول
المیے کو ضبط تحریر میں لانے کی کوشش کرتاہے۔ مورخ انگشت بدانداں ہے کہ
آخر اس روز بی ایس ایف اہلکاروں نے گول گلاب گڈھ میں بلا جوا زاور بلا
اشتعال نہتے لوگوں پر راست فائرنگ کر کے پُر امن ماحول میں بد امنی کا زہر
کیوں گھو ل دیا۔ واقعہ یہ ہو اکہ علاقہ گُول سے ۱۲ کلو میٹر کی دورشڈی کے
مقام پر بارڈر سیکورٹی فورس اہلکاروں نے ۱۷ جولائی بعد از تراویح بلا جواز
ایک مدرسے میں گھس کر قرآن پاک کے مقدس کے ساتھ ناگفتہ بہ طرزعمل اختیار
کیا اور مدرسے میں موجود مولوی صاحب کی شدید مار پیٹ کر دی۔ مولوی صاحب نے
جب انہیں شعائر اسلام کی بے حرمتی سے روکنے کی کوشش کی تو اس پر یہ مسلح
اہلکارپر ٹوٹ پڑے۔ مولوی صاحب کی چیخ و پکار سن کے مقامی لوگ مدرسے کی طرف
چل پڑے تو انہیں دیکھ کر بی ایس ایف والے وہاں سے بھاگ نکلے۔یہ سارا ماجرا
سن کر مقامی لوگوں نے شبانہ احتجاج شروع کر دیا اوریہ خبر جنگل میں آگ کی
طرح پھیل گئی اورجو جہاں جس حالت میں تھا ،وہیں سے شڈی کی طرف چل نکلا ۔ہر
مسلمان بی ایس ایف کی اس نا قابل برداشت حرکت کی مذمت کر رہا تھا اور
ملوثین کو گرفتار کرنے کا مطالبہ کر رہا تھا ۔دور دور سے لوگ آتے رہے
اوراس طرح سے لوگوں کا جم ِ غفیر شڈی میں جمع ہو گیا۔اب سحری کا وقت بھی
نزدیک آیا تو لوگ سحری تناول کرنے کے لئے اپنے اپنے گھروں کی طرف نکل پڑے۔
دور دور سے آئے ہوئے کچھ لوگ سحری تناول کرنے کے لئے واپس تو گئے لیکن کچھ
لوگوں نے شڈی میں ہی سحری تناول کی سحری کھانے کے بعد لوگوں نے نماز فجر
ادا کی۔ نماز اداکرنے کے بعد لوگ فوراً جائے واردات پر جمع ہو کر بی ایس
ایف کے اہلکاروں کو جلد از جلد گرفتار کرنے کا مطالبہ کرنے کے لئے مظاہرے
کر نے لگے ۔صبح کے تقریباً آٹھ بجے ڈپٹی کمشنررام بن بھی جائے واردات پہ
پہنچے جہاں انہوں نے لوگوں کی فریاد سنی لیکن افسوس کا مقام ہے کہ جہاں ضلع
انتظامیہ رات بھر خواب خرگوش میں مست رہی ،وہیں اُس وقت کے ڈپٹی کمشنر نے
جائے واردات پہ پہنچ کر لوگوں کا غم و غصہ کم کر نے کے بجائے اشتعال انگیز
طرز کلام سے لوگوں کے غصے کو اور زیادہ بھڑکادیا ۔ا س وجہ سے لوگوں نے شدت
سے احتجاج کر نا شروع کر دیا ۔ اس وقت کے ڈی سی نے فوراً گولی چلانے کا حکم
جاری کر دیا اور اس طرح سے انسانیت کا منہ کالا کر تے ہوئے پولیس اور بی
ایس ایف نے لوگوں پربے تحاشہ فائرنگ شروع کر دی اور اُن ہی لوگوں کو چن چن
کرابدی نیند سلادیا جو لوگوں کو پُر امن رہنے کی تلقین کر رہے تھے ۔ موقع
پر ہی 4نوجوان شہید اور40 سے زائد لوگ فائرنگ سے زخمی ہوئے۔ ان میںسے بیشتر
