ابھی کل کی بات ہے کہ عمران خان جنہیں لٹیرے کہہ کر واصل
جہنم کرنے کا رادہ رکھتے تھے،اب اُن کے ساتھ شیر و شکر ہوتے نظر آتے ہیں،
بھلا خود بتائیے کہ جو لوگ تمام عمر ڈکٹیٹر اور مارشل لاء کے بل بوطے پر
سیاست کرتے رہے اُن کے ساتھ گڑینڈ الائینس بنا کر جمہوریت کو کیسے بچایا جا
سکتا ہے؟
پارٹی کے سیاسی استحکام کے لیے کبہی کبہی ایسا کرنا پڑ جاتا ہے مگر جناب اب
اگر آپ اپنی ہر بات سے پھر جائیں تو اس کو کیا کہا جائے؟
رہی سہی کسر آپ نے قبلہ زرداری صاحب کے دور کو بہتر قرار دے کر پوری کر
دی،شاید یہ وہی زرداری صاحب ہیں جن کے صدر بننے کے خلاف آپ نے بھرپور
احتجاج کیا تھا ،آپ وزیر اعظم بن جانے کی صورت میں اُن سے حلف لینے سے بھی
انکاری تھے،آپ اُنہیں کرپشن کا بادشاہ بھی کہتے تھے اور ایسے کئی القابات
سے آپ نے اُنہیں نوازا جو کسی بھی طور پارلیمانی اخلاقیات کو ملحوظ خاطر
رکھتے نہیں دیے جاسکتے تھے۔آپ اُنہیں مشرف سے بھی بدترقرار دیتے تھے اور اب
آپ اُن کی حمایت کرتے نظر آتے ہیں۔
ہم نے تو پڑھا تھا کہ سیاسی پارٹیاں اپنے نظریے اور اصولوں کی بنیاد پر
پہچانی جاتی ہیں ۔خان صاحب کی ماضی کی تقریروں اور موقف نے ہی تبدیلی کی
خواہاں عوام کے دلوں میں ایک نئی اُمیدپیدا کی تھی۔ مگر اُن کے حالیہ بیان
یہ ظاہر کر رہے ہیں کہ اُنہوں نے بھی روایتی سیاستدانوں کی طرح صرف الیکشن
جیتنے کے لیے ہی یہ سب باتیں کی تھیں۔اُن کے ماضی کے بیانات اور تقاریر کو
دیکھ کر ہم یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ اُن کی نظر میں کون ٹھیک ہے اور کون
غلط۔ یا اُنکے نظریاتی ساتھی آخر کون ہیں اور آئے دن ان میں تبدیلی کیوں
آتی رہتی ہے؟اُن کے وہ بیانات جو ہماری اُلجھن کا باعث بن رہے ہیں-
آپ خود ہی بتائیں خان صاحب کہ جس انسان کو آپ اپنا چپڑاسی رکھنا پسند نہیں
کرتے تھے،کیا وجہ ہے کہ اب وہ آپ کے نزدیک ترین اتحادی ہیں اور روز رات ٹی
وی شوز پر آپ کا دفاع کرتے نظر آتے ہیں؟ آپ بھی ان کی ہر بات میں تائید
کرتے ہیں، یہ آپ کی اور آپ ان کی مدد سے راولپنڈی میں الیکشن بھی جیتے اور
اب آپ ہی کے ساتھ اپوزیشن بھی کرتے نظر آ رہے ہیں-
آپ کے جیالے شدید شش و پنج میں مبتلا ہیں کہ آیا وہ کس کے حق میں سوشل
میڈیا پر تحریک چلائیں اور کس کے خلاف آپ سے اپنی محبت کا حق ادا کریں آپ
کے روز روز بدلتے بیان اور تبدیل ہوتی پسندو نا پسند نے اُنہیں ایک عذاب
میں ڈال رکھا ہے ۔ برائے مہربا نی آپ ایک دفعہ خوب سوچ و بچار کے بعد یہ وا
ضح کر دیجیے کہ آیا آپ کی نظر میں کون اچھا ہے اور کون بُرا،تاکہ آپ کے
جیالے اُس کے مطابق اپنی محبت کا حق ادا کر سکیں۔ کچھ سیانے لو گ یہ کہتے
سنائی دیے ہیں کہ خان صاحب کو اللہ نے اپنا آپ ثابت کرنے کا بہترین موقع
دیا ہے اگروہ اپنے صوبے میں اپنے وعدوں ا ور دعووں کے مطابق کام کر کے
دکھائیں،وہاں اپنے وژن کو عملی شکل دیں اور لوگوں کی زندگیوں میں وہ تبدیلی
لائیں جس کا اُنہوں نے وعدہ کیا تھا،تو پھر انہیں یہ سب کرنے کی ہرگز ضرورت
نہیں پڑے گی۔ اور اگلے الیکشن میں عوام خود اُن کے شانہ بشانہ کھڑی نظر آئے
گی۔ مگر خان صاحب کو بھلا ایسوں کی بات پر کان دھرنے کی کیا ضرورت،خان صاحب
خود بڑے سیانے ہیں۔
نواز ہٹائو تحریک کے پالیسی سازوں کے ذہن میں یہ سوچ بیٹھ گئی ہے کہ وہ
اسلام آباد کی طرف چل پڑے تو جی ٹی روڈ کے کسی نہ کسی مقام پر تاریخ خود
کو دہرا دے گی۔ حوالہ اس ضمن میں اس ٹیلی فون کال کا دیا جا رہا ہے جو نواز
شریف کو گوجرانوالہ پہنچ جانے کے بعد وصول ہوئی جس کے نتیجے میں افتخار
چوہدری بحال ہو گئے اور ان کے جانثار لاہور واپس لوٹ گئے۔
ذاتی طور پر میں اس سوچ سے ہرگز اتفاق نہیں کرتا۔ نواز شریف کے مارچ کا
مقصد افتخار چوہدری کو بحال کروانا تھا آصف علی زرداری یا یوسف رضا گیلانی
کا استعفیٰ لینا نہیں۔ |