لکھنا۔۔مختلف لوگوں کا پیشہ بھی اور مشغلہ بھی ہے،ایک بات
طے ہے کہ تحریر مزاحیہ ہو یا سنجیدہ،نثر ہو یا شاعری،لکھنے والا باشعور ،فہم
اورموجودہ حالات کی سنگینی کا ادراک رکھتا ہوگا،علاقائی سطح سے لیکر قومی
نوعیت کے مسائل لکھنے والا ہوش مند اور بالغ نظر ہوتا ہے،اسکی بات میں
خلوص،درد،وطن پرستی اور ملکی مسائل کے حل کا وہ طریقہ کار جو وہ اپنے
علم،تجربے اور حالات کے تناظر میں لکھتا ہے،ایک خاص قسم کا وزن ہوتا ہے،وہ
نہایت سادگی اور مکر و فریب سے عاری ہوکے اقتدار کے نچلے اور اونچے ایوانوں
تک اپنی آواز اپنی لکھت کے ذریعے پہنچاتا ہے،وہ کسی تھنک ٹینک کا حصہ نہیں
ہوتا،لیکن عوام میں سے ہوتا ہے، دوسری طرف ہمارے پروفیشنل لکھاری،کالم نگار
اور اداریہ نویس عوام کی آواز اور انکے حالات اپنے کالم،سٹوری،خبر اور
اداریہ کے ذریعے اہل اقتدار،اہل حکومت ، حکومت کے نمائندؤں اور بیوروکریسی
تک پہنچاتے ہیں،میرا ایک طویل مشاہدہ ہے،آپ بھی اپنا ذہن کم ازکم دس سال
پیچھے دوڑا کے دیکھیں،تو پتہ چلتا ہے کہ ہمارے اہل اقتدار اور بیوروکریسی
ہمارے لکھنے والوں اورکالم نگاروں کی تحریروں،تجاویزوں اور مشوروں کو کسی
کھاتے میں نہیں گنتی۔۔فوجی حکومت ہو یا جمہوری حکومت، چھوٹے رائیٹروں سے
لیکر بڑے بڑے جفادری کالم نگاروں،لکھاریوں اور شاعر ادیب کی کسی بات پر کان
نہیں دھرتی،یہ اشرافیہ اور اہل زر گروپ نے تو کبھی ان سینئر اداریہ نویسوں
کی نہیں سنی جو روز رات کے آخری پہر ملکی حالات کا رونا روتے،انتہائی
مشق،عرق ریزی ،گہری فکر،طویل مشاہدہ اوراپنی آنکھوں کا نور جلا کے ملکی
نوحہ اداریے کی صورت لکھتے ہیں،یہ بے حسی اور لاپروائی آج بھی جاری ہے،الٹا
زخموں پر نمک چھڑکتے ہوئے کہتے ہیں کہ صحافی ،شاعر ادیب معاشرئے کا نباض
ہوتا ہے،وہ اپنی تحریروں میں ملکی یک جہتی اور استحکام پر زور دئے۔اب بندہ
ان سے پوچھے کہ بھائی میرے یہ لوگ تو ہمیشہ اپنی تحریروں،کالمز اور اداریؤں
میں یک جہتی اور ملکی استحکام کی بات کرتے ہیں،آپ بتائیں آپ ملک کو کب
استحکام کر رہے ہیں،آپ تو ملک ٹوٹنے،لوٹنے اور لوٹی دولت لیکر بھاگنے کے
چکروں میں رہتے ہیں،آپ کے منہ سے لفظ ملکی استحکام اچھے نہیں لگتے۔ہمارے
لیڈرز حادثاتی طور پر کسی نہ کسی طرح اقتدار کی مسند تک پہنچ تو جاتے
ہیں،لیکن ان کا مقصد عوام کی خدمت اور ملکی استحکام ہرگز نہیں رہا،انکا
کردار،شخصیت،قول و فعل میں تضاد،وعدے،قسمیں اوررہن سہن کا معیار،اقتدار،
طاقت،پروٹوکول کی ہوس میں ڈوبے یہ سیاستدان پھر بھلا کیوں کسی کی بات سنیں
گے،جو اقتدارکے سنگھاسن پر بیٹھا ہو ،وہ اپنے آپ کو عقل کل سمجھتا ہے،وہ
بھلا کیسے کسی دوسرے کی بات سن کے برداشت کرئے گا،ہمارے حکمرانوں کو اول تو
کسی کتاب،اخبار،کالم میں کوئی دلچسپی نہیں،اہل دانش تو ویسے بھی انہیں
کھٹکتے ہیں،وہ انہیں اپنے پاس بھی نہیں پھٹکنے دیتے،یہی وجہ ہے کہ ہمارے
بہترین ،قابل فخر دانشور کبھی کسی حکومت کا حصہ نہیں بنئے،سوائے چند ایک کے
جو اپنے تیئں دانشوری کا لبادہ اوڑھے حکومتی لنگر سے لطف اندوز ہوتے
ہیں،یہاں یہ بھی خیال رہے کہ دانشوروں کا سیاست میں آنا یا کسی حکومت کو
مشاورت دینا گناہ یا شجرہ ممنوع نہیں ہے،ہاں اگر حکومت پورے احترام اور
قدرومنزلت سے انہیں مدعو کرئے یا حکومتی ٹیم میں شامل کرئے تب وہ بھی اس
شرط پر آمادگی ظاہر کریں کی انکی بات سنی جائے گی اس پر عمل بھی ہوگا تب
کوئی ہرج نہیں،لیکن ہماری تاریخ بتاتی ہے کہ اس طرح کبھی ہوا نہیں،ہمارے
نام نہاد دانشوروں نے موقعہ ملتے ہی کاسۂ گدائی کو تھام لیا،اپنا اور
دوسروں کا امیج خراب کیا،چھوٹی موٹی وزاتوں،سفارتوں اور عہدوں پر مر
مٹے،ظالموں اور انکی سفاکیت پر پھول برسائے،مزے کی بات،حکمرانوں نے بات تب
بھی انکی نہ مانی،ایسے لکھاریوں اور دانشوروں نے جب دیکھا کہ اقتدار کی
غلام گردشوں میں وہ راندۂ درگاہ ہورہے ہیں ،تب وہ واپس اپنی کمین گاہوں میں
لوٹ آئے اور آج تک اعلیٰ عہدوں کی یادوں کا زخم چاٹتے دن گزار رہے
ہیں،ہمارے محترم کالم نگار اپنے کالموں میں آئے روز حکومت کو عوام کے مسائل
سے آگا ہ کرتے رہتے ہیں،بجلی کی لوڈشیڈنگ پر چیختے ہیں،حکمرانوں اور
بیوروکریٹس کو مشورہ دیتے ہیں،نت نئی تحقیق سے حاصل جمع تفریق بتاتے ہیں،
بے لاگ تبصرئے،بہترین تجزیے نوازتے ہیں، فیکٹ اینڈ فگرز دکھاتے ہیں،کالا
باغ ڈیم کی افادیت ہو یاریکوڈک میں سونے چاندی کے انبار،کراچی کا امن ہو یا
جنوبی وزیرستان سے آئے نو لاکھ آئی پی ڈیز کے مسائل،اندرونی ملکی مسائل سے
لیکر مظلوم فلسطینی تک،اور ملکی امور کے حوالے سے روزانہ درجنوں انتہائی
اہم تحریریں لکھتے ہیں،جنہیں پڑھ کے ہر ایک دل سے داد دیتا ہے کہ اے کاش اس
پر کوئی حکومت عمل بھی کرئے تاکہ عوام کی محرومیاں،دکھ درد اور تکلیفیں دور
ہوں،عوام کو ووٹ دینے کی سزا سے چھٹکارا حاصل ہو،لوگوں کے چہروں پر حقیقی
خوشی دکھائی دئے،لوگوں کی جان مال اور عزتیں محفوظ ہوں،لیکن جب کوئی حکومت
اس واویلے پر،اس تجویز پر ، اس دل سے لکھی بات پر کان نہیں دھرتی،اسے کسی
قابل نہیں سمجھتی،آواز خلق کو نقارہ خدا نہیں سمجھتی تو اس کے نتیجہ میں
ہونے والے سانحات،حادثات اور نقصانات سے حکومت ڈگمگانے لگتی ہے،اس کے پاؤں
اکھڑنے لگتے ہیں،اسکی شہرت خراب ہوتی چلی جاتی ہے،ایسے ہی کسی موقعہ پر پھر
کوئی سونامی اور کوئی انقلاب جنم لیتا ہے،یاد رہئے کہ جو آج جنم لیتا ہے،کل
اس نے جوان اور توانا بھی ہونا ہوتا ہے کہ یہ ایک قدرتی امر ہے،پھر پانچ
سال مقدر والوں کو ملتے ہیں،لیکن حکومت کسی کی بات سننے کو تیار نہیں،بشر
دوست ملک ریاض حسین نے حکومت کو آفر کی کہ ایک لاکھ آئی پی ڈیز کی مکمل ذمہ
داری انہیں سونپ دی جائے تو وہ بآسانی انہیں سنبھال سکتے ہیں،دیکھ لیں۔۔آج
تک انہیں کوئی جواب نہیں ملا،بالکل ایسے ہی جیسے ہمارے یہ لکھنے والے حکومت
کو خلوص نیت سے اصلاح و احوال دیتے ہیں واپسی جواب تو نہیں ملتا لیکن ترپ
جواب ضرور ملتا ہے ، ملک صاحب والی بات ایک چھوٹی سی مثال ہے ،لیکن میرے
محترم ملک صاحب اور تمام قابل احترام شاعر ادیب اور کالم نگاروں،آپ یہ کیوں
بھول جاتے ہو کہ اقتدار والے ہمیشہ عقل کل ہوتے ہیں،کانوں کے قدرے کچے مگر
کام کی بات سننے میں پکے بہرئے۔۔عمل کم۔۔اشتہارات زیادہ !! |