لوگ عمر بھر کے لئے معذور ہو چکے ہیں۔بے گناہ اورسادہ لوح عوام پہ بی ایس
ایف اورپولیس کی بندوقوں سے نکلنی والی گولیاں ہی اگر جمہویت اورسلامتی
وحفاظتی ڈیوٹی کی غمازہیں توپھر ہٹلر ، مسولینی اور پنو شے کی کیا خطا
ہے؟؟؟ سچ یہ ہے کہ فورسز نے ہمیشہ نہتے اوربے قصورلوگوں پہ گولیاں برسانے
کے بعد مقتولین اورمظلومین پر ہی الٹا’’ دہشت گردی‘‘ کا الزام لگاکر اپنی
انسان دشمنی کا واضح ثبوت پیش کیا اوراہل اقتدار نے کر سی بچانے کے لئے طرح
طرح سے ظالموں کی پیٹھ ٹھونک کر ہمیشہ مسلمانوں کے جذبات کو ٹھیس پہنچائی ۔
ریاست میںکبھی انصاف دلانے کا جھوٹا وعدہ کر کے انصاف کا قتل ِ عام کیا گیا
تو کبھی قتل کے بدلے میں روزگار فراہم کرنے کا وعدہ کر کے اپنے مکر وفریب
کا دھندا چلا یا ۔ گُول المیے نے ہر مسلمان کو ہلا کر رکھ دیا اور جس طرح
آج کل غزہ فلسطین میں اسرائیلی جارحیت ہورہی ہے ،اسی کا ایک منی نمونہ شڈی
میں دکھا یا گیا۔
۱۸ جولائی ۲۰۱۳ء کی رات قیامت سے کم نہیں تھی ،اس شب کو گویا ریاستی
مسلمانوں پرآسمان ٹوٹ پڑا، پائوں تلے زمین کھسک گئی ،یہ المیہ جو کہ دلوں
کو جھنجوڑ گیا ،ہر آنکھ اشکبار ہوئی ،ہر دل میں یہ احساس جاگزیں ہوا کہ
مسلم آبادی حالات کے رحم وکرم پہ ہے ۔ اس موقع پر چار گھر انوں کے چشم
وچراغ گل ہو ئے ۔ یہ چار وں شہید اپنی زندگی کی آخری سحری کا کھاکر اپنے
ماں باپ اور اپنے بچوں سے آخری بار مل کر داڑم (جاملان) کی طرف چل پڑے ۔ان
میں شہید لیکچرار منظور احمد شان بھی شامل تھے جو کہ مرکزی جامع مسجد گُول
کے صدر بھی تھے، احتجاجی جلوس کی قیادت کر رہے تھے ۔کچھ ہی دیر تقریباً دس
ہزار لوگوں پر مشتمل ایک بہت بڑا جلوس جائے واردات پر پہنچ گیا اور تمام
لوگ ایک جگہ جمع ہو کر یعنی بی ایس ایف کیمپ جس کے چاروں اطراف سے مسلح
پہرہ داروں کا محاصرہ تھا ۔ لوگ اس کے سامنے احتجاج کرنے لگے ،مظاہرین کوئی
اشتعال انگیز نعرہ بازی نہیں کر رہے تھے بلکہ حق اور انصاف کی مانگ کر رہے
تھے۔ آخر کار تقریبا صبح کے آٹھ بجے ایس پی رام بن ، ڈی سی رام بن ، ڈی
ایس پی گُو ل موقع ٔواردات پر نمو دار ہو ئے ۔ انتظامیہ کے ان افسروں اور
لوگوں کے درمیان اس سارے واقعہ کے بارے میں بات چیت ہونی جو بے نتیجہ رہی
لیکن نامراد انتظامیہ کا منصوبہ اُس وقت چوپٹ ہو ا جب ڈی سی رام بن نے
دشنام طرازی سے کام لے کر حالات کو بے قابو کر دیا اور مشتعل لوگ بی ایس
ایف کیمپ پر پتھرائو کرنے لگے۔ اتنے میں اپنے فرائض سے ناآشنا ڈی سی کے
تانا شاہی آرڈر پرفورسز نے جلیاں والا باغ کا ایکشن ری پلے کر تے ہوئے مظا
