جناب علامہ کینیڈی اور جناب سونامی خان صاحب لونگ مارچ
اور دھرنوں کی تیاریوں میں مصروف ہیں اور ان کے بیانات سے ایسا لگتا ہے کہ
کوئی پل جاتا ہے کہ شیر کو پنجرے میں بند کر دیا جائے گا اور تاج ان کے سر
پر سج جائے گا، آخر ان میں یہ بیچینی کیوں پیدا ہوئی؟ اتنی جلدی کیوں ہے؟
کہیں ان کی ڈوریاں کہیں باہر سے تو نہیں ہلائی جا رہیں؟
پیپلز پارٹی نے پانچ سال حکومت کی اور یہ پاکستان کی تاریخ کا بدترین دور
تھا مگر اس دوران میں علامہ کینیڈی کینیڈا کی برفانی ہواؤں کے مزے لوٹتے
رہے ان کو کبھی عوام کی بدحالی کا خیال نہیں آیا اور آیا تو اس وقت جب
الیکشن سر پر تھا اور اغلب امکان تھا کہ ن لیگ جیت جائے گی (جو بعد ازاں
صحیح ثابت ہوا)۔
رہ گئے جناب خان صاحب تو وہ ان پانچ سالوں تک زبانی جمع خرچ سے باہر نہیں
آئے بس تقریریں کرتے رہے اور نعروں کی گونج میں برا بھلا کہتے رہے ان کی
توپوں کا رخ پندرہ فیصد زرداری کی طرف ہوتا تھا (ہلکی آواز میں) جبکہ باقی
پچاسی فیصدگھن گرج نواز شریف کی طرف ہوتی تھی۔
ہم یہ نہیں کہہ رہے کہ نواز شریف کا دور کوئی مثالی دور ہے مگر ہمیں یہ بھی
دیکھنا چاہیے کہ کیا یہ ساری خرابی ان کی پیدا کردہ ہے یا پچھلی حکومتوں کا
کیا دھرا ہے جو ان کے سامنے ہے۔
اس لیئے ہم یہ کہنا چاہتے ہیں کہ جب پی پی کو پانچ سال دیے گئے تو ان کو
کیوں نہیں دیے جا سکتے جب کہ پی پی کے مقابلے میں کچھ کام ہوتے کچھ عملی
اقدامات ہوتے نظر آ رہے ہیں۔
کیا یہ وقت ان مارچز اور دھرنوں کے لیے مناسب ہے؟
جب تک افغانستان میں طالبان کی حکومت تھی پاکستان کو کو ئی فکر نہیں تھی
راستے ، بورڈر اور دل کھلے ہوئے تھے مگر ایک آمر جب اپنے مغربی آقا کے
سامنے سربسجود ہو گیا تو سارا منظر بدل گیا اور افغانستان میں ہندوستان نے
پاکستان کے قدم اکھاڑ کر اپنے قدم جما لیے۔ آج وہاں سے ازبک دہشتگرد اور را
کے ایجنٹ داخل ہو کر ہمارے شہروں میں تخریبی کارروائیاں کر رہے ہیں ہمارے
معصوم عوام کو خون میں نہلا رہے ہیں ایک طرف شیعہ کو مارتے ہیں اور دوسری
طرف سنی کو قتل کرتے ہیں ، ان کے ایجنٹ جو ہمارے درمیان رہتے ہیں وہ
افواہیں پھیلا کر بیچینی پیدا کرتے ہیں ان کی ہر ممکن کوشش ہے کہ عوام آپس
میں دست و گریبان ہو جائے۔
اب پاک فوج نے ان ازبک اور را ایجنٹس کے خلاف بڑے پیمانے پر آپریشن ضرب عضب
شروع کر دیا ہے اور اس میں ماشاء اﷲ کافی کامیابی بھی حاصل کر رہے ہیں مگر
افغان بورڈر اس میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے جہاں سے یہ دہشتگرد ہماری پاک
سرزمین پر اپنے ناپاک قدم اور ناپاک ارادے لے کر آتے ہیں۔ ہندوستان اور اس
کے مربیوں کا جس میں ہمارے نام نہاد دوست و ہمدرد ممالک بھی شامل ہیں ارادہ
یہ لگتا ہے کہ پاک افواج کو یہاں ایک طویل جنگ میں الجھا دیا جائے جس کے
