وسطی جمہوری افریقاسے عیسائی ملیشیاکے تشددکے نتیجے میں
نقل ہمسایہ ملک کیمرون جانے والے مسلمان متاثرین کے ساتھ غریب عیسائیوں کی
بھی بڑی تعدادشامل تھی ۔جنہیں اس ملک میں ذات کی بنیاد پرتعصب اورحق تلفی
کاسامناتھا ۔ وسطی جمہوریہ افریقا کے اہل خیر مسلمان مسلمانوں کے ساتھ غریب
عیسائیوں کے ساتھ بھی انسانی ہمدردی کی بنیاد پر بھلائی کرتے تھے ۔گزشتہ
سال اگست میں اینٹی بالاکا ملیشیاکی جانب سے مسلمانوں کے خلاف نسل کشی مہم
شروع ہونے کے بعد تشددکانشانہ بننے والے غریب عیسائیوں کی بڑی تعداد نقل
مکانی کرکے مسلمانوں کے ساتھ پڑوسی ملکوں کیمروں اورچاڈ چلے گئے ۔
عرب ویب سائٹ الولوکہ کی رپورٹ کے مطابق مغربی افریقی ملک کیمرون کے مسلمان
بھی دیگر اسلامی ممالک کی طرح ماہ رمضان کی روحانی برکتوں اورخوشیوں سے لطف
اندوزہورہے ہیں ۔کیمروںمیں مقامی مسلمانوں کے علاوہ وسطی جمہوری افریقاسے
آئے ہوئے 1لاکھ 30ہزارسے زائد مسلمان مہاجرین بھی پناہ لئے ہوئے ہیں ۔خیمہ
بستیوں کے پناہ گزینوں میں مسلمانوں کے ساتھ عیسائیوں کی بھی بڑی تعدادپناہ
لئے ہوئی ہے ۔ویب سائٹ کے مطابق مسلمانوںکے ساتھ کئی ماہ رہنے کے بعد ان
عیسائیوں کی اکثریت اب اپنے سابقہ دین پر باقی نہیں رہی ہے اورانہوںنے دین
اسلام کوقبول کرلیاہے ۔
ترک خبررساں ایجنسی اناطول کی رپورٹ کے مطابق کیمرون میں ماہ رمضان کے
دوران پناہ گزین مسلمانوںکی دینی سرگرمیوں اورکھانے پینے کے انتظامات کے
لیے کیمرون آرگنائزیشن فارکلچرکام کررہاہے جوترکی کے غیرسرکاری خیراتی
ادارے ”عزیز محمودھودائی “کی زیرنگرانی ہے ۔عزیز محمودھودائی ترکی کے مخیر
مسلمانوںکے تعاون سے قائم ہے یہ خیراتی ادارہ دنیابھرمیں نسلی ومذہبی
تشددکانشانہ بننے والے مسلمان متاثرین کوامدادفراہم کرتاہے ۔ادارے نے اس
سال کیمرون کے دارالحکومت یاونڈی سمیت ملک کے بڑے شہروں اورخیمہ بستیوںمیں
دینی تعلیم کے فروغ کے لیے رمضان المبارک کی مناسبت سے مراکز کھولے ہیں
جہاں مسلمانوں اورنومسلموں کو اسلامی تعلیمات سکھائی جاتی ہیں ۔
عرب ویب سائٹ النیلین کے مطابق خیمہ بستیوں میں نومسلموں کی نمائندگی کرنے
والے عبداللہ نامی ایک نوجوان بھی شامل ہے ۔عبداللہ کاسابقہ نام فابریس تھا
۔کیمرون آنے کے بعد عبداللہ کا پوراخاندان مسلمان ہواہے اورپوراخاندان اس
سال پہلی مرتبہ روزہ رکھنے کی سعادت حاصل کر رہاہے ۔عبداللہ کے مطابق وسطی
جمہوری افریقاسے آئے ہوئے درجنوں خاندان زندگی میں پہلی مرتبہ روزہ رکھ رہے
ہیں کیمرو ن میں روزے کادورانیہ 13گھنٹے ہے ،موسم گرم ہے اورکیمپوںمیںزیادہ
سہولیات بھی نہیں لیکن اس کے باوجود کسی فردنے تنگی اورپشیمانی کاشکوہ نہیں
کیا۔عبداللہ کے مطابق نومسلموں میں کیمروں کے مقامی باشندے بھی ہیں اوروسطی
جمہوری افریقاسے آئے ہوئے متاثرین بھی ۔سینکڑوں نومسلم پابندی کے ساتھ روزہ
رکھ رہے ہیں۔اناطول کے مطابق کیمروں کی خیمہ بستیوںمیں پناہ گزین نومسلم
روزہ داروںنے روزے سے متعلق اپنے تاثرات بیان کرتے ہوئے بڑی خوشی
کااظہارکیااکثریت کاکہناتھاکہ چونکہ سحری کاتجربہ ان کے لیے نیا ہے اس لئے
وہ کھاپی نہیں سکتے تاہم جب سے انہیں معلوم ہواہے کہ سحری میں کھاناپینابھی
باعث ثواب ہے تواب وہ بڑی خوشی سے اٹھتے ہیں ۔ نومسلم مردوخواتین دن کو
زیادہ وقت اسلامی مرکز میں گزارتے ہیں جہاں انہیں قرآن کریم کی تعلیم دی
جاتی ہے ۔مردوں اورخواتین کے لیے الگ الگ انتظام ہے عورتوں کو سکھانے کے
لئے خواتین معلمات کااہتمام کیاگیاہے ۔رپورٹ کے مطابق وسطی جمہوری افریقاکے
مسلمانوں میں حفظ قرآن کا رواج ہے نقل مکانی کرنے والے مسلمانوں میں
ہزاروںکی تعدادمیں کم سن حفاظ موجود ہیں ۔اپنے ہم عمر حافظ قرآن بچوں
کودیکھ کر عیسائی بچوں میں بھی قرآن کریم یاد کرنے کاشوق پیداہواہے ۔کیمرون
کی خیمہ بستیوں میں قائم مراکزمیں نومسلموں کے سینکڑوں بچے بھی قرآن کریم
حفظ کررہے ہیں جبکہ کیمپوں میں سینکڑوں مقامات پرختم قرآن کااہتمام
کیاگیاہے ۔
کیمرون کے مقامی آرگنائزیشن کے ذمہ داروں نے بتایاکہ مغربی افریقاکے کئی
ممالک میں اسلام اور مسلمانوں کے خلاف نفرت اورتشدد کے بڑھتے ہوئے واقعات
کے باوجود کیمرو ن کے مقامی عیسائیوں میں قبول اسلام کے واقعات گزشتہ برسوں
کے مقابلے میں بڑھے ہیں ۔دستیاب اعدادوشمارکے اس رمضان میں دارلحکومت
یاونڈے میں اسلام قبول کرنے والے عیسائی مردوخواتین کی تعداد331ہے ملک کے
دیگر شہروں میں اسلام قبول کرنے والوں کی تعدادایک ہزارسے متجاوزہے۔المحیط
کی رپورٹ کے مطابق وسطی جمہوری افریقامیں گزشتہ برس انتہاپسند عیسائی
ملیشیااینٹی بالاکاکے ہاتھوں سیکڑوں مسلمانوں کو قتل کیاگیاہے تشددکی بڑھتی
لہر کے نتیجے میں دولاکھ سے زائد مسلمان چاڈ اورکیمرون منتقل ہوئے ہیں
۔رپورٹ کے مطابق خیمہ بستیوں کے غریب پناہ گزینوں کے سحری اورافطاری
کاانتظام ترک ادارے کیجانب سے کیاجاتاہے۔غریب اورمستحق متاثرین میں ہفتہ
اور دس دنوں کے لیے راشن تقسیم کیاجاتاہے۔تاہم متاثرین میں ایسے مسلمانوںکی
بھی بڑی تعدادموجود ہے جو کاروبار کرتے ہیں کماتے ہیں اوردوسرے مستحقین کی
امدادبھی کرتے ہیں۔ کیمرون آرگنائزیشن کلچرکی جانب سے خیمہ بستیوںکی پناہ
گزین خواتین اوربالخصوص نوجوان لڑکیوں کو کڑھائی ،سلائی اوردیگر
گھریلوہنرسکھائے جاتے ہیں تاکہ متاثرین کسی پر بوجھ بنے بغیر اپنے پیروں
پرکھڑے ہونے کے قابل ہوسکے کیمرون آئے ہوئے مسلمانوں نے دینی سرگرمیوں کے
ساتھ دنیاوی کاروباربھی جاری رکھاہے ۔ |