ہر ین پر اندھا دھند گولیوں کی بوچھاڑ کر دی ۔ پہلی گولی کا نشانہ لیکچرار
منظور احمد شان کو بنایا گیا ۔ اس کے بعد افرا تفری کا ماحول برپا ہو گیا
اور فورسز کے سامنے جو بھی آ گیا اس کو نشانہ بناتے گئے۔ اب جوکوئی بھی
خون سے لت پت منظور احمدکی جانب آنے کی کوشش کرتا اُسے بھی وہیں ڈھیر کیا
جا تا۔ اس طرح سے چار بے گناہ لوگ اپنی جان عزیر گنوا بیٹھے اور ۴۲افراد کو
شدید زخمی کر دیا گیا ۔ یہ آدمیت کے منہ پر تھپڑ،جمہوریت کے چہر ے پر کالک
، غنڈہ راج کا دبدبہ ہی نہ تھا بلکہ ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت مسلمانوں
کو تکلیف پہنچانے کی سعی ٔ نامشکور تھی۔یہ ساری خون آشام کارروائی مداخلت
فی الدین ، عبادت پر قدغن ، انصاف سے بیراور آئین وقانون سے صریحاً انحراف
ہے، یہ حکومت کے چہرے پر وہ کالک ہے جو سات سمندر کے پانیوں سے بھی دھوئی
نہیں جا سکتی ۔
داڑم گول میں جاں بحق ہوئے مظلوموں میں لیکچرار منظور احمدشان ولد
عبدالرحمن شان ساکن گول بھی شامل تھے۔ ایک متوسط گھرانے کا چشم وچراغ 38
سالہ منظور صاحب بچپن سے ہی عبادت الٰہی اور دیگر فلاحی کاموں کا پاپند
تھا۔ان کی ابتدائی تعلیم گول میں ہوئی اور اس کے بعداعلیٰ تعلیم کیلئے
انہوں ادھمپو پورر اور جموں کا رْخ کیااورپولٹیکل سائینس کے لیکچرار بنے ۔
ان دنوں وہ ہائر سیکنڈری سکول ٹھٹھارکہ میں تعینات تھے۔ منظور کی اہلیہ بھی
لیکچرار ہیں اور وہ اپنے پیچھے دوبیٹیاں اور ایک بیٹے سمیت والدین اور بہن
بھائیوں کو چھوڑ گئے۔۔یہ مرحوم کی نیک سیرتی کا ہی ثمرہ تھا کہ انہیں دم
واپسیں سے چند ماہ قبل ہی بہ اتفاق رائے مرکزی جامع مسجد گول کی انتظامیہ
کمیٹی کا صدر منتخب کیا گیا۔ لوگ ان پر بھروسہ کرتے تھے اور ان کی قابلیت
اور ایمانداری کی وجہ سے انہیں عزت کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔ اس رات قران
کریم کی بے حرمتی کی خبر سننے کے بعد ہزاروں لوگوں کی طرح منظور احمد بھی
موقع ٔ واردات پر پہنچ گئے، لوگوں کے جم غفیر کو سمجھا رہے تھے کہ پر امن
رہیں۔ یہاں تک کہ وہ مظاہرین کو بی ایس ایف کیمپ کی طرف کی جارہی پیش قدمی
کو بھی روکنے کے لئے کوشاں تھے مبادا کوئی حادثہ پیش آئے، مگر آہ! پہلی
گولی ان کوہی مار دی گئی۔ گولی لگنے کے وقت ایس ایس پی رام بن جاوید احمد
متو بھی ان کے برابر میں کھڑے تھے اور لوگوں کے غصے کوٹھنڈا کرنے کی کوشش
میں لگے تھے۔ ایس ایس پی رام بن اپنی جان بڑی مشکل سے بچا پائے اور کئی
قلابے کھانے کے بعد تھوڑی دور گرے۔ منظور احمد شان کو گولی لگنے کے بعد