نتائج لا محالہ خطرناک نکلیں گے ایک طرف ہماری معیشت تباہ ہو گی (جو پہلے
ہی کچھ اچھی نہیں ہے) اور اس جنگ میں اسلحہ اور انسانی جانوں کا جو ضیاں ہو
گا اس کا اندازہ کوئی بھی شخص لگا سکتا ہے۔
پاک فوج کو افغان بورڈر پر الجھا کر آج ہندوستان نے پہلا کنکر سیالکوٹ
بورڈر پر پھینک دیا ہے، جس سے ہمیں مستقبل کا اندازہ ہو جانا چاہئے۔
آج صورت حال یہ ہے کہ افغان بورڈر نے فوج کو الجھایا ہوا ہے اور یہ محاذ
پوری پوری توجہ کا متقاضی ہے، دوسری طرف مودی کی حکومت آنے کے بعد ہمیں
دوسری طرف سے بھی ہوشیار ہو جانا چاہیے تھا کہ اب امن کی آشا نہیں جنگ کی
بھاشا کے بادل منڈلا رہے ہیں۔ فرقہ واریت کو اچھالا جا رہا ہے بد امنی اور
بھتہ خوری معیشت کو نگل رہی ہے۔عوام ہر طرح سے پریشان ہیں۔ کیا ایسی صورت
حال میں لونگ مارچ یا دھرنے جائز ہیں؟
سوال یہ ہے کہ آخر اس موقع پر کیوں یہ بازیگر اپنا اپنا تماشا دکھانا چاہتے
ہیں؟ علامہ کینیڈی کہتے ہیں میں اپنی جرابیں تک لے آیا ہوں خیر ان جرابوں
کا عوام کیا کریگی ہاں ہو سکتا ہے ہوسپٹلز کے آپریشن رومز میں مریضوں کو
بیہوش کرنے کے کام آ جائے ورنہ تو پاکستان کے لیے ان علامہ کی طرح بے فائدہ
ہیں۔ علامہ جی نے یہ وضاحت نہیں کی کہ جب وہ ہمیشہ کے لیے پاکستان آ گئے
ہیں اور جرابیں تک لے آئے ہیں تو ـ․․․․․․․․ کیا اپنا کینیڈین پاسپورٹ بھی
واپس کر آئے ہیں کہ لو بھئی آپ کا شکریہ آپ نے مجھے شہریت دی پاسپورٹ دیا
اب میں اپنے وطن جا رہا ہوں وہاں عوام کی جنگ لڑوں گا تو یہ رہی آپ کی
شہریت اور یہ رہا آپ کا پاسپورٹ اب مجھے ان کی ضرورت نہیں۔ مگر سچ کڑوا
ہوتا ہے اور علامہ صاحب میٹھا میٹھا ہپ کڑوا کڑوا تھو پر عمل پیرا ہیں۔
موصوف کہتے ہیں کہ اب انقلاب آئے گا اور اقتدار میں اپنے ہاتھوں میں رکھوں
گا اور جب وقت آئے گا (واضح رہے جب وقت آئے گا) تب میں خود الیکشن
کرواؤنگا۔جناب آپ چند لاکھ مریدوں کے بل پر اٹھارہ کروڑ لوگوں کی قسمت کا
فیصلہ کرنے نکلے ہیں آپ کو یہ اختیار کس نے دیا؟ اوہ اچھا اچھا جناب کا
رابطہ براہ راست سپئریر اتھارٹی سے (یعنی اﷲ سبحانہ تعالیٰ ) رہتا ہے آپ
خواب بہت دیکھتے ہیں شاید پھر سے کوئی بشارت مل گئی ہو گی۔ ہم اس سلسلے میں
اتنا ہی کہ سکتے ہیں لاحول ولا قوۃ الا باﷲ العلی العظیم۔
اب رہے ہمارے خان صاحب تو آپ بھی اقتدار حاصل کرنے کے لیے کسی بھی حد تک جا
سکتے ہیں آپ کو اتنا اچھا موقع ملا ایک صوبہ آپ کے پاس ہے آپ وہاں ایسے کام
کر کے دکھاتے کہ لوگ خود آئندہ آپ کو منتخب کرتے مگر آپ سے ہار برداشت نہیں
ہو رہی اور آپ فلم لائن کنگ کا وہ گانا گا رہے ہیں ، آئی جسٹ کانٹ ویٹ ٹو
بی کنگ، ۔آپ کی بہت عزت تھی اگر آپ منفی سیاست کے بجائے مثبت انداز میں کام
