قیام پاکستان سے لے کر ابتک

جرسی بیکن نے کہا تھا کہ بہادری و عقل مندی کی شناخت یہ ہے کہ یہ لوگ ہمیشہ منصب اور حکمرانی سے دور بھاگتے ہیں۔ سولہ مارچ اور تئیس مارچ پاکستان کی بگڑی ہوئی و پرآشوب تاریخ کے تابناک اور تاریخ ساز دن ہیں اور یہ بھی سچ ہے کہ دونوں دن ہماری سیاسی جمہوری و سماجی ہسٹری کے چہرے پر چودھویں کے چاند کی طرح جگمگاتے رہیں گے کیونکہ ان دنوں میں برصغیر پاک وہند کے مسلمانوں و پاکستانیوں نے دو انقلابات کا ظہور دیکھا۔ انیس سو چالیس اور دو ہزار نو کے دونوں دن پاکستانیوں کے لیے خوشیوں کی نوید لائے۔ آج سے انہتر سال پہلے تئیس مارچ انیس سو چالیس کو مینار پاکستان کے وسیع و عریض رقبے میں لاکھوں مسلمانوں کا جم غفیر بانی پاکستان حضرت قائداعظم کی امامت و سیادت میں شادمانی و مسرت اور شوق فرداں و جنون بادہ پیمانی کے سمندر میں ڈوبا ہوا تھا۔ آج آل انڈیا مسلم لیگ نے انسانی انبوہ کے اس میلے میں تحریک پاکستان پیش کی اور پھر اسی قرارداد کے بطن سے صرف سات سالوں بعد چودہ اگست انیس سو سینتالیس کو مسلمانان ہند کے لیے ایک ریاست نے جنم لیا۔ گو کہ تحریک پاکستان کے مقاصد و افکار قصہ پارینہ بن چکے ہیں مگر یہ بھی سچ ہے کہ آدھا ملک کھو دینے کے باوجود ہمارے اس لولے لنگڑے ملک کو دنیا میں ایک خاص مقام حاصل ہے۔ انہتر سال پہلے والے مارچ نے ہندوؤں و فرنگیوں کی غلامی میں کولہو کے بیل کی طرح آہ و فغاں کرنے والے کروڑوں مسلمانوں کو خود مختیار ریاست کا تحفہ دیا۔ جبکہ دو ہزار نو کے مارچ نے قوم کو آزاد عدلیہ کا گوہر نایاب دی۔ سولہ مارچ دو ہزار نو کو معزول ججز کی بحالی عوام کی جیت اور اسٹیبلشمنٹ کی شکست کے ناقابل فراموش چمتکار دیکھنے کو ملے۔