باقی لوگ انہیں اٹھانے کے لئے آگے بڑے تو یکے بعد دیگرے ان پر بھی بندوق
کے دہانے سے آہن وآتش کی بوچھاڑ کی گئی ۔ بر سر موقع ایک جگہ پر چار
افرادجاں بحق ہوگئے۔ بے تحاشہ فائرنگ سے دو سو فٹ کے اندر اندر احتجاج کرنے
والے 42دوسرے افراد بھی زخمی ہوگئے۔
فاروق احمد بیگ ولد غلام عباس بیگ (عمر 35برس) ساکن سلبلہ گول اپنے علاقے
کے معروف استاد منظور احمد شان کو گولی لگنے کا ناقابل یقین نظارہ دیکھ
کرزور زور سے چلائے کہ ہمارے منظورسر کو مار دیا گیا ۔ وہ انہیں بچانے
کیلئے گولیوں کی گن گرج کے بیچ آگے بڑے اور بی ایس ایف کی فائرنگ میں
دوسرے شخص تھے جنہوں نے اپنی جان دے دی۔ فاروق احمد منظور احمد کے شاگرد
تھے، اس طرح استاد اور شاگرد نے ایک ہی جگہ پر جاں، جان آفرین کے سپرد
کردی۔ فاروق احمد بیگ پیشے سے مزدور تھے اور پتھر توڑ کر اپنے دو
بیٹوں،بیٹی اور اپنی اہلیہ کی پرورش کرتے۔ بدھ کی رات جب قران مقدس کی بے
حرمتی کرنے کی خبر فاروق احمد نے سنی تو وہ بھی رات سے داڑم جانے کیلئے
تیار ہو گئے۔ اْس دن کی سحری سے فراغت کے بعد اپنی بیوی سے کہا کہ میں نماز
فجر پڑھ کر داڑم جارہا ہوں۔ ان کے ہمراہ ان کے دو اور بھائی بھی داڑم پہنچ
گئے۔ اسلامی جذبے سے سرشار جواں سال فاروق احمد کے دونوں گھٹنوں میں
کمزروری کی وجہ سے چلنے پھرنے میں مشکل آ تی تھی لیکن داڑم کا واقع سن کر
وہ رات بھر نہیں سوپایا اور فجر کی نماز کے بعد داڑم روانہ ہوگیا۔ فاروق
احمد بیگ کی اہلیہ بھی ایک ٹانگ میں کمزروری کی وجہ سے جسمانی طور لاغرہیں
اور۔ فاروق احمد ایک کچے اور خستہ حال مکان میں اپنی بیوی اور تین بچوں کے
ہمراہ زندگی گزار رہے تھے اور دن بھر کی مزدوری اور پتھر توڑتوڑ کر اپنی
گھر گرہستی چلاتے تھے۔ اس کا بڑا بیٹا مرتضیٰ اور بیٹی نازیہ پروین چوتھی
جماعت کے طالب علم ہیں جب کہ سب سے چھوٹا بیٹا مصطفی دوسری جماعت میں زیر
تعلیم ہے۔ اپنے گھر کا واحدسہارا چھین جانے کے بعد اس کنبے پر دکھوں اور
غموں کی بارش ہونا ایک قدرتی امر ہے۔میاںعبداللطیف بکروال ولد عبدالرشید
میاں (عمر 40برس)ساکن جا ملان داڑم گول پیشے سے مزدوری اور زمیندار تھے۔ وہ
شڈی واقعے کیخلاف سراپا احتجاج بن کر رات سے ہی مظاہرے میں شامل تھے۔ ان کا
گھر جائے حادثہ سے زیادہ دور نہیں ہے، اس لئے احتجاج شروع ہوتے ہی وہ وہاں
پہنچ گئے ۔ ایک کچے مکان میں رہنے والالطیف دین کے معاملے میں بڑے حساس اور
مخلص تھے۔ مقامی لوگوں میں انہیںایک اچھے انسان اور صالح مسلمان کی طرح عزت
دی جاتی تھی۔ وہ مقامی سطح پر لوگوں کے دکھ درد میں کام آنے والے شخص تھے۔
عبدا لطیف تین بچوں کا باپ تھے اور ان کی ایک اولاد ان کی شریک حیات کے بطن
میں پل رہی تھی جب وہ اللہ کو پیارے ہوگئے ۔ دو بیٹوں اور ایک بیٹی کا باپ
عبداللطیف میاں اگلے ہی روز چوتھے بچے کا باپ بن گئے۔ ان کے گھر میں ایک
بدنصیب یتیم بچی پیدا ہوئی ۔
جاوید اقبال منہاس ولد حاجی عبدالستار منہاس (عمر 16برس)ساکن بھیم داسہ گول
المیے کی منحوس اور ہو شربا خبر سن کر تڑپ اٹھے۔ یہ شاہین صفت صالح مزاج
نوجوان بیس کلومیٹر کا پیدل سفر طے کرکے داڑم پہنچ گیا۔ چھ بھائیوں اور چار
بہنوں میں جاوید اقبال منہاس سب سے چھوٹے تھے اور بچپن سے ہی دین کی طرف
راغب تھے ۔ متوسط گھرانے میں پیدا ہونے اور سب سے چھوٹا ہونے کی وجہ سے
انہیں سب افردا خانہ سے بہت لاڈ پیار ملاکرتا تھا۔ یہ نوجوان گورنمنٹ ہائر
سیکنڈری گول میں زیر تعلیم تھے اور دنیاوی تعلیم کیساتھ ساتھ دین کی طرف تن
دہی سے راغب تھے۔ جاوید اقبال منہاس بھیم داسہ جیسے دور افتادہ علاقے سے
پیدل چل کر داڑم پہنچے اور وہاں جاری احتجاج ی مظاہرے میں دینی ذوق وشوق سے
شامل ہو گئے۔ انہوں نے بی ایس ایف کی گولیوں کے شکار تین افراد کو جب اپنے
سامنے تڑپتے ہوئے دیکھا تو کمال جرأت کا مظاہرہ کیا اور آگے بڑھ کر انہیں
اٹھانے کے لئے جیسے ہی وہ نیچے جھکے تو دھن دھناتی ہوئی گولیاں ان کے سینے
اور سر میں پیوست ہوگئیں اور بر سرموقع وہ بھی کام آئے۔ اس باہمت نوجوان
نے چلتی گولیوں کے بیچ موت سے مردانہ وار مقابلہ کیا لیکن موت جیت گئی اور
جاوید اقبال منہاس اس لڑائی میں بظاہرہار گئے تاہم اس ہار میں ان کی حیات
جاوادنی کا راز چھپا ہو اہے۔ جاوید اقبال کے گھر میں آج بھی سوگواری
کاماتم ہے۔ ان کے والدین اور بہن بھائی کہتے ہیںکہ وہ مرا نہیں بلکہ زندہ
ہیں،وہ شہید ہوا ہے۔مقتول جاویداپنے دوستوں اور رشتہ داروں میں بہت مقبول
تھے ۔وہ نماز کے ساتھ ساتھ سماجی کاموں کی طرف بچپن سے ہی دلچسپی لیتے تھے
،یہی ان کی مقبولیت کی وجہ بھی تھی۔ جاوید اقبال کی موت نے پورے علاقے کو
سکتے میں ڈال دیا۔ گول کا المیہ ایک ایسا جانکاہ حادثہ ہے جسے بھلائے
بھلایا نہیں جا سکتا۔ اس نے ریاست میں ہر ایک امن پسند اور دین دار انسان
کو دم بخود کر کے رکھ دیا۔ یہ المیہ آج بھی ایک تروتازہ زخم بن کر نہ صرف
متاثرہ کنبوں کو تڑپا اور ترسا رہا ہے بلکہ عام لوگوں کے دلوں میں غم واندہ
کا لاو اجمع کر رہا ہے۔ اللہ تعالیٰ حرمت قرآن پر اپنی جان نچھاور کر نے
والے ان چاروں مومنوں کا درجہ بلند فرمائے اوران کے اہل خانہ کے واسطے ان
کی قربانی کو دنیوی واخروی انعام کا سبب بنائے اور مجروحین کو شفائے کاملہ
عاجلہ دے- |