این آر او کی پارلیمنٹ سے منظوری
کے معاملے لے دے کے بعد حکومت نے مجبوراً اس متنازعہ آرڈیننس کی منظوری کا
بل نہ صرف واپس لے لیا ہے بلکہ وزیر اعظم سید یوسف رضا گیلانی کے این آر او
کا فیصلہ عدالت پر چھوڑنے کے اعلان کے بعد تو آرڈیننس حامیوں کی پسپائی میں
کوئی شبہ نہیں رہا۔ این آر او کیا ہے، اس سے کس نے فائدہ اٹھایا یا قانون
کا حصہ نہ بننے پر کس کو کیا نقصان ہو گا؟ یہ بحث ایک عرصہ سے اس حد تک گرم
رہی ہے کہ سیاست سے ذرا برابر بھی دلچسپی رکھنے والے عام آدمی سے بھی
دریافت کیا جائے تو وہ یقیناً اس آرڈیننس کو مفاہمت کے نام پر سیاستدانوں
کے تمام ”گناہوں“ کے معافی نامے ہی سے موسوم کرے گا تاہم این آر کی منظوری
کے لیے حکومتی بے تابی اور پھر مؤقف میں یکسر تبدیلی، اپوزیشن جماعتوں
خصوصاً مسلم لیگ (ن) کی شدید مخالفت، اور اہم حکومتی اتحادیوں کی جانب سے
صدر آصف علی زرداری کو مستعفی تک ہونے کے مشورے کے پیچھے کون سے عوامل
کارفرما ہیں؟ اس سوال کا جواب کی تلاش ہنود جاری ہے اور اس سلسلہ میں جو
حقائق فی الحال میسر ہیں ان کو دیکھتے ہوئے ایک ہی بات سمجھ میں آتی ہے کہ
جس طرح مجبوریوں کے جکڑے ہمارے سیاستدانوں نے مفاہمتی معاہدے کو قبول کیا
تھا بالکل اسی طرح اب اپنے اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے مختلف مؤقف اپنائے
این آر او کی حمایت یا مخالفت کر رہے ہیں۔
منظوری کے لیے حکومتی بے تابی پر نظر ڈالیں تو پیپلز پارٹی کی ”مجبوریاں“
آسانی سے سمجھ میں آجاتی ہیں۔ قومی مصالحتی آرڈینس کے تحت قومی احتساب
بیورو نیب سے اپنے ریفرنسسز ختم کرانے اور فائدہ اٹھانے والوں میں ملک بھر
میں اہم ترین شخصیات شامل ہیں۔ صرف نیب ہی نے 300 سے زائد افراد کو این آر
او کے تحت مقدمات خارج کیے جن میں سے 97 پاکستان کے اہم ترین سرکاری عہدوں
پر فائز رہے جن پر 100 ارب روپے سے زائد کے کرپشن ریفرنسز نیب میں درج تھے۔
ان میں صدر آصف علی زرداری، سابق ڈی جی ایف آئی ائے اور موجودہ وزیر داخلہ
رحمن ملک، سابق وفاقی وزیر تجارت موجودہ وزیر دفاع احمد مختار، سابق وفاقی
وزیر ملک مشتاق اعوان کے نام بھی سرفہرست ہیں۔ مشرف حکومت کے آخری ایام میں
سابق وزیر اعظم بے نظیر بھٹو کی وطن واپسی اور سیاستدانوں کو معافی دینے کا
معاہدہ جسے قومی مفاہمتی آرڈیننس یا این آر او کا نام دیا جاتا ہے اگرچہ
شروع دن ہی سے ہدف تنقید رہا ہے لیکن حکومت خصوصاً صدر آصف علی زرداری کے
لیے اس کی اہمیت اس لیے زیادہ ہے کیونکہ وہ اسی آرڈیننس کے نفاذ کے بعد ہی
حکومتی عہدوں کے لیے اہل قرار پائے تھے لیکن 31جولائی 2009ء کو سپریم کورٹ
آف پاکستان تین نومبر 2007 کو سابق صدر پرویز مشرف کی طرف سے ملک میں نافذ
کی گئی ایمر جنسی کے خلاف اپنے تفصیلی فیصلے میں اس این آر او کے ذریعے
تحفظ پانے والے تمام آرڈیننسوں کا مستقبل پارلیمنٹ کی منظوری سے مشروط کر
چکی ہے، عدالت عظمیٰ نے اپنے فیصلے میں واضح لکھا ہے کہ اگر چار ماہ کے
اندر قومی اسمبلی یا پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں پیش نہیں کیا جاتا تو
اسکی قانونی حیثیت ختم ہو جاتی ہے، لہٰذا اگر مقررہ مدت میں پارلیمنٹ اس
آرڈیننس کو پاس نہیں کرتی تو مفاہمت کا جنازہ نکل جائے گا جس کے بعد اقتدار
کے تسلسل کا تو تصور ہی محال ہے لہٰذا این آر او میں منظوری کے لیے حکومتی
بھاگ دوڑ اقتدار بچانے کی فکر کے سوا کچھ بھی نہیں۔
مسلم لیگ (ن) اور شریف برادران کی مخالفت کے حوالے سے دیکھیں تو ان کی منطق
کو سمجھنا بھی قطعاً مشکل نہیں کیونکہ 6 اکتوبر 2007 کو اس وقت کے صدر جنرل
(ر) پرویز مشرف کے نافذ کردہ اس آرڈیننس کے مطابق قومی مصالحتی آرڈیننس یکم
جنوری 1986ءسے12 اکتوبر1999ءتک درج ہونے والے مقدمات کا احاطہ کرتا ہے۔
اگرچہ اس سے کم و بیش 26سو افراد کے مستفید ہونے کا اندازہ ہے لیکن شریف
برادران کو مفاہمتی آرڈیننس اس لیے فائدہ نہیں دے سکا کہ ان کے خلاف داخل
مقدمات این آر او میں دی گئی مدت کے بعد داخل ہوئے تھے۔ ویسے بھی مسلم لیگ
(ن) فرینڈلی اپوزیشن کا نعرہ لگاتے لگاتے سیاسی میدان میں اس قدر پیچھے جا
چکی تھی کہ اسے ”ان“ ہونے کے لیے کسی بڑے ایشو کی ضرورت تھی اور اس نے یہ
ضرورت این آر او کی پارلیمنٹ سے منظوری کی مخالفت کر کے بڑی حد تک پوری کر
لی ہے جس کے بعد میاں برادران اور ان کی پارٹی کی مقبولیت کا گرتا ہوا گراف
بڑی حد تک سنبھل گیا ہے۔ آگے ان کی حکمت عملی کیا ہوگی؟ اس کا تو علم نہیں
البتہ اتنا ضرور کہا جا سکتا ہے کہ مفاہمتی آرڈیننس پر ن لیگ کے دو ٹوک
مؤقف ہی کا اثر ہے کہ اس کے علاوہ دیگر جماعتوں کو بھی بل کی مخالفت ہی کا
راستہ اپنانا پڑا حتیٰ کہ مولانا فضل الرحمٰن اور الطاف حسین جیسے حکومتی
اتحادی تک این آر او اپوزیشن جماعتوں کی حمایت پر مجبور ہوگئے اور پھر یہی
صورتحال حکومتی طرز عمل کی تبدیلی کا بھی باعث بن گئی۔
اگرچہ کھلے عام مخالفت کی آڑ میں مسلم لیگ (ن) حکومتی پسپائی کا تمام تر
کریڈٹ اپنی جھولی میں ڈال رہی ہے لیکن پس پردہ محرکات کچھ اور تھے۔ ذرائع
کے مطابق حکومت کو اس بل کی منظوری کے لیے قومی اسمبلی میں 172ارکان کی
ضرورت تھی لیکن بد قسمتی سے دوسری جانب اس کی مخالفت کرنے والے 180ارکان
متحد ہوچکے تھے اور یہی وہ عددی فرق تھا جو حکمرانوں کے لیے درد سر بن گیا
کیونکہ اس کے باوجود اگر حزب اقتدار این آر او بل اسمبلی میں لاتی تو عین
ممکن تھا کہ اس کا اپنا ہی دھڑن تختہ ہوجاتا۔ این آر او مخالف اتحاد میں
اپنے 91ارکان کے ساتھ مسلم لیگ ن ہی نہیں بلکہ ق لیگ اور ہم خیال کے 54،
فاٹا کے 9، ایم کیو ایم کے 25 اور اے این پی کے ایک رکن نے بھی مخالفت میں
ووٹ دینے کا فیصلہ کر لیا تھا جس کا سیدھا سیدھا مطلب اس معاملے پر حکومت
کی ناکامی اور اپوزیشن اتحاد کے اقتدار میں آنے کی راہ ہموار کر سکتا تھا
لہٰذا حکومت کو جان کے لالے پڑ گئے اور پھر جب ایم کیو ایم کے قائد الطاف
حسین نے کھلے عام صدر آصف علی زرداری کو قربانی کے نام پر مستعفی ہونے کا
مشورہ دیا اس کے پاس کوئی دوسرا آپشن ہی نہ رہا اور یوں وزیر اعظم کو بھرے
ایوان میں معاملہ عدلیہ پر چھوڑنے اعلان کرنا پڑا۔
این آر او سے مستفید ہونے والوں میں ایم کیو ایم سر فہرست ہے کیونکہ
آرڈیننس کے تحت ختم ہونے والے مقدمات میں سب سے زیادہ اسی جماعت ہی کے تھے
لیکن ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین نے جس طرح کھلے بندوں حکومتی بل کی
مخالفت کی اس نے سب کو ورطہ حیرت میں ڈال رکھا ہے لیکن باخبر حلقوں کے
مطابق یہ غیر متوقع نہیں کیونکہ این آر او مخالف اتحاد پی پی حکومت نہیں
بلکہ صرف آصف علی زرداری کی صدارت کیخلاف ہے جبکہ اس کوشش میں نادیدہ قوتیں
بھی شامل ہیں جنہوں نے صرف ایک ڈیڑھ برس میں مفاہمتی سیاست کو فروغ کے
دعویداروں کو ایک دوسرے کیخلاف کھڑا کر دیا ہے اور متحدہ قومی موومنٹ کی
جانب این آر او پر حکومتی مخالفت بھی اسی سلسلہ ہی کی ایک کڑی ہے اور وہ
آرڈیننس کی منسوخی کے نتائج سے باخبر ہونے کے باوجود شاید اپنی ساکھ بچانے
کے لیے پر تولنے لگی ہے۔ حکومتی اعلان کے مطابق عدلیہ کیا فیصلہ دیتی ہے یا
پھر چار ماہ کی مدت ختم ہونے کے بعد مفاہمتی آرڈیننس کا انجام کیا ہوگا یہ
تو آنے والا وقت ہی بتائے گا لیکن اتنا ضرور واضح ہوگیا ہے کہ ایک طرف کل
مجبوریوں کے تحت این آر او کی چھتری تلے جمع ہونے والے آج مجبوریوں ہی سے
مجبورہو کر نتائج سے بے خبر ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچ رہے ہیں تو دوسری
طرف یہ سلسلہ جاری رہنے کی صورت میں حسب روایت جمہوریت مخالف قوتوں کے اپنی
جبلت کے ہاتھوں ”مجبور“ ہونے کے امکانات بھی سر اٹھا رہے ہیں۔ |