کرتے تو اس عزت میں اور اضافہ ہوتا، مگر زمینی حقائق آپ کو پریشان اور
مضطرب کر رہے ہیں ، نہ نہ نہ یہ اضطراب عوام کے لیے نہیں اپنی کرسی اور
اپنے اقتدار کے لیے ہے۔
ان دونوں حضرات کی عمریں چونسٹھ پینسٹھ تک پہنچ گئی ہیں اور مزید چار سال
انتظار کرنے کے بعد انہتر ستر کو پہنچ جائیں گے پھر حکومت کا کیا مزہ آئے
گا اس لیے یہ بیچین ہیں۔دونوں حضرات عوام کے نام پر عوام کا استحصال کر کے
ان کے جذبات سے کھیل کر صرف اقتدار کی کرسی تک پہنچنا چاہتے ہیں۔
ان دونوں کو یہ ڈر بھی ہے کہ اگر نواز شریف پانچ سال پورے کر لیگا اور اگر
اس نے اپنے بہت سے وعدوں میں سے چند بھی پورے کر لیے تو اگلا الیکشن بھی
جیت جائے گا۔ کینیڈی صاحب تو کبھی بھی الیکشن نہیں جیت سکتے اس لیے شورٹ کٹ
ڈھونڈ رہے ہیں ہاں خان صاحب الیکشن جیت سکتے ہیں مگر صرف اس صورت میں کہ ن
لیگ اپنے وعدے پورے نہ کر سکے۔
ہماری ان دونوں حضرات سے دست بستہ گزارش ہے کہ پاکستان اس وقت ایک نازک دور
سے گزر رہا ہے ، دشمن ہر طرف سے گھیر رہے ہیں ہندوستان ایک طرف تو
افغانستان کو استعمال کر کے دہشتگردی کروا رہا ہے دوسری طرف اب سرحدوں پر
بھی چھیڑ چھاڑ شروع کر رہا ہے اندرونی حالات لاء اینڈ آرڈر کی صورت حال بھی
اچھی نہیں ، اور آپ لوگ ایسے وقت میں اپنی سیاست چمکانا چاہتے ہیں صرف
اقتدار حاصل کرنے کے لیے؟ ذرا سوچیں جیسا کہ خان صاحب کہہ چکے ہیں کہہ گولی
چلانے والے سپاہی کو خود پھانسی دونگا دوسری طرف کینیڈی بھی ایسے ہی خیالات
کا اظہار کر چکے ہیں ، جب ایک بڑا ہجوم سڑکوں پر ہو گا اور اسے اپنے لیڈرز
کی آشیرباد بھی حاصل ہو گی تو وہ لازماً بے لگام ہو کر شرپسندی پر آمادہ ہو
جائے گا، ایسے میں اگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کی طرف سے روکا گیا یا
سختی کی گئی تو بڑے پیمانے پر ہنگامے پھوٹ پڑینگے اور ایک انارکی کی سی
سچویشن پیدا ہو جائے گی۔ کیا ایسے وقت میں ملک ان حالات کا سامنا کر سکتا
ہے کہ ایک طرف سرحدوں پر فوج الجھی ہوئی ہے دوسری طرف اندرون ملک انارکی
پھیل جائے؟ اگر آپ پاکستان کے وفادار ہیں اگر آپ پاکستان سے مخلص ہیں تو
براہ کرم اس ملک پر رحم کیجیے اقتدار تو آنی جانی چیز ہے اگر ملک ہے تو سب
کچھ ہے اور خاکم بدہن اگر ملک ہی نہ رہا تو آپ کہاں ہوں گے کہاں حکومت
کرینگے؟ اس لئے اﷲ کے لیے باز آ جائیے اور اس نازک وقت میں حکومت کا ساتھ
دیجیئے اپنے کارکنوں کو ووٹ دینے کے لیئے بچا کر رکھیئے نہ کہ انہیں برستی
گولیوں میں جھونک کر غریبوں کی لاشوں پر سیاست چمکایئے۔ کیونکہ یہ جنگ
اقتدار کی جنگ ہے غریبوں کی نہیں۔ آپ کی بادشاہت کی جنگ ہے فقیروں کی نہیں۔
آپ کے مفاد کی جنگ ہے ملک کی نہیں۔
سوچ لیجیئے اب بھی وقت ہے ورنہ کل تاریخ آپ کو کبھی معاف نہیں کرے گی۔ |