کیسا جشن آذادی ؟

آزادی الله رب العزت کی نعمتوں میں سے ایک انمول نعمت ہے اور اس دن جس دن آزادی کی نعمت ملتی ہے اس دن دنیا جشن بھی مناتی ہے اور منانا بھی چاہئیے۔ اور قرآن کریم میں خالق ارض وسمآ نے ارشاد فرمایا کہ جب تم پر الله کا کوئی فضل ہو تو اس پر خوشی کا اظہار کرو۔ ١٤ اگست ١٩٤٧ کو الله رب العزت نے قائداعظم کی قیادت میں مسلمانان ہند کو آذادی کی نعمت سے نوازا اور اسطرح پاکستان معرض وجود میں آگیا۔ اور اب ہر سال اہلیان پاکستان ١٤ اگست کو جشن آذادی مناتے ہیں اور اب حکومت پر براجمان ن لیگ نے اگست کے پورے ہفتہ میں آذادی کا جشن منانے کا فیصلہ کیا ہے اپنے سیاسی مقاصد کے لئیے ۔ مجھے جشن آذادی منانے پر اعتراض ہے اور یہ میرا نقطہ نظر ہے سو فیصد غلط ہو سکتا ہے۔ ١٤ اگست کو جشن آذادی نہیں بلکہ جشن قیام پاکستان منانا چاہئیے کیونکہ آذاد تو آج تک ہم ہوے ہی نہیں البتہ الله کے فضل سے ہمیں پاکستان جیسی عظیم نعمت ضرور مل گئی اور اس پر جتنی بھی خوشی کا اظہار کیا جائے اتنا ہی کم ہے۔ ١٤ اگست ١٩٤٧ کو چند مہینوں کے لئیے آذادی ملی ، قائداعظم محمد علی جناح اس دنیا سے رخصت کیا ہوے آذادی بھی ہم سے روٹھ گئی اور دوبارہ ہم غلامی کی زنجیروں میں جکڑ لیے گئے اور آج تک غلامی کا طوق ہمارے گلوں میں پڑا ہے اور ناجانے کب تلک پڑا رہے گا ۔ قیام پاکستان سے پہلے ہم انگریز اور ہندو کے غلام تھے آج چند خاندانوں نے ہمیں غلام بنا رکھا ہے۔ قیام پاکستان سے پہلے تمام بڑے کاروباروں پر ہندو کا قبضہ تھا اور آج چند خاندانوں کی اجارہ داری ہے، شوگرملز سے لیکر فلور ملز تک ، بنکوں سے لیکر پاور ہوسز تک ، گھی ملز ، کوکنگ آئل ، پیٹرول پمپ ، سی این جی اسٹیشن ، ڈیری فارمز ، لائیو سٹاک اور حتی کہ انڈوں تک کے کاروبار پر قابض ہیں ہمارے حکمرآنوں کے بچے یا انکے رشتہ دار ، انھوں نے کوئی کاروبار عوام کے لئیے چھوڑا ہی نہیں اور یقین کریں لوگوں کو میں نے دہائی دیتے سنا ہے وہ کہتے ہیں کہ ظالموں کوئی کام ہمارے لئیے بھی چھوڑ دو ۔ حضرت ابو بکر صدیق رضی الله عنہ مدینہ منورہ کے تاجر تھے اور جب خلافت کی مسند پر بیٹھے تو اگلے روز کاربار کے لئیے مارکیٹ جانے لگے تو حضرت عمر بن خطاب رضی الله عنہ نے پوچھا کہ حضرت کدھر جارہے ہیں آپ نے جواب دیا کہ کاروبار کرنے جارہا ہوں، حضرت عمر رضی الله عنہ فرمانے لگے کہ جناب اگر آپ بھی کاروبار ، تجارت کریں گے تو عام تاجروں سے مال کون خریدے گا ؟ سب لوگ آپکی خوشامد کے لئیے آپ ہی سے مال خریدیں گے اور آپکے اثاثے تو بڑھ جائیں گے اور عام تاجر تو مارا جائے گا، آخرکار حضرت ابوبکر رضی الله عنہ کو تجارت چھوڑنا پڑی ۔ مگر ہمارے سیاستدان حکومت بھی کرتے ہیں اور کاروبار بھی ایسے میں عوام خوشحال کیسے ہوسکتی ہے ، ماضی میں سپریم کورٹ نے حکم دیا کہ چینی ٤٠ روپے کلو بیچی جائے مگر اس پر عمل نہ ہوسکا کیونکہ شوگر ملز مالکان اسمبلیوں میں بیٹھے تھے اور آج بھی بیٹھے ہیں۔ قیام پاکستان سے پہلے بھی تعلیم و روزگار کے دروازے ہم پر بند تھے آج بھی بند ہیں ، ہم کل بھی غلامی کی زنجیروں میں جکڑے تھے آج بھی جکڑے ہیں ایسے میں کیسا جشن آذادی ؟ جس قوم کے آئندہ پیدا ہونے والے بچے بھی آئی ایم ایف اور ورلڈ بنک میں گروی پڑے ہوں وہ قوم آذاد قوم کہلانے کی حقدار ہے ؟ جس فوم کا وزیرآعظم اسرائیل کی مذمت میں ایک ڈھنگ کا بیان نہ دے سکے اور امریکہ بہادر کی مرضی کے خلاف بول نہ سکے وہ کیا جانے کہ آذادی کیا ہوتی ہے۔ میں نے پاکستان بنتے تو نہیں دیکھا مگر ان لوگوں سے ضرور ملا ہوں جنھوں نے وطن عزیز کو بنتے ناصرف دیکھا تھا بلکہ اس کے حصول کے لئیے قربانیاں بھی دیں ، میں نے ان لوگوں کی زبانوں سے انگریز دور کی تعریفیں جب سنتا تھا تو انکو انتہائی تلخ لہجے میں کہتا تھا کہ جناب آذادی بڑی نعمت ہوتی ہے ، اپنا ملک اپنا ہوتاہے ، اس وقت جوانی کی دہلیز میں نیا نیا قدم رکھا تھا ، طبعیت میں جنون تھا اور میں انھیں ملک دشمن کہنے سے بھی گریز نہیں کرتا تھا مگر آج مجھے احساس ہورہا ہے کہ وہ کیوں شاکی تھے ؟ انھوں نے تو اس ملک کو بنایا تھا ، وہ مجھ سے زیادہ محب وطن تھے ، اصل میں وہ پاکستان نہیں بلکہ اسکے حکمرانوں سے ناراض تھے جنھوں نے ٦٥ سالوں سے عوام کو غلام بنا رکھا ہے۔ یہ پاکستان اور دو قومی نظریہ کے مخالف نہ تھے ، لیکن جب وہ قیام پاکستان اور دو قومی نظریہ کے مخالفین کو بڑے بڑے عہدوں پر دیکھتے تھے تو انکا خون ضرور خولتا تھا اور وہ کہتے تھے کہ قربانیاں ہم نے دیں مگر نوازا انھیں گیا جو پاکستان کے قیام کے خلاف تھے اور یہ ناروا سلوک آج تک جاری ہے ، جس کے آباؤ اجداد پاکستان کی پ کے مخالف تھے اور آج تک جو اپنے آباء کے مؤقف پر قائم ہیں وہی لوگ وزارتوں کے مزے بھی لوٹ رہے ہیں ۔ جس قوم میں ٦٥ سال گذرنے کے بعد بھی دو قومی نظریے پر بحث ہورہی ہو کہ وہ ٹھیک تھا یا غلط وہ کیا جانے آذادی کس بلا کا نام ہے، ایسے میں جشن آذادی کیسا ؟ جہاں اکیسویں صدی میں بچے بھوک سے مررہے ہوں ، جہاں ہسپتالوں ، سکولوں کے لئیے فنڈز نہ ہوں ، جہاں غریب کے لئیے دو وقت کی روٹی نہ ہو ، سر پر چھت نہ ہو ، جسم ڈھانپنے کو کپڑا نہ ہو ، وہاں اربوں لگا کر جشن آذادی منانا کیسا ؟ ملک مسائل میں گھرا ہے وزیرآعظم صاحب بمعہ فیملی عمرے پر تشریف لے گئے ہیں اگر تو قومی خزانے سے خرچہ کیا ہے تو یہ غریب عوام پر ظلم عظیم ہے اور اگر اپنی جیب سے خرچ کیا ہے تو اسراف ہے۔ حج ایک بار فرض ہے اور عمرہ نفل ہے لیکن رعایا کی خدمت آپ پر فرض ہے۔ ایک بادشاہ تھا اس نے حج نہیں کیا تھا اسکے دل میں خواہش تھی کہ کاش میں بھی حج کرتا کیونکہ حج کا بڑا اجر ہے ، بادشاہ ایک درویش کے پاس گیا جس نے ٦٠ حج کیے ہوے تھے ، بادشاہ اس درویش سے کہنے لگا کہ مجھے ایک حج کا ثواب دے دو بدلے میں جو چاہو مجھ سے لے لو ۔ درویش کہنے لگا تم مجھ سے میرے سارے حجوں کا ثواب لے لو مگر مجھے بدلے میں اپنی زندگی کا وہ ایک لمحہ دے دو جس میں تم نے عدل کیا۔ آخر میں ان حضرات سے بھی عرض کرنا چاہوں گا جو ہر سال عمرے پر جاتے ہیں کہ اگر تو فیشن کے طور پر جاتے ہیں تو جاتے رہو لیکن اگر ثواب کی غرض سے جاتے ہو تو اسکی بجائے کسی غریب کی بیٹی کی شادی کروا دو ، کسی غریب بے روزگار کو کاروبار شروع کروا دو ، کسی نادار مریض کا علاج کروا دو ، کسی یتیم کی تعلیم کا خرچ اٹھا لو نتیجہ میں اگر روز محشر تمہارے نامہ اعمال میں کئی عمروں کا ثواب نہ نکلے تو میرا گریبان پکڑ لینا ، جنت کے سارے دروازے تیرا استقبال نہ کریں تو کہنا۔ الله بھی راضی اور میرے آقا صلی الله علیہ وسلم بھی راضی ۔
پیوستہ رہ شجر سے امید بہار رکھ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Usman Ahsan
About the Author: Usman Ahsan Read More Articles by Usman Ahsan: 140 Articles with 186589 views System analyst, writer. .. View More