پاکستان تیسری دنیا کا پہلا ملک ہے جہاں میڈیا کو بےنکیل قسم کی آزادی حاصل ہے۔ ترقی یافتہ ملکوں میں میڈیا کی ایسی آزادی کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ ترقی یافتہ ریاستوں میں الیکٹرانک میڈیا کے ناظرین و سامعین بھی ترقی یافتہ ہوتے ہیں مگر ہمارا باوا آدم ہی نرالا ہے۔ ہماری صورتحال یہ ہے کہ جیسے اندھیروں میں بھٹکنے والے لوگ میکدہ ظلمت سے باہر نکل کر تیز روشنی میں آگئے ہوں۔ شائد اسی لیے ان کی آنکھیں چندھائی جارہی ہیں اور نگاہیں خیرہ ہو رہی ہیں۔ معزول ججز کی بحالی جن حالات میں ہوئی اس پر قوم نے تشکر منایا کہ چلو رسیدہ بود بلائے ولے بخیرگزشت۔ میڈیا میں افتخار چوہدری کی بحالی کا کریڈت نوازشریف کو دیا جارہا ہے۔ حالانکہ سچ تو یہ ہے کہ سولہ مارچ کے انقلاب کی کامیابی میں مسلم لیگ، سویلین کمیونٹی، سیاسی و دینی جماعتوں کے علاوہ پاک فوج اور پی پی کے صدر و وزیراعظم نے انمٹ کردار ادا کیا مگر الیکٹرانک چینلز پر پاک فوج کے متعلق بدگمانیاں و قہرمانیاں برسائیں گئیں۔ کہا گیا کہ پاک فوج سکون سے بیرکوں میں بیٹھی رہی اور لانگ مارچ رکوانے میں فوج نے کوئی کھیل نہیں کھیلا۔ پاک فوج ٹس سے مس نہیں ہوئی اور پاک فورسز انقلابی ریلے کے سامنے جمنے کی ہمت سے محروم تھی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ پاک فوج نے صبروتحمل کا مظاہرہ کیا۔ وگرنہ جہاں تک آپشنز کا تعلق ہے تو فوج کے پاس کئی آپشنز تھے۔ پاک فوج پر تنقید کی یلغار کرتے ہوئے کئی بےبصیرت دلائل گھڑے گئے کہ چونکہ پچھلے چند سالوں میں فوج کا تشخص پاتال میں گر چکا تھا اسی لیے پاک فوج کے پاس ماورائے آئین اقدام کرنے ملکہ نہیں تھا اور چونکہ فوج عوامی تائید سے محروم تھی اسی لیے بےبس ہوگئی۔ طرہ یہ کہ خانہ جنگی کے شوشے بھی جی بھر کر چھوڑے گئے۔ ایک طرف حکومت تھی جس کا سٹینس سخت گیر تھا۔ وہ پنجاب سے اٹھنے والی صداؤں اور عوام کو سول نافرمانی پر اکسانے کے شریفی فیصلے پر برہم تھی۔ وہ سمجھ رہی تھی کہ کیا اس عمل کا رد عمل نہیں ہوسکتا؟ کیا پی پی کو ایک سال پہلے ملنے والا مینڈیٹ اتنا دھیما پڑ گیا تھا جسے لانگ مارچ کا یہ سیلاب بہا لے جاتا؟ بعض حلقوں نے یہ سوال اٹھایا کہ کیا فوج انیس سو اکہتر کی طرح من آنم کہ من دانم کی تصویر بن کر بیٹھی رہے گی؟

دانشوروں کے ایک قابل ذکر گروہ نے تو پہلے سے ہی ہاہاکار مچائی ہوئی تھی کہ اس پہلے کہ کوئی سانحہ دل گداز واقع ہو فوج آگے بڑھ کر اپنا کردار ادا کرے مگر چمکتا دمکتا سچ تو یہ ہے کہ پاک فوج نے اشتعال انگیز صورتحال کو ڈیفیوز کرنے کی کوششیں جاری رکھیں۔ ایک قابل غور پوائنٹ تو یہ بھی ہے کہ اگر پرویز کیانی کی جگہ کوئی دوسرا طالع آزما یا جرنیل ہوتا تو اس کے پاس جمہوری حکومت کو فارغ کرنے کا گولڈن چانس تھا۔ وہ ضیاﺀ الحق کی طرح ڈبل گیم کرتا۔ ایک طرف حکومتی کیمپ کو اپنی وفاداری کا حلف دیتا اور دوسری جانب وہ اپوزیشن کو حق بجانب کہہ کر مارچ جاری رکھنے کی ہلہ شیری دیتا اور جب دونوں فریقوں کے مابین تصادم ہوتا تو انارکی پھیلتی خون کی ندیاں بہہ جاتیں۔ دونوں کے حصے میں شہادت کا کریڈٹ ضرور آتا۔ ایسی مخدوش صورتحال میں پوری قوم چلانے لگی اور ایک ہی مطالبہ کرتی کہ فوج ملک کو بچانے کے لیے حکومتی طنابیں سنبھال لے۔ یوں کوئی ایوب خان یا ضیاﺀ الحق فرشتہ رحمت بن کر ٹی وی پر ”میرے ہم وطنوں” کے تاریخ ساز الفاظ ادا کرنے کے لیے آنکھوں کے سامنے ہوتا۔ پاکستان کا بنگلہ دیش کے ساتھ تقابلی جائزہ کرنے والے شعور سے عاری تھے کیونکہ بنگلہ دیش میں جو پولیرائزیشن تھی اسکا عشرعشیر بھی یہاں نہ تھی۔

انیس سو اکہتر میں صد فیصد بنگالی پاک فوج کے جانی دشمن بن چکے تھے۔ ای بی آر اور ای پی آر نام کی فوجی یونٹوں نے بغاوت کا علم تھام لیا۔ غیرممالک اور عالمی طاقتیں مکتی باہنی کو عسکری و مالی امداد سے نواز رہی تھی مگر ہمارے ہاں نہ تو غیرملکی ہاتھ لانگ مارچ کی پشت پناہی کر رہے تھے اور نہ ہی لانگ مارچ کے پارٹیسیپنٹس علیحدگی کا نعرہ مارکر کاروان عدل کے شریک سفر تھے۔ یہ کہنا کہ پاک فوج مداخلت کے قابل نہ تھی ایک بودی دلیل کے علاوہ کچھ نہیں۔ جنرل کیانی کے لیے گولڈن چانس تھا کہ وہ تصادم کے خطرات کے پیش نظر سولہ مارچ کی شام کو حکومتی پتوار تھام لیتے۔ کیونکہ خونیں حالات میں ایسا کرنا انکی ذمہ داری تھی مگر قابل داد ہیں۔ جنرل کیانی اور انکے کور کمانڈرز جنہوں نے جمہوریت کا گلا کاٹنے کی نہ تو منصوبہ بندی کی اور نہ ہی ان کے من میں ایسی کوئی سوچ کارفرما تھی۔ میڈیا کی خبروں کے مطابق سولہ مارچ سے کچھ دن پہل پاکستان کا دورہ کرنے والے مغربی شخصیات کی پاکستان آمد میں کچھ نہ کچھ حصہ جنرل کیانی نے بھی مکس کیا۔ جنرل کیانی مبارکباد کے مستحق ہیں کہ انہوں نے بوناپارٹزم سے اجتناب کیا۔ کیانی نے صدر اور نواز شریف کو گرانقدر مشورے دیئے کہ وہ ججز کی بحالی کو ان کا مسئلہ نہ بنائیں جبکہ شریف برادران کو کہا کہ وہ ججز کی بحالی کے علاوہ دیگر معاملات کو پس پشت ڈال دیں۔ یوں پاک فوج کے کریڈٹ کو ڈِس کریڈٹ کرنے کی حرکتوں سے اجتناب ہی محب وطنی اور پاک فوج سے عقیدت کا اظہار ہوگی۔

تئیس مارچ انیس سو چالیس کو منظور کی جانیوالی قرارداد مقاصد کا جو حشر قیام پاکستان کے بعد ہوا اس نے تو قیام پاکستان کے حقیقی افکار کو تہہ بالا کردیا۔ تئیس مارچ انیس سو سینتالیس سے لیکر سولہ مارچ دو ہزار نو تک کا درمیانی عرصہ کوئی خوشگوار تاریخ نہیں رکھتا۔ ماسوائے قیام پاکستان اور عدلیہ کی آزادی۔ پورے ملک میں افتخار چوہدری کی بحالی پر جشن منائے جا رہے ہیں مگر کوئی یہ سوچنے پر تیار نہیں کہ تحریک پاکستان کے حقیقی حسن کو کس طرح بحال کیا جائے۔ یوں حکمرانوں سے لیکر سیاستدانوں اور عوام سے لیک وکلاء تک ہر کسی کو بحالی کا جشن منانے کے ساتھ ساتھ قرارداد مقاصد کی دفن کردہ تاریخ کی تلاش اور پھر افکار قائد کی پیروی کے لیے اپنا بھرپور کردار ادا کریں ورنہ چیف جسٹس کی بحالی پر دھمال ڈالنے سے یہاں کوئی تبدیلی نہیں آسکتی۔ جنرل کیانی نے جمہور پرور محب وطن پاکستانی کا تالیف قلب کردار ادا کیا ہے جس پر جرسی بیکن کا یہ جملہ ذہن میں اجاگر ہوتا ہے کہ بہادر و عقلمند کبھی منصب و تخت کی ہوس کا شکار نہیں بنتے۔ یوں لگتا ہے جیسے یہ جملہ جنرل کیانی کے لیے کہا گیا ہو۔
Abid Hussain burewala
About the Author: Abid Hussain burewala Read More Articles by Abid Hussain burewala: 64 Articles with 90